سوہنے رنگ پنجاب دے

سفر پنجاب کے تاریخی شہر علی پور چٹھہ کا اور ذکر وادی سون کے چندمقامات کا

سفر پنجاب کے تاریخی شہر علی پور چٹھہ کا اور ذکر وادی سون کے چندمقامات کا

RAWALPINDI:
حالاںکہ رسول نگر کے جین مندر میں اس کے پرانے پجاریوں کے نقش تلاش کرتے ہوئے، میں اور عباس فیصلہ کر چکے تھے کہ ہمیں اکال گڑھ یعنی علی پور چٹھہ کی خاک بھی چھاننی ہے مگر کب؟ یہ تعین نہ ہو سکا تھا۔

کبھی عباس مصروف ہوتا تو کبھی میں۔ کبھی عباس کو عین اتوار والے دن ڈیوٹی پر بلا لیا جاتا تو کبھی میری کچھ گھریلو مجبوریاں آڑے آجاتیں اور ہمیں پروگرام ملتوی کرنا پڑتا۔ بالٓاخر ایک اتوار قدرت کو ہم پر رحم آ ہی گیا اور بہت انتظار کے بعد ہم دونوں کو ایک اتوار ایسا میسر آیا کہ دونوں ہی اپنے گھر بار اور نوکریوں سے چھٹی پر تھے۔

فیصلہ ہوچکا تھا کہ یقینی طور پر عباس گوجرانوالہ سے علی پور چٹھہ آئے گا اور میں سیالکوٹ سے براستہ وزیرآباد علی پور چٹھہ پہنچوں گا۔ موسم چوںکہ سرد تھا تو نکلنے میں تھوڑی سی تاخیر ہو گئی اور پھر اوپر سے یہ بھی فکر کہ دن چھوٹا ہے۔ پانچ بجے کسی مٹیار کے سرمئی آنچل کے پھیل جانے کی وجہ سے سورج کو بھی شرما جانا تھا اور سورج کے شرمانے سے پہلے پہلے میرا گھر پہنچنا ضروری تھا۔

جس کا مطلب تھا کہ میں ہر صورت سہ پہر تین بجے اپنا کام علی پور چٹھہ سے مکمل کر کے رختِ سفر باندھ لوں کیوںکہ گھر سے نکلنے سے پہلے میں نے سیالکوٹ سے علی پور چٹھہ تک کے ریلوے اسٹیشن کا سفر ماپ لیا تھا جو کہ پورے دو گھنٹے کا تھا۔ علی پور چٹھہ کا ریلوے اسٹیشن ہم دونوں کے ملن کی جگہ ٹھہرا تھا۔ اصل میں ہوا یہ تھا عباس مجھے مختلف پوائنٹس بتا رہا تھا کہ میں جب وزیرآباد کی جانب سے علی پور میں داخل ہو رہا ہوں گا تو فلاں فلاں جگہ آئے گی، بس وہاں سے دائیں بائیں ہوکر فلاں جگہ آ جانا۔ مجھے یقیناً نہ کچھ سمجھ آنا تھا، نہ آیا۔ میں نے فوراً کہہ دیا کہ ہم بس ریلوے اسٹیشن پر ہی ملیں گے۔ عباس چوںکہ میرے ریل کے عشق سے واقف تھا اس لیے مسکرا کر فوراً مان گیا۔

جیسا کہ میں نے اوپر بتایا بھی کہ بہت دیر سے ہم دونوں علی پور چٹھہ جانے کا پلان کر رہے تھے۔ ایک بار ہمارا پلان کچھ یوں کینسل ہوگیا کہ شدید بارش ہوتی رہی، چوںکہ میں سفر پر جانے کے لیے تقریباً تیار تھا مگر نہ جا سکا تو تفریح کے لیے یہی سوجھا کہ حلوہ پوری لے کر ریلوے اسٹیشن چلا جاؤں۔ حلوہ پوری اس قدر لذیذ مجھے پہلے کبھی بھی نہیں لگی۔

موسم اس قدر خوب صورت تھا کہ مجھ سے گھر نہیں بیٹھا گیا اور میں حلوہ پوری لے کر اپنی من پسند جگہ پر چل دیا۔

بارش کے بعد کی شدید ٹھنڈی ہوا میں پلیٹ فارم پر بیٹھ کر حلوہ پوری کھانے کا بھی الگ ہی مزہ ہے۔

اکثر ہماری زندگی میں اچانک ایسے لمحات بھی آتے ہیں جن کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ وہ ایک دم سے آتے ہیں اور آپ کو بے پناہ خوشیاں دے کر چلے جاتے ہیں۔ حالاںکہ باہر پھوار لگی تھی مگر پھر بھی نجانے میرے پیارے دوست عابد کو کیا سوجھی کہ مجھے اسٹیشن پر بلا لیا۔ وہاں جا کر احساس ہوا کہ موسم کس قدر شان دار تھا۔

اس قدر شان دار کہ بیان سے باہر۔ ذرا تصور کریں کہ کیسا سحرانگیز ہوگا کہ تیز پھوار میں ہلکی سی رفتار سے ریل آپ کے سامنے سے گزر رہی ہے اور آپ کے ہاتھ میں کافی کا ایک کپ ہو۔ اردگرد مکمل ویرانی ہو اور ماحول میں ریل کی آواز تیز ہواؤں کی ارتعاش سے مل کر آپ کے دل و دماغ کو مسرور کر رہی ہو۔

شاید میں اس منظر، اس کیفیت کو بیان کرنے کے قابل ہی نہیں۔

بات چوںکہ میرے شہر کے ریلوے اسٹیشن کی ہو رہی ہے تو موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سیالکوٹ کے ریلوے اسٹیشن سے جُڑی اپنے ایک دوست احسان مبارک کی چھوٹی سی محبت بھری کہانی بھی احسان مبارک کی زبانی آپ کو سناتا چلوں۔

''اسی اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر جولائی 1994 کی ایک سہ پہر کراچی جانے والی ٹرین کے ہارن کی وجہ سے میرا دل پہلی بار اس شدت سے دھڑکا کہ اگلے دوماہ تک دھڑکنیں بے ترتیب رہیں اس دوران مجھے یہ خوش گوار احساس نصیب ہوا کہ مجھے محبت ہو چکی ہے۔

پھر کئی سال تک وصل و ہجر کے سلسلے اسی اسٹیشن پر جاری رہے۔

پھر 2003 میں وہ وقت بھی آیا کہ میرے چچا کی ساری فیملی اسی اسٹیشن پر ٹرین میں سوار ہو چکی تھی۔ آج بھی ٹرین نے ہارن بجایا اور رینگنے لگی مگر آج دل نہیں دھڑکا کیوں کہ وہ لوگ میری شادی سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے اور جس کے لیے میرا دل دھڑکتا تھا وہ میرے پہلو میں کھڑی نم آنکھوں سے اپنوں کو الوداع کہہ رہی تھی۔''

مجھے بچپن سے ریل اس قدر پسند ہے کہ بچپن میں اکثر اتوار کو صبح صبح ریلوے اسٹیشن چلا جایا کرتا تھا حالاںکہ ریلوے اسٹیشن گھر سے کافی دور تھا۔ اس زمانے میں ''سمہ سٹہ'' پسنجر ٹرین صبح آٹھ بجے فیصل آباد سے سیالکوٹ پہنچتی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب کبھی پھاٹک بند ہوتا تو میں سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے ٹرین کا انتظار کرنے لگتا۔ مجھے ریل سے ایک عجیب طرح کا رومانس ہے۔ ایک خاص تسکین ملتی ہے ٹرین دیکھ کر۔ خواہ مخواہ دل خوش ہوجاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر ایک عجیب مگر پیارا سا ماحول ہوتا ہے۔

یار دوست بیٹھے گپوں میں مصروف ہوتے ہیں، سردیوں میں تین چار بندے کینو کے ساتھ دھوپ سینک رہے ہیں، کوئی چائے پی رہا ہوتا ہے۔ بچے بڑے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ تین چار مختلف گروپ ہاتھوں میں کیمرا تھامے فوٹو گرافی میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہاں سب عام لوگ ہوتے ہیں، مسافر کوئی نہ بھی نہیں۔ میرے شہر کا ریلوے اسٹیشن مجھے جیسوں کے لیے ایک پکنک پوائنٹ بن چکا ہے (کیوںکہ وہاں پورے دن میں صرف دو ٹرینیں آتی ہیں)۔ کیا ہی فطرتی ماحول۔ ریل۔۔۔عام لوگ۔۔۔۔دھوپ۔۔۔چائے۔۔۔پرندے۔۔۔کھلی ہوا۔۔۔ اور۔۔۔سکون۔ نجانے کیوں مجھے خوشی کی تلاش صرف ریلوے اسٹیشن پر ہی کیوں لے آتی ہے۔

سچ کہتے ہیں کہ عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے۔ بات علی پور چٹھہ کی ہو رہی تھی اور ریل درمیان میں آ گئی۔

نومبر کی ایک ہلکی ہلکی دھند میں لپٹی ہوئی صبح کو جب اپنی غزال پر سفر شروع کیا تو باوجود اس کے کہ میں نے اپنے آپ کو جیکٹ اور دستانوں سے کور کیا ہوا تھا مگر پھر بھی ٹھنڈ کا احساس ہو رہا تھا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ موسم خواہ کوئی بھی ہو، بائیک کا سفر ہمیشہ آپ کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ دو گھنٹے کیسے گزر جاتے ہیں، احساس تک نہیں ہوتا مگر اپنے اور بائیک دونوں کے انجن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ ہر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے بعد بریک لے لیں اور کسی ٹرک ہوٹل پر بیٹھ کر ایک کڑک چائے پی لیں تو اس سے آپ بھی فریش ہوجائیں گے اور آپ کی بائیک بھی۔ کانوں میں ہینڈفری اگر ممکن ہو تو ضرور لگائیں۔ جو بھی ٹریکس آپ کو پسند ہوں، وہ اس پر چلنے دیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بائیک کا سفر آپ کو تھکانے کی بجائے جسم و دماغ کو فریش کرتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

وزیرآباد سے رسول نگر کو مڑتے ہی مین بازار شروع ہو جاتا ہے۔ اتوار صبح تقریباً نو بجے کا وقت تھا اور حلوہ پوری کی بینی بینی خوشبو مجھے شدید تنگ کر رہی تھی۔ پہلے تو دل للچایا کہ وہی حلوہ پوری کھانے کے لیے بیٹھ جاؤں کیوںکہ سفر ابھی ایک گھنٹے کا باقی تھا۔ مگر پھر سوچا کہ پیارے عباس کے ساتھ ہی بیٹھ کر حلوہ پوری کھائی جائے گی۔ حسبِ توقع عباس مجھ سے پہلے گوجرانوالہ سے علی پور چٹھہ پہنچ چکا تھا۔ فون پر چوںکہ رابطہ تھا تو میں نے عباس سے فرمائش کردی کہ میرے آنے تک کوئی اچھی سی حلوہ پوری کی دکان دیکھ کر رکھے۔ عباس نے راہ نمائی کی کہ کسی مقامی سے ریلوے پھاٹک کا پوچھ لیں اور وہیں آ جائیں۔ جب میں ریلوے پھاٹک پہنچا تو وہ بند تھا۔ عباس میری مخالف سمت میں تھا۔ میں نے بائیک وہی کھڑی کی اور عباس سے ''جپھا'' ڈالنے کے لیے دوڑ لگا دی (کیوںکہ عباس کو جپھی نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس کی سادی وجہ عباس کا شدید پیارا گول مٹول سا ضرورت سے بڑھا ہوا پیٹ ہے) اور پھر اتنے میں ریل آ گئی۔

حالاںکہ میں حلوہ پوری کا بہت شوقین ہوں مگر پھر بھی میں نے محض ایک پوری بڑی مشکل سے کھائی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ناک بند کرکے کھائی۔ یہاں سے آپ حلوہ پوری کے ذائقے کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ چائے پینا فرض تھا اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے علی پور چٹھہ کے ریلوے اسٹیشن سے زیادہ اور کوئی جگہ موثر نہ تھی۔ ہمارے بہت سے ریلوے اسٹیشنز کی طرح علی چٹھہ کے ریلوے اسٹیشن کی عمارت بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ عمارت کے ایک حصے پر ایک بورڈ بھی آویزاں کردیا گیا کہ ''یہاں کھڑے مت ہوں، عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔

'' ریلوے اسٹیشن تقریباً بدحال تھا۔ اسی لیے یہاں کوئی کینٹین یا چائے خانہ نہیں تھا۔ البتہ ریلو ے اسٹیشن سے باہر نکلے تو ایک چائے کے ڈھابے پر نظر پڑی۔ یہ واحد چائے کا ڈھابا بھی ایک غنیمت تھا، سو اسی سے دو کپ چائے کے پکڑ کر ہم اسٹیش واپس آ گئے کیوںکہ لاہور سے پنڈی جانے والی ٹرین ہمیں دور سے ہی آتی ہوئی نظر آ گئی تھی۔ آپ مجھے دقیانوس کہیے یا کچھ اور مگر ہماری ریل اور ریلوے اسٹیشن میں ایک عجب سا خمار پوشیدہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ جدید ترین میٹرو اسٹیشن پر آپ پر فقط ایک میکینکنی سی کیفیت طاری ہو مگر ہمارے یہ پرانے اور بوسیدہ ریلوے اسٹیشن آج بھی اپنے اندر ایک رومانوی سی فضا رکھتے ہیں۔
ریل۔۔۔عشق۔۔۔محبت۔۔۔ سکون۔۔۔موسیقی۔۔۔مسافر۔۔۔۔

علی پور چٹھہ میں ہماری سب سے پہلی منزل سمادھی دیوان ساون مَل چوپڑا تھی۔

دیوان ساون مل چوپڑا لاہور اور ملتان کے کھتری دیوان تھے۔ آپ کھتری دیوان کو گورنر بھی کہہ سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق پشاور سے تھا۔ آپ ملک موہن لال کے منشی تھے۔ ہری سنگھ نلوہ کی طرح دیوان چوپڑا بھی مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج میں اعلیٰ سطح کے کمانڈر تھے۔

1823 میں جب مہاراجا رنجیت سنگھ نے افغان درانی کے خلاف ملتان کا فیصلہ کن معرکہ لڑا تو دیوان ساون مل چوپڑا اس وقت رنجیت سنگھ کی فوج میں جنرل تھے۔ اسی معرکے کے بعد ملتان راجا رنجیت کی ریاست کا حصہ بنا اور مہاراجا رنجیت سنگھ نے دیوان ساون مل چوپڑا کو لاہور کے ساتھ ساتھ ملتان کا بھی کھتری (گورنر) مقرر کیا۔ دیوان ساون مال چوپڑا نے اپنے ماتحت علاقوں علاقوں میں زرعی اصلاحات متعارف کروائیں۔ 1834 میں مہاراجا رنجیت سنگھ کے کہنے پر سردار کرم خان کے ساتھ ایک منصوبے پر دستخط بھی کیے، جس کے تحت مزاری جنگجوؤں کو بھی سکھ فوج میں جگہ دی گئی۔ سردار کرم جو کہ میر بہرام خان کے چھوٹے بھائی اور مزاری قبیلے کے سربراہ بھی تھے، کی وجہ سے سکھوں اور روجھان کے مزاریوں کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے دیوان مول راج چوپڑا نے ملتان کی گورنری سنبھالی، جو ملتان کا انتظام کرنے والے آخری نسلی پنجابی تھے۔

دیوان مول راج کے دور میں لاہور کی افواج کے ہاتھوں دو انگریز افسر مارے گئے تھے۔ نتیجتاً لاہور کا برطانوی باشندہ جان لارنس مول راج کو برخاست کرنا چاہتا تھا۔ رنجیت سنگھ کی بادشاہت سے وفاداری کی بنا پر، اس نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کر دی جو زبردستی رنجیت سنگھ کے پنجاب پر قبضہ کر رہی تھی۔ اس نے ملتان کے قلعے کا بہادری سے دفاع کیا لیکن اس دن اسے شکست ہوئی۔ انگریزوں نے انہیں گرفتار کر کے کلکتہ جیل میں قید کر دیا جہاں 1850 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ دیوان ساون مل چوپڑا کی سمادھی علی پور چٹھہ کے علاوہ ملتان میں بھی ہے۔

یاد رہے کہ 'سمادھ' سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے مراقبہ کرنا۔ جہاں سادھو سنت بیٹھ کر گیان دھیان کرتے تھے اور خدا سے لو لگاتے تھے، اس جگہ کو سمادھی کہا جانے لگا۔ جب یہ سادھو مرتے تھے تو انہیں یہیں دفن کر دیا جاتا تھا، اس لیے سمادھی کا ایک مطلب مزار یا قبرستان بھی ہوگیا۔

علی پور چٹھہ میں ایک شیو مندر بھی ہے جو اب متروک ہوچکا ہے۔ جب پجاری نہ ہوں تو پھر کہاں کی عبادت گاہ۔ اب صرف اس مندر میں بھگوان شیو کی کچھ نشانیاں رہ گئی ہے جو اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ یہاں کبھی بھگوان شیوا کی پوجا ہوتی تھی۔ بھگوان شیوا جو تخلیق کار بھی ہے اور تباہ کار بھی۔ مندر کی ایک دیوار کی شیو اور ان کی بیوی پاروتی کی تصویر نقش ہے۔ مندر کی دوسری دیوار پر شیراں والی ماں اور ہنومان کا عکس بنایا گیا ہے جب کہ ایک اور دیوار پر بابا گرونانک اور بھائی مردانہ کو پینٹ کیا گیا ہے۔

شیو مندر کے بالکل سامنے مندر سے ہی منسلک ایک بہت بڑا تالاب بھی ہے جہاں مندر میں پوجا کی غرض سے آنے والے اشنان کیا کرتے تھے۔ تالاب وسیع و عریض ہے۔ تالاب کے ایک جانب ذرا اونچائی پر الگ سے ایک حوض بھی تعمیر کیا گیا ہے جہاں پر خواتین اشنان کیا کرتی تھیں۔

اب جب کہ شیوا مندر گدھے، گھوڑوں، گائے بھینس کا مسکن بن چکا ہے تو تالاب کی حالت بھی مندر سے کچھ مختلف نہیں۔ آس پاس کی آبادی کا سارا کچرا اسی تالاب میں جمع ہے۔ تالاب اب اپنی اصل حیثیت کھو چکا ہے۔ تالاب اس قدر وسیع ہے کہ اس کی صفائی کے بعد اسے کھیل کے میدان میں تبدیل کیا جا سکتا تھا، یہاں نمازِجنازہ، عید کی نماز، اجتماعی قربان گاہ اور حتی کہ شادی بیاہ کی تقریبات بھی منعقد ہو سکتی ہیں مگر ہماری عقل پر ماتم کیجیے کہ ہم نے اس قدر اہمیت کے حامل اور وسیع و عریض میدان کو محض کچرہ گاہ بنا دیا ہے۔

علی پور چھٹہ میں 'پانڈو کی' کا مزار بھی ہے جہاں کوئی حضرت صاحب دفن ہیں۔ بقول مقامی حضرات کہ ایک بار شاہ جہاں کی بیگم ممتاز بی بی شدید علیل ہوگئی۔ بہت علاج کروایا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ کسی نے شاہ جہاں کو حضرت صاحب کے بارے میں بتایا تو شاہ جہاں نے ممتاز کو وہاں دوا اور دعا کے واسطے بھیجا۔ ممتاز جب ٹھیک ہوچکی تو شاہ جہاں خود حضرت صاحب کی زیارت کو حاضر ہوا مگر شاہ جہاں کے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی حضرت صاحب وفات پا چکے تھے۔ شاہ جہاں نے یہاں مزار بنانے کا حکم دیا اور واپس دہلی کی طرف روانہ ہو گیا۔

بقول مقامی افراد۔۔۔۔یہ مزار شاہ جہاں نے بنوایا تھا۔

علی پور چٹھہ میں ایک پکی ڈیوڑھی ہے جسے شاید اس لیے پکا کہا جاتا ہے کہ اپنے وقت کی پورے علاقے میں یہ پہلی اینٹوں سے بنی عمارت تھی جسے مہاراجا رنجیت سنگھ نے بنوایا تھا۔ اس ڈیوڑھی کو دیکھتے ہی مجھے لاہور کے دہلی گیٹ کا خیال آیا۔ علی پور چھٹہ کے قریب ترین شہر رسول نگر تھا۔ معلومات یہ ملی ہیں کہ اکال گڑھ (علی پور چھٹہ کا پرانا نام جو اسے رنجیت سنگھ نے ہی دیا تھا) بنیادی طور پر بازارِحُسن تھا۔ رسول نگر ایک قدیم شہر تھا۔ یہاں کے امراء فقط عیاشی کے لیے اکال گڑھ آتے تھے۔

پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہونے کے بعد، رنجیت سنگھ نے اکال گڑھ کو آباد کرنے میں اچھی خاصی دل چسپی لی اور ایک پکی ڈیوڑھی بھی بنوائی جہاں سے آگے بازارِ حُسن کا آغاز ہوتا تھا۔ یہ بازار اب ختم ہو چکا ہے۔ قدیم شہر علی پور چٹھہ اسی پکی ڈیوڑھی سے آگے آباد تھا۔ یہیں آپ کو تقسیم سے پہلے کے بہت سے گھر یا حویلیاں بھی ملیں گی۔


زیادہ تر گھر تو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ڈھے چکے ہیں مگر ایک شان دار حویلی اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے مگر مناسب مرمتی کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ حویلی بھی اپنا مقام کھوتی جا رہی ہے۔ حویلی کا دروازہ انتہائی دیدہ زیب ہے۔ حویلی بنانے والے کے ذوق کی داد دیجیے کہ سیمنٹ کے زینوں پر بھی لکڑی سے کچھ کام کندہ کیا گیا ہے۔ پوری حویلی میں لکڑی کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ حویلی کے مکین دریاں بنانے کا کام کرتے ہیں، اس لیے وہاں ہمیں ایک پرانا چرخا بھی دیکھنے کو ملا جو اب تقریبا نایاب ہو چکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اپنی اب تک کی زندگی میں گھر سے دو بار وادی سون جانے کے لیے نکلا ہوں۔ ایک مرتبہ میں وادی سون میں پہنچا جب کہ دوسری بار قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ گھر سے نکلنا ضروری تھا، سو میں نکل پڑا۔ جو خاکہ میرے ذہن میں تھا، کوئی خبر نہ تھی کہ وہ سفر مکمل ہو سکے گا یا نہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے کنپٹی میں بہت درد تھا جو اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا۔ ابھی گھر سے نکلے فقط دو گھنٹے ہی ہوئے تھے مگر خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ چلو اب سب سیر کو چلیں۔ میرے نال نال رہنا۔ میں کیدرے گواچ نا جاؤں۔

گذشتہ کچھ دنوں سے ہم چار دوست وادیِ سون جانے کے لیے پَر تول رہے تھے۔ ارادہ کچھ یوں بن رہا تھا کہ ہم ایک گاڑی رینٹ پر حاصل کریں گے اور دو دن وادی سون میں گزار کر واپس آ جائیں گئے مگر ہماری اچھی قسمتوں نے ہمارا ساتھ نہ دیا اور جس دن ہمیں وادی سون کے لیے روانہ ہونا تھا، اس سے ایک رات قبل وادی سون جانے کے لیے صرف اور صرف دو افراد تیار تھے۔ ایک میں اور دوسرا اظہر۔ حالاں کہ سفر کافی لمبا تھا اور ہم دونوں کو بائیک پر اتنے لمبے سفر کا تجربہ بالکل بھی نہ تھا مگر پھر بھی ہم نے ضد پکڑ لی کہ اب ہم سب کو وادی سون جا کر دکھائیں گئے۔

والدین کی دعائیں لے کر ہم دونوں ٹھیک دس بجے سیالکوٹ سے نکل پڑے۔ دن چوںکہ جولائی کے تھے اس لیے ہم نے دن کے بجائے رات کے سفر کو ترجیح دی۔ اگرچہ کہ ہم صرف دو تھے مگر ہماری توقعات کے برعکس ہمیں بہت زیادہ لطف آ رہا تھا۔ چاند اس رات پورا تھا اور ہم پر ضرورت سے زیادہ ہی چاندنی نچھاور کر رہا تھا۔ ہمارے غزال کو شاید ہم سے بھی زیادہ جلدی تھی وادی سون پہنچنے کی، اس لیے وہ بھاگتا رہا۔ یہاں تک کہ گجرات آ گیا اور ہم چائے کی غرض سے ایک ٹرک ہوٹل پر رک گئے۔ میں پہلے بھی آگاہ کر چکا ہوں کہ بائیک کے سفر میں، آپ کا اور بائیک، دونوں کے انجنوں کا آرام کرنا بہت ضروری ہے۔ چائے کے بعد جب ہم تازہ دم ہوچکے تو گجرات سے بائیں جانب سرگودھا روڈ پر مڑ گئے۔ روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی کیوںکہ رات کے تقریباً بارہ بجنے کو تھے مگر پھر بھی ایک آدھ گاڑی یا ٹرک مل جاتا تو سڑک پر روشنی پھیل جاتی مگر زیادہ تک سڑک ویران ہی تھی۔

گجرات سرگودھا روڈ پر رات دو بجے کے قریب چک 35 میں ایک ڈھابا کھلا تھا تو چائے پینے کی غرض سے وہیں رک گئے۔ گرما گرم دال کی خوشبو نے مجبور کیا کہ اسے بھی کھا لیا جائے۔ مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ویران سڑک کے کنارے چنے کی دال اور گرما گرم روٹی الگ ہی مزہ دے رہی تھی۔ ڈھابے پر ایک پڑھے لکھے بزرگ بھی موجود تھے۔ بزرگ ہمارے پاس آئے اور بات چیت کرنے لگے۔ بزرگ بولے آپ لوگ سیالکوٹ سے آرہے ہیں؟ میں نے حیرانی سے سر ہلا دیا۔ میں نے اظہر سے کہا یار! اس بندے کا تجربہ بہت وسیع ہے۔ ہمارے لہجے سے پہچان گیا ہے کہ ہم سیالکوٹ سے آ رہے ہیں۔

میں: سر کو کیسے پتا چلا کہ ہم سیالکوٹ سے آ رہے ہیں؟

بزرگ: آپ کی موٹر سائیکل کے نمبر سے۔

اور ہم دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔

کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بھوال شہر پہنچ گئے۔

میں ایک لمبے عرصے کے بعد بھلوال اسٹیشن پر تھا۔ میں نے بچپن میں دو ریلوے اسٹیشنوں کے پکوڑے بہت کھائے ہیں۔ ایک ملکوال اور دوسرا بھلوال۔ دونوں اسٹیشنوں کے پکوڑے بہت لذیذ ہوتے تھے۔ جب میں چھوٹا تھا تو بھلوال اسٹیشن پر میرا ہی ہم عمر ایک گونگا اور بہرا دس گیارہ سالہ لڑکا بھیک مانگا کرتا تھا، جسے دیکھ کر دل یقیناً بہت اداس ہوتا تھا۔ وہ ہر ٹرین کے آنے سے پہلے اسٹیشن آتا، بھیک مانگتا اور ریل گاڑی کے جاتے ہی وہ بھی چلا جاتا۔ میں جب جب بھلوال اسٹیشن پر سے گزرا یا اسٹیشن پر کھڑا سرگودھا جاتی کسی ریل کا انتظار کر رہا ہوتا تو میرے آنکھیں اسی کی منتظر ہوتی تھیں۔

میری یہ دعا ہوتی تھی کہ وہ مجھے نظر نہ آئے کیوںکہ اس کی شکل مجھے ہمیشہ ایک انجانی سی اداسی میں مبتلا کردیتی تھی۔ میری نگاہیں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ مجھے دیکھ تو نہیں رہا، اسے ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ کچھ عرصے بعد میرا بھی بھلوال اسٹیشن پر جانا ختم ہوگیا۔ وادی سون جاتے ہوئے میں بھلوال اسٹیشن پر رکا تو وہی لڑکا مجھے پلیٹ فارم پر بھیک مانگتا نظر آیا، حالاںکہ کرونا کی وجہ سے اسٹیشن بند تھا، کوئی ریل بھلوال سے نہیں گزر رہی تھی، بینچ سب الٹے پڑے تھے مگر میں اس دس گیارہ سالہ لڑکے کو بھیک مانگتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ مسافر ویسے ہی اسے دھتکار رہے تھے حالاںکہ پلیٹ فارم بالکل خاموش تھا۔ چند نوجوان پیچھے کی طرف سے آتے ہوئے میرے قریب آئے۔ رات سوا تین بجے میرے اسٹیشن پر آنے کا سبب پوچھا۔ میں نے بات ٹال دی۔ ان لڑکوں میں سے ایک کا اسٹیشن پر ہی ٹی اسٹال تھا۔ میں نے فوراً اس سے پوچھا کہ وہ کب سے یہاں ٹی اسٹال چلا رہا ہے۔ وہ تقریباً چھے سال سے وہاں تھا۔ عمر اس کی ویسے بھی مجھ سے کم تھی۔

ایک بار سوچا کہ اس لڑکے سے اُس بہرے اور گونگے لڑکے کا پوچھوں مگر میں خاموش رہا۔ لڑکے نے بہت کہا کہ آپ اتنی دور سے رات کے اس پہر صرف اسٹیشن دیکھنے کے لیے یہاں کھڑے ہیں، ایک کپ چائے ضرور پی کر جائیں مگر مجھے کچھ جلدی تھی۔ ماضی میں زندہ رہنے سے بہت بہتر تھا کہ میں آج کی حقیقتوں کو تسلیم کروں اور آج مجھے اچھالی اور کھبیکی جھیلیں دیکھنے کی جلدی تھی۔ وادی سون کی فضا میرے مقدر میں لکھ دی گئی تھی کہ میرے مقدر میں اب اُن ہواؤں میں سانس لینا لکھ دیا گیا تھا۔ میں

نے جلدی سے بھلوال اسٹیشن پر تصویر بنوائی اور ''اجنالہ'' کی طرف چل دیا۔

اجنالہ سے سیدھی سرگودھا کو جاتی ہوئی سڑک کو ہم نے چھوڑا اور دائیں جانب خوشاب کو جاتی سڑک پر مڑ گئے۔ چوںکہ ہم پہلی بار وادیِ سون جا رہے تھے تو عقل مندی اسی میں تھی کہ ہم GPS لگا لیں۔ جی پی ایس پر ہم نے بائیک کا روٹ لگا دیا۔ سرگودھا خوشاب روڈ پر تیر ایک دم بائیں جانب مڑ گیا مگر وہاں کوئی روڈ نہ تھی فقط ایک تنگ سی پگڈنڈی تھی۔ اس پر جانے کے سوا ہمارے پر اور کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ بالٓاخر ڈیڑھ کلومیٹر کے بعد وہ تنگ سی پگڈنڈی مین روڈ سے جا ملی۔ شاید یہ ایک شارٹ کٹ تھا۔ خدا بھلا کرے ان لوگوں کا جنھوں نے ہمارے لیے کس قدر آسانیاں پیدا کردی ہیں۔

سیالکوٹ سے وادیِ سون میں موجود کنہٹی گارڈن تک کا سفر تقریباً چھے گھنٹے کا تھا جو کہ ہم نے تقریباً بارہ گھنٹوں میں طے کیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہم بائیک پر تھے اور ہر گھنٹے کے بعد استراحت ضرور فرما رہے تھے۔ دوسرا فجر کی نماز کے بعد ایک گھنٹے کی نیند بھی ہم نے ایک مسجد میں خوب لی تھی اور تیسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سفر کے خوب مزے لیتے ہوئے وادی سون کی جانب بڑھ رہے تھے کیوںکہ ہم دونوں یہ جانتے تھے کہ اصل لطف صرف اور صرف سفر کا ہے۔

منزل آنے کا مطلب ہے کہ سفر ختم اور اگر سفر ختم تو لطف ختم۔ سفر سے اچھی طرح لطف اندوز ہونے کے بعد ہم تقریباً دس بجے وادی سون کے کنہٹی گارڈن میں تھے۔ کنہٹی گارڈن بہت خوب صورت ہے۔ آپ اسے پنج پیر راکس کا جڑواں بھائی سمجھ لیں۔ بالکل ویسے ہی خوب صورت چٹانیں، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی وادی۔ ایک اچھا کام جو حکومتِ پاکستان کی طرف سے کیا گیا ہے کہ اسے ایک خوب صورت باغ بنا دیا گیا۔ جگہ جگہ بینچ رکھے گئے ہیں تاکہ آپ وادی کے نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ باغ سے تھوڑا آگے نکل کر راستہ نیچے کو اتر جاتا ہے جہاں پورا گاؤں آباد ہے۔

گاؤں میں داخل ہوتے ہی ایک چشمہ آپ کے ساتھ ساتھ بہنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ اصل میں آپ کی کنہٹی باغ کی پہلی آبشار تک جانے میں راہ نمائی کرتا ہے۔ کچھ مزید آبشاریں بھی حال ہی میں منظرِعام پر آئی ہیں مگر مقامی افراد کے بنا وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں۔ بلاشبہہ حکومت پاکستان اور مقامی افراد نے کنہٹی باغ کے حُسن کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے مگر آبشار پر بڑھی ہوئی جھاڑیاں شاید آبشار کے حُسن کو متاثر کر رہی ہیں۔ ایسے میں اگر آبشار کے گرد بڑھی ہوئی جھاڑیوں کو کاٹ دیا جائے تو شاید آبشار کا حُسن مزید نکھر جائے۔ آبشار سے پہلے ایک بورڈ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ یہاں اب تک چار افراد ڈوب کر مر چکے ہیں۔ اگر آپ تیراک نہیں تو میری طرح بس دور دور سے ہی آبشار کے مزے لیں اور پانی میں جانے سے مکمل گریز کریں۔

کنہٹی گارڈن میں بہت سارا وقت گزارنے کے بعد جونہی ہم باہر نکل کر سڑک پر آئے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بڑے سے پیالے کی طرح کی ایک خوب صورت جھیل تھی۔ یہ کھبیکی جھیل تھی۔ کنہٹی گارڈن میں جاتے ہوئے چوںکہ جھیل کی جانب ہماری ہشت تھی، اس لیے شاید اس جانب توجہ نہیں دے سکے۔ جھیل دور سے بے انتہا خوب صورت لگ رہی تھی۔ دور سے پانی بالکل ہلکے سبز رنگ کا نظر آ رہا تھا جب کہ ایسا نہیں تھا۔ پانی اپنے اصل رنگ میں ہی تھا، ہمیں بس دور سے وہم ہو رہا تھا۔ رفتہ رفتہ ہم جھیل سے قریب ہوتے جا رہے تھے۔ جھیل اپنے حجم میں کافی بڑی تھی۔ واضح رہے کہ پنجاب میں ہونے کے باوجود یہ ایک قدرتی جھیل تھی۔ کسی پارک میں واقع مصنوعی جھیل نہ تھی۔ کھبیکی جھیل کی خوب صورتی کا اندازہ آپ یہاں سے لگا لیں کہ یہاں پی ٹی ڈی سی کا ایک ہوٹل بھی بنا ہوا ہے۔ جھیل کے کنارے بیٹھ کر کھانا کھانے کا بھی انتظام ہے۔ جھیل پر چوںکہ سورج طلوع ہونے یا غروب ہونے کا نظارہ چوںکہ خوب صورت ترین ہوتا ہے، اس لیے یہاں پرائیویٹ کنٹینرز بھی رکھے ہوئے ہیں جنھیں بستر لگا کر ہوٹل کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ مگر ہوشیار رہیں اور یہاں ان کنٹینرز پر کبھی بھی نہ رکیں، کیوںکہ یہاں کے بستر انتہائی گندے اور بدبودار ہیں اور واش روم بھی انتہائی غلیظ ہیں بلکہ بند ہیں۔

اگر آپ وادیِ سون کی سیاحت کے لیے نکلے ہیں اور رات وادی میں گزارنا چاہ رہے ہیں تو مہریہ ہوٹل سے بہتر اور کوئی جگہ ہیں۔ کھبیکی جھیل سے نوشہرہ آتے ہوئے سڑک کے بالکل کونے پر آپ کو مہریہ ہوٹل کا بورڈ نظر آجائے گا۔ کھبیکی جھیل سے نوشہرہ آنے کے لیے آپ کو زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ درکار ہیں۔ مہریہ ہوٹل میں دو طرح کے کمرے ہیں۔ ایک ہزار والا کمرہ، پندرہ سو والا کمرہ۔ دونوں طرح کمرے صاف ستھرے ہیں۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک ہزار والے کمرے میں ٹی وی اور یو پی ایس کی سہولت موجود نہیں ہے جب کہ پندرہ سو والے کمرے میں یہ دونوں سہولیات موجود ہیں۔

رات نوشہرہ میں رکنے کے بعد ہمارا ارادہ تھا کہ صبح سویرے ہم ''انب شریف'' چلے جائیں گے۔ واپسی پر اچھالی جھیل دیکھیں گے اور پھر سیالکوٹ کو واپسی۔

اگر آپ کسی نہ کسی طریقے سے وادی سون کے چھوٹے سے شہر نوشہرہ تک پہنچ ہی چکے ہیں تو پھر تھوڑی سی ہمت مزید کریں اور لگے ہاتھوں ''انب شریف'' بھی چلے جائیں۔ اچھالی سے ''قائد آباد'' کو جاتی ایک پکی سڑک حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے جو کہ بمشکل دو سال ہی نکال پائے گی۔ ایک کچا راستہ بھی ہے مگر جب تک سڑک سلامت ہے تب تک تو ظاہری بات ہے سڑک ہی بہتر ہے۔ ابتدا میں گھومن گھیریاں بہت ہیں۔ انتہائی اختیاط کے ساتھ آپ کو بائیک یا گاڑی چلانی پڑے گی۔ سیدھا راستہ بالکل بھی نہیں ہے۔ کہیں کہیں سے سڑک ٹوٹ بھی چکی ہے اور اب وہاں چھوٹے چھوٹے پتھر پڑے ہیں۔ اچھالی کے بازار سے جو سڑک دائیں جانب جھیل کی طرف جاتی ہے، دائیں مڑنے کی بجائے اگر آپ سیدھا چلے جائیں گے تو ٹھیک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آپ انب شریف میں ہوں گے۔ اچھالی چوک میں ہی کونے پر ایک مرغی گوشت کی دکان ہے۔ پکی سڑک تک جانے کے لئے راستہ اسی مرغی والے یا پھر کسی جوان سے پوچھیں۔ بزرگوں کی زبان شاید آپ کی سمجھ نہ آئے۔ انب شریف کو جاتی پکی سڑک پر پہنچنے کے لیے مقامی لوگوں سے راہ نمائی لیں، جہاں صرف اور صرف پتھر پڑے ہیں۔ سارا راستہ ہی گھومنے والا ہے۔ ''انب سرکار'' کے مزار سے تقریباً ایک کلو میٹر ہی پر آپ کو یہ قلعہ سڑک پر ہی مل جائے گا۔ یہ قلعہ بالکل مختلف نوعیت کا ہے اور اچھا خاصہ پرانا معلوم ہوتا تھا۔

سننے میں شاید یہ نام بہت مزاحیہ لگے کیوںکہ پنجابی میں امب ''آم'' کو کہا جاتا ہے لیکن امب شریف کا نام راجا امبریک سے منسوب ہے جس کے نام پر اس علاقے کا نام پڑا۔ یہ جگہ ضلع خوشاب کی قدیم ترین تاریخ کی امین ہے۔ امب شریف کے مندر ضلع خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں واقع ہیں جہاں بذریعہ قائد آباد سکیسر روڈ اور پھر اوچھالی، گمندڑہ، مہوڑیاں والہ-امب شریف روڈ سے ہو کر پہنچا جا سکتا ہے۔ پہلے ان تک پہنچنے کا راستہ بہت کٹھن تھا اب آسان ہے کیوںکہ اب سڑک بن گئی ہے۔

یہ وہ منادر ہیں جو اب متروک ہوچکے ہیں۔ یہ مندر سلسلہ کوہ نمک کے مغربی کناروں پر واقع ہیں جو تقریباً ساتویں صدی عیسوی سے نویں صدی عیسوی کے وسطی زمانے میں (تعمیر کی مصدقہ تاریخ کہیں نہیں ملی) ہندو شاہی ریاست نے تعمیر کیے جب یہ علاقہ ہندوؤں کا اہم مذہبی مرکز تھا، جہاں سے آج بھی ہزاروں سال پرانی آبادی کے نشان ملتے ہیں آج بھی یہاں کے پرانے قلعے اور قدیم عمارتوں کے قدیم تہذیبی نشان دیکھے جاتے ہیں۔ اس کے اردگرد قدیم تہذیب کے بہت سار ے آثار بکھرے پڑ ے ہیں۔ امب، پہاڑ پر ایک عظیم الشان قلعہ اور بڑی بڑی حویلیوں کے آثار موجود ہیں، ان لمبی دیواروں کے آثار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میدانی باشندوں کے حملے سے بچنے کے لیے یہ دفاعی فصیل کا کام دیتی تھی، اِنہیں مندروں کے طرز پر دوسرے ہندو مندر ٹلہ جوگیاں اور کٹاس میں بھی موجود ہیں۔

اصل میں یہ ایک قلعہ تھا جس میں ایک محل اور دو مندر واقع تھے۔ محل اور قلعے کا کوئی نشان باقی نہیں ہے۔ امب کے مندروں میں سے اب صرف دو باقی ہیں جو تقریباً اپنی اصل ہیئت و ساخت میں موجود ہیں۔ بڑا مندر جو 15 تا 20 میٹر بلند ہے، ایک مربع نما پایہ ستون پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کابل شاہی عہد میں تعمیر کیے جانے والے تمام مندر مربع نما پایہ ستون پر تعمیر ہوئے تھے۔ اب اِس بڑے مندر کی تین منزلیں باقی رہ گئی ہیں جن تک رسائی کے لیے اندرونی جانب سیڑھیاں موجود ہیں۔ یہ مندر کشمیری مندروں کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جس کے باہر چاروں جانب خوبصورت کشمیری طرز کے پھول اور نقاشی اینٹ سے بنائی گئی ہے۔ داخلے کی محراب بھی نقاشی دار ہے جب کہ بالائی سطح پر مندر کا تکون نما گوشہ کشمیری مندروں سے مختلف ہے۔

امب مندر کی مشابہت کے دوسرے مندر کافرکوٹ میں موجود ہیں جن کا طرزتعمیر اور معماری انداز بالکل ایک جیسا ہی ہے۔ چھوٹا مندر بڑے مندر سے 75 میٹر مغرب کی جانب سلسلہ کوہ نمک کی ایک کھائی سے متصل واقع ہے۔ اِس کی بلندی 7 یا 8 میٹر ہے اور عمارت 2 منزلہ ہے۔ اِس مندر میں سیڑھیاں قدرے چھوٹی ہیں لیکن اِس کا زیادہ تر حصہ منہدم ہوچکا ہے۔ سلسلہ کوہ نمک کے اِس علاقے میں مندروں کی تعمیر کا کام سب سے پہلے کشان سلطنت کے عہد میں شروع ہوا تھا۔ اس قلعے کے اردگرد ایک، کتبہ، بھی دریافت ہوا تھا جو تین فٹ لمبا اور اڑھائی فٹ چوڑا تھا۔ مندر کے نوادرات مختلف زمانوں میں لوٹ لیے گئے (اور آج بھی بے دردی سے لوٹے جا رہے ہیں) بعدازآں یہ تاریخی نوادرات عجائب گھر لاہور منتقل کردیے گئے۔ یہ منادر قانون مجریہ برائے تحفظ تاریخی عمارات و آثارِ قدیمہ 1975ء کے تحت محفوظ قرار دیے گئے ہیں۔ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والی کسی بھی سیلانی روح کے لیے یہ جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اگر آپ سیالکوٹ، گجرات کے اطراف سے تعلق رکھتے اور وادی سون کو جانا چاہتے ہیں اور راستے سے نا آشنا ہیں تو یہ معلومات آپ کے لیے کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔

اگر آپ گاڑی سے جا رہے ہیں تو سیالکوٹ موٹر وے (سمبڑیال انٹر چینج) کو استعمال کریں اور کلر کہار انٹر چینج سے باہر نکل جائیں۔ کلر کہار جھیل دیکھیں۔ آگے جو جو مقامات آپ دیکھنا چاہتے ہیں، GPS کو استعمال کریں اور اللہ کا نام لے کر چلتے جائیں۔ جی پی ایس اس تمام علاقے میں بہترین چلتا ہے۔

اگر آپ موٹر سائیکل سے جانا چاہ رہے ہیں تو پھر آپ کے لیے کم از کم تین مختلف راستے ہیں جو جی پی ایس آپ کو دکھائے گا۔

1۔ شاہین چوک گجرات سے سرگودھا کی طرف مڑ جائیں۔ بھلوال سے خوشاب - سرگودھا روڈ پر سے ہوتے ہوئے خوشاب کی طرف چلے جائیں اور پھر وہاں سے وادی سون میں داخل ہو جائیں۔

2۔ آپ شاہین چوک گجرات سے بائیں جانب مڑنے کی بجائے جی ٹی روڈ پر سیدھا چلتے ہیں پنڈ دادنخان کی طرف مڑ جائیں۔ کھیوڑہ سے بائیں طرف ایک دم روڈ اوپر کو اٹھے گا اور آپ کٹاس، چواسیدن شاہ سے ہوئے وادی سون میں داخل ہو جائیں گے۔

ان دونوں راستے میں چوںکہ کم از کم ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ایسا آئے گا کہ سڑک بَل کھاتے ہوئے مسلسل بلندی کی طرف جائے گی۔ اگر آپ فی الحال کٹاس اور اس سے ملحقہ علاقوں کو وزٹ نہیں کرنا چاہ رہے تو آپ کے لیے سب سے بہترین بالکل سیدھا ایک تیسرا راستہ ہے۔

3۔ آپ جی ٹی روڈ پر سوہاہ تک چلتے جائیں۔ سوہاہ سے ٹھیک دو کلو میٹر بعد سڑک چکوال کے لیے بائیں جانب مڑ جائے گی۔ وہ سیدھی سڑک آپ کو چکوال اور پھر کلر کہار پہنچا دے گی جہاں سے آپ وادی سون میں داخل ہوجائیں گئے۔ سوہاہ سے چکوال تک سڑک بالکل موٹر وے طرز پر بنی ہوئی ہے اس لیے آپ کو فُل سپیڈ بائیک چلا کر مزہ آ جائے گا۔

وادی سون میں کلر کہار، کھبیکی اور اچھالی کے علاوہ آپ کن کن جھیلوں اور تاریخی مقامات کو دیکھ سکتے ہیں، ان پر پھر کبھی بات ہوگی۔
Load Next Story