بورس جانسن نے شہزادہ فلپ کی آخری رسومات کے دن پارٹی کرنے پر معافی مانگ لی
بورس جانسن پر عوام، اپوزیشن اور ان کی جماعت کے بعض ارکان کی جانب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے شہزادہ فلپ کی آخری رسومات کے موقع پر پارٹی کرنے اور کورونا پابندیوں کو توڑنے پر ملکہ الزبتھ دوم سے معافی مانگ لی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم نے قومی سوگ کے دن عملے اور دوستوں کے ہمراہ پارٹی کرنے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ملکہ برطانیہ سے معافی مانگ لی ہے۔
برطانوی وزیراعظم کا معافی نامہ 95 سالہ ملکہ برطانیہ کو سرکاری چینلز کے ذریعے ٹیلی فون کے ذریعے بھیجا گیا اور بورس جانسن نے ذاتی طور پر رابطہ نہیں کیا تھا جس پر ان سے مستعفی ہونے کے لیے عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
گو وزیراعظم بورس جانسن نے مئی 2020 میں ہونے والے اجتماعات میں سے ایک میں کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شرکت پر پارلیمنٹ میں معافی مانگی لیکن انھوں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ یہ ایک کام کی تقریب تھی۔
بورس جانسن نے تقریباً ایک سال بعد ڈاوننگ اسٹریٹ میں ہونے والی دو تقریبات میں شرکت نہیں کی تھی جن میں سے ایک قومی سوگ تھا جو 16 اپریل 2021 کو منایا گیا جب ملکہ برطانیہ کی موجودگی میں ان کے 73 سالہ شوہر کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
شاہی محل میں شہزادہ فلپ کی آخری رسومات میں کورونا پابندیوں کے باعث صرف 30 مہمانوں کو بلایا گیا تھا تاہم بورس جانسن اس میں شریک ہونے کے بجائے 40 سے زائد عملے کے ساتھ ایک پارٹی کی تھی۔
اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے بتایا کہ بورس جانسن نے خاندان کے قریبی فرد کو کورونا ہونے کے سبب خود کو سب سے الگ تھلگ کرلیا تھا اور جس پارٹی میں انھیں مدعو کیا گیا اس میں مہمانوں کی تعداد سے واقف نہیں تھے۔
اس اہم معاملے پر بات اتنی بگڑ گئی ہے کہ بورس جانسن کو اپنا عہدہ بچانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کی تینوں اہم جماعتوں کے ساتھ ساتھ ان کی اپنے جماعت کے 5 رکان نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔
بورس جانسن کے وفادار اور حامی رکن اینڈریو برجن نے وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف کنزرویٹو ایم پیز کی ایک طاقتور کمیٹی کے سامنے عدم اعتماد کا خط جمع کرانے کی تصدیق کی ہے
اگر برطانوی پارلیمان کے 360 کنزرویٹو ارکان میں سے 15 فیصد، یعنی 54 ارکان بورس جانسن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں تو پارلیمان کے اندر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ادھر ڈیلی ٹیلی گراف نے انکشاف کیا ہے کہ 30 کے قریب ارکان پہلے ہی وزیراعظم کے استعفے سے متعلق خطوط بھیج چکے ہیں۔ کابینہ کے بھی زیادہ تر ارکان بھی بورس جانسن دور ہوگئے ہیں۔
اس صورت حال میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نیا نام وزیر خزانہ رشی سنک زیر گردش ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم نے قومی سوگ کے دن عملے اور دوستوں کے ہمراہ پارٹی کرنے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ملکہ برطانیہ سے معافی مانگ لی ہے۔
برطانوی وزیراعظم کا معافی نامہ 95 سالہ ملکہ برطانیہ کو سرکاری چینلز کے ذریعے ٹیلی فون کے ذریعے بھیجا گیا اور بورس جانسن نے ذاتی طور پر رابطہ نہیں کیا تھا جس پر ان سے مستعفی ہونے کے لیے عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
گو وزیراعظم بورس جانسن نے مئی 2020 میں ہونے والے اجتماعات میں سے ایک میں کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شرکت پر پارلیمنٹ میں معافی مانگی لیکن انھوں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ یہ ایک کام کی تقریب تھی۔
بورس جانسن نے تقریباً ایک سال بعد ڈاوننگ اسٹریٹ میں ہونے والی دو تقریبات میں شرکت نہیں کی تھی جن میں سے ایک قومی سوگ تھا جو 16 اپریل 2021 کو منایا گیا جب ملکہ برطانیہ کی موجودگی میں ان کے 73 سالہ شوہر کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
شاہی محل میں شہزادہ فلپ کی آخری رسومات میں کورونا پابندیوں کے باعث صرف 30 مہمانوں کو بلایا گیا تھا تاہم بورس جانسن اس میں شریک ہونے کے بجائے 40 سے زائد عملے کے ساتھ ایک پارٹی کی تھی۔
اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے بتایا کہ بورس جانسن نے خاندان کے قریبی فرد کو کورونا ہونے کے سبب خود کو سب سے الگ تھلگ کرلیا تھا اور جس پارٹی میں انھیں مدعو کیا گیا اس میں مہمانوں کی تعداد سے واقف نہیں تھے۔
اس اہم معاملے پر بات اتنی بگڑ گئی ہے کہ بورس جانسن کو اپنا عہدہ بچانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کی تینوں اہم جماعتوں کے ساتھ ساتھ ان کی اپنے جماعت کے 5 رکان نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔
بورس جانسن کے وفادار اور حامی رکن اینڈریو برجن نے وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف کنزرویٹو ایم پیز کی ایک طاقتور کمیٹی کے سامنے عدم اعتماد کا خط جمع کرانے کی تصدیق کی ہے
اگر برطانوی پارلیمان کے 360 کنزرویٹو ارکان میں سے 15 فیصد، یعنی 54 ارکان بورس جانسن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں تو پارلیمان کے اندر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ادھر ڈیلی ٹیلی گراف نے انکشاف کیا ہے کہ 30 کے قریب ارکان پہلے ہی وزیراعظم کے استعفے سے متعلق خطوط بھیج چکے ہیں۔ کابینہ کے بھی زیادہ تر ارکان بھی بورس جانسن دور ہوگئے ہیں۔
اس صورت حال میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نیا نام وزیر خزانہ رشی سنک زیر گردش ہے۔