تحریک طالبان افغانستان میں رہ کر پہلے جیسا نقصان نہیں پہنچا سکتی معید یوسف
غیر ملکوں کو سرمایہ کاری کے لیے شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے، مشیر قومی سلامتی امور
وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان میں رہ کر پہلے جیسا نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔
لاہور میں گورنر ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان اب بھی افغانستان میں موجود ہے لیکن پاکستان افعانستان کے ساتھ تجارت میں بہتری کا خواہاں ہے۔
مزیدپڑھیں: ہماری خارجہ پالیسی امریکا کے اثر سے آزاد نہیں، معید یوسف
باڑ کے مسئلے پر انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ باڑ کا مسئلہ بات چیت سے حل کریں گے جبکہ ہماری خواہش ہے کہ پڑوسی ملک میں بھی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسا منصوبہ شروع ہوناچا ہیے۔
علاوہ ازیں معید یوسف نے واضح کیا کہ قومی سلامتی پالیسی پر مثبت تنقید کی جاسکتی ہے لیکن اس پر سیاست نہ کی جائے کیونکہ پالیسی کی روح کو کوئی بھی حکومت تبدیل نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کی جانب سے اس پالیسی پر نظر ثانی کی گنجائش موجود ہے لیکن قومی سلامتی پالیسی متفقہ پالیسی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا بھارت میں ہونے والی سلامتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی امور نے پارلیمانی کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے ہمیں بلایا مگر سب حاضر نہیں تھے لیکن کمیٹی جب بھی بلائے گی ہم بریفنگ کے لیے تیار ہیں۔
معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی تمام اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے تیار کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے سی پیک کے حوالے مثبت نتائج کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک پر کام جاری ہے، پاکستان کا اگر جی ایس پی پلس کا درجہ ختم ہوجائے تو ہماری ایکسپورٹ آدھی رہ جائے۔
معید یوسف نے کہا کہ غیر ملکوں کو سرمایہ کاری کے لیے شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے، بھارت اب بھی اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک ہے، کشمیر اہم مسئلہ ہے اسے نطر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
لاہور میں گورنر ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان اب بھی افغانستان میں موجود ہے لیکن پاکستان افعانستان کے ساتھ تجارت میں بہتری کا خواہاں ہے۔
مزیدپڑھیں: ہماری خارجہ پالیسی امریکا کے اثر سے آزاد نہیں، معید یوسف
باڑ کے مسئلے پر انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ باڑ کا مسئلہ بات چیت سے حل کریں گے جبکہ ہماری خواہش ہے کہ پڑوسی ملک میں بھی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسا منصوبہ شروع ہوناچا ہیے۔
علاوہ ازیں معید یوسف نے واضح کیا کہ قومی سلامتی پالیسی پر مثبت تنقید کی جاسکتی ہے لیکن اس پر سیاست نہ کی جائے کیونکہ پالیسی کی روح کو کوئی بھی حکومت تبدیل نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کی جانب سے اس پالیسی پر نظر ثانی کی گنجائش موجود ہے لیکن قومی سلامتی پالیسی متفقہ پالیسی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا بھارت میں ہونے والی سلامتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی امور نے پارلیمانی کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے ہمیں بلایا مگر سب حاضر نہیں تھے لیکن کمیٹی جب بھی بلائے گی ہم بریفنگ کے لیے تیار ہیں۔
معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی تمام اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے تیار کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے سی پیک کے حوالے مثبت نتائج کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک پر کام جاری ہے، پاکستان کا اگر جی ایس پی پلس کا درجہ ختم ہوجائے تو ہماری ایکسپورٹ آدھی رہ جائے۔
معید یوسف نے کہا کہ غیر ملکوں کو سرمایہ کاری کے لیے شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے، بھارت اب بھی اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک ہے، کشمیر اہم مسئلہ ہے اسے نطر انداز نہیں کیا جاسکتا۔