خارجہ پالیسی کے چیلنجز
امریکا کو لگتا ہے کہ پاکستانی جھکاو چین کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی مدد سے ہمیں خطہ کی سطح پر کمزور کرنا چاہتا ہے
پاکستان کو خارجہ پالیسی کے تناظر میں مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کی حکمت عملی میںبڑی تبدیلی '' جیو اسٹرٹیجک سے جیو معیشت '' کو فوقیت دینا ہے ۔ کیونکہ جب تک ہم اپنی معاشی صلاحیتوں کو بہتر نہیں بنائیں گے خارجی یاعلاقائی سطح پر چیلنجز بھی موجود رہیں گے اور ان مسائل سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔پاکستان کو سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر جنگ لڑنی ہے ۔ اس وقت ہمیں پانچ چیلنجز کا سامنا ہے۔
اول افغانستان کا بحران اور خطے میں ہمارا مجموعی کردار، دوئم پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری اور مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ، سوئم پاکستان امریکا تعلقات اور پاکستان چین تعلقات کسی ٹکراو کے بغیر مثبت طور پر آگے بڑھیں ، چہارم پاکستان سعودی عرب اور ایران تعلقات ، پنجم دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا شامل ہیں ۔ایک بنیادی نقطہ علاقائی سیاست کا استحکام ہے۔ کیونکہ جب تک ہم یا علاقہ کے دیگر ممالک اپنے اندر موجود تضادات ، تنازعات او رٹکراو جیسے مسائل سے باہر نکل کر مفاہمت کا بڑا سیاسی ایجنڈا تشکیل نہیں دیں گے تو کوئی بھی ملک بشمول پاکستان دنیا کی خارجہ پالیسی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکے گا۔
اس لیے ہماری خارجہ پالیسی کا اہم نقطہ ہی علاقائی سطح پر استحکام پیدا کرکے دو طرفہ سیاسی ، سماجی اور معاشی تعلقات کو یقینی بنانا ہونا چاہیے ۔ اس کا واحد حل مفاہمت کی کنجی ہے اور یہ ہی تمام ممالک کا سیاسی ہتھیار بھی ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے ہمیں موجودہ فریم ورک سے باہر نکل کر کچھ غیر معمولی فیصلے کرکے دوسرے ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنا ہوگی ۔
افغانستان کے بحران کا حل ہماری علاقائی سیاست کی کنجی ہے ۔ کیونکہ محض پاکستان ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر علاقہ کی پرامن سیاست ، ترقی اور خوشحالی کا بھی بڑا دارومدآر بھی افغان بحران کے حل سے جڑا ہوا ہے ۔جب کچھ لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں کچھ زیادہ ہی حساسیت رکھتا ہے تو یہ غلط فکر نہیں ۔کیونکہ ہمیں اندازہ ہے کہ افغان بحران میں اگر بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر بھی پاکستان پر ہی پڑے گا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان افغان بحران کے حل میں زیادہ گرم جوش اور فعال کردار ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے ، اس لیے اس عمل کو پاکستان کی کمزوری نہیں بلکہ ایک مثبت حکمت عملی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
افغان بحران کا حل سیاسی تنہائی میں تو ممکن نہیں اس کے لیے ہمیں دنیا کی بڑی طاقتوں کو باور کروانا ہوگا کہ اگر افغانستان میں بڑا بگاڑ پیدا ہوگا تو اس کی نشانہ محض علاقائی سیاست یا ممالک پر ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا بھی اس بگاڑ سے محفوظ نہیں رہے گی ۔ داعش بڑا خطرہ ہے اور یہ خطرہ ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔داعش سے نمٹنا ایک مربوط حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے اور یہ حکمت عملی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کی مد د سے ہی تشکیل دی جاسکتی ہے ۔ہمیں طالبان کو بھی باو ر کروانا ہوگا کہ وہ عالمی تحفظات کو نظرانداز کرنے کے بجائے انھیں دور کریں کیونکہ افغان حکومت سیاسی تنہائی میں کچھ بھی نہیں کرسکے گی۔
ایک مسئلہ امریکا بھی ہے ، اگر واقعی امریکا افغان بحران کا حل چاہتا ہے تو اس کا عملی اظہار ہونا چاہیے، محض ڈکٹیشن یا طاقت کی بنیاد پر اپنے ایجنڈے کو مسلط کرنا مسئلہ کا حل نہیںہوگا۔لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغان حل میں امریکا کی پالیسی میں یا تو الجھاو ہے یا وہ واقعی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اسے بگاڑنے کی پالیسی رکھتا ہے ۔ پاک امریکا تعلقات میں جہاں ایک بڑی وجہ افغان بحران ہے تو دوسری طرف ایک مسئلہ پاکستان چین تعلقات پر بھی ہے۔
امریکا کو لگتا ہے کہ پاکستانی جھکاو چین کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی مدد سے ہمیں خطہ کی سطح پر کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ اس تناظر میں یقینی طور پر ہماری خارجہ پالیسی کا یہ چیلنج اہم ہے کہ ہم کیسے امریکا او رچین کے تناظر میں توازن پر مبنی پالیسی اختیار کرکے امریکی تحفظات کو کم کرسکیں ۔
علاقائی سیاست میں ایک بڑی مشکل پاک بھارت تعلقات ہیں، بداعتمادی کا ماحول کیسے ختم ہو، یہ ایک مشکل سوال لگتا ہے ۔ہم نے دنیا کو یہ باور بھی کرایا ہے کہ پاکستان ماضی سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف جانا چاہتا ہے جس میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا ایجنڈا سرفہرست ہے ۔ ایک ٹکراؤ مسئلہ کشمیر پر ہے اوربھارت اس مسئلہ پر کوئی ایسی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں جو دو طرفہ بات چیت یا مذاکرات کا راستہ کھول سکے ۔افغان بحران میں بھی بھار ت کا کردار منفی ہے۔
بھارت اس بحران کے حل میں نہ خود کوئی پیش رفت کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ثالثی کے لیے تیار ہے ۔امریکا کا اہم اتحادی بھی اس علاقائی سیاست میں بھارت ہے اور وہ اسے مستحکم کرکے چین کے تناظر میں اہمیت دیتا ہے ۔ لیکن امریکا پاکستانی تحفظات پر بھارت پر دباو ڈالنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ۔
ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں اس نقطہ کو زیادہ فوقیت دینا ہوگی کہ ہماری سرزمین نہ تو کسی ملک کے خلاف استعمال ہوگی اور نہ ہی کسی اورملک کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہونی چاہیے ۔تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی سے جو بات چیت افغان حکومت کی خواہش پر شروع ہوئی تھی وہ آگے نہیں بڑھ سکی ۔ کیونکہ جو شرائط ٹی ٹی پی نے دی تھیں پاکستان کے بقول ان کو قبول کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا ۔ آئی ایس پی آ رکے بقول اب ان کے خلاف ہماری جنگ ان کے منطقی انجام تک جاری رہے گی ۔ اس جنگ سے نمٹنا بھی ہماری سیاسی اور عسکری حکمت عملی کا اہم حصہ ہونا چاہیے ۔
خارجہ پالیسی کی یہ جنگ تقاضہ کرتی ہے کہ ڈپلومیسی کے محاذ پر جو بھی ہماری کمزوریاں ہیں ان کو دورکرنا اور روائتی سوچ سے باہر نکل کر جدید انداز میں سفارت کاری کو مضبوط، مربوط اورفعال بنانا ہوگا۔ اسی طرح سفارت کاری کی یہ جنگ سمیت ہم مجموعی طور پر خارجہ پالیسی کی جنگ کو داخلی سطح پر ایک بڑے سیاسی اور معاشی استحکام کی بنیاد پر جیت سکیں گے ۔اس کے لیے میڈیا کے محاذ پر بھی ہمیں اپنے سیاسی بیانیہ کو مضبوط بنانا ہوگا او ربالخصوص عالمی میڈیا میں اپنے بیانیہ کی درست انداز میں تشہیر کرنا ہوگی ۔ جو غلطیاں ہماری داخلی سیاست سے جڑی ہیں ان کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا اور تمام فریقین کو ساتھ ملا کر ہی ہم اس خارجہ پالیسی کی جنگ میں اپنی مشکلات کو کم کرسکتے ہیں ۔
اول افغانستان کا بحران اور خطے میں ہمارا مجموعی کردار، دوئم پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری اور مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ، سوئم پاکستان امریکا تعلقات اور پاکستان چین تعلقات کسی ٹکراو کے بغیر مثبت طور پر آگے بڑھیں ، چہارم پاکستان سعودی عرب اور ایران تعلقات ، پنجم دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا شامل ہیں ۔ایک بنیادی نقطہ علاقائی سیاست کا استحکام ہے۔ کیونکہ جب تک ہم یا علاقہ کے دیگر ممالک اپنے اندر موجود تضادات ، تنازعات او رٹکراو جیسے مسائل سے باہر نکل کر مفاہمت کا بڑا سیاسی ایجنڈا تشکیل نہیں دیں گے تو کوئی بھی ملک بشمول پاکستان دنیا کی خارجہ پالیسی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکے گا۔
اس لیے ہماری خارجہ پالیسی کا اہم نقطہ ہی علاقائی سطح پر استحکام پیدا کرکے دو طرفہ سیاسی ، سماجی اور معاشی تعلقات کو یقینی بنانا ہونا چاہیے ۔ اس کا واحد حل مفاہمت کی کنجی ہے اور یہ ہی تمام ممالک کا سیاسی ہتھیار بھی ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے ہمیں موجودہ فریم ورک سے باہر نکل کر کچھ غیر معمولی فیصلے کرکے دوسرے ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنا ہوگی ۔
افغانستان کے بحران کا حل ہماری علاقائی سیاست کی کنجی ہے ۔ کیونکہ محض پاکستان ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر علاقہ کی پرامن سیاست ، ترقی اور خوشحالی کا بھی بڑا دارومدآر بھی افغان بحران کے حل سے جڑا ہوا ہے ۔جب کچھ لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں کچھ زیادہ ہی حساسیت رکھتا ہے تو یہ غلط فکر نہیں ۔کیونکہ ہمیں اندازہ ہے کہ افغان بحران میں اگر بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر بھی پاکستان پر ہی پڑے گا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان افغان بحران کے حل میں زیادہ گرم جوش اور فعال کردار ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے ، اس لیے اس عمل کو پاکستان کی کمزوری نہیں بلکہ ایک مثبت حکمت عملی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
افغان بحران کا حل سیاسی تنہائی میں تو ممکن نہیں اس کے لیے ہمیں دنیا کی بڑی طاقتوں کو باور کروانا ہوگا کہ اگر افغانستان میں بڑا بگاڑ پیدا ہوگا تو اس کی نشانہ محض علاقائی سیاست یا ممالک پر ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا بھی اس بگاڑ سے محفوظ نہیں رہے گی ۔ داعش بڑا خطرہ ہے اور یہ خطرہ ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔داعش سے نمٹنا ایک مربوط حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے اور یہ حکمت عملی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کی مد د سے ہی تشکیل دی جاسکتی ہے ۔ہمیں طالبان کو بھی باو ر کروانا ہوگا کہ وہ عالمی تحفظات کو نظرانداز کرنے کے بجائے انھیں دور کریں کیونکہ افغان حکومت سیاسی تنہائی میں کچھ بھی نہیں کرسکے گی۔
ایک مسئلہ امریکا بھی ہے ، اگر واقعی امریکا افغان بحران کا حل چاہتا ہے تو اس کا عملی اظہار ہونا چاہیے، محض ڈکٹیشن یا طاقت کی بنیاد پر اپنے ایجنڈے کو مسلط کرنا مسئلہ کا حل نہیںہوگا۔لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغان حل میں امریکا کی پالیسی میں یا تو الجھاو ہے یا وہ واقعی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اسے بگاڑنے کی پالیسی رکھتا ہے ۔ پاک امریکا تعلقات میں جہاں ایک بڑی وجہ افغان بحران ہے تو دوسری طرف ایک مسئلہ پاکستان چین تعلقات پر بھی ہے۔
امریکا کو لگتا ہے کہ پاکستانی جھکاو چین کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی مدد سے ہمیں خطہ کی سطح پر کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ اس تناظر میں یقینی طور پر ہماری خارجہ پالیسی کا یہ چیلنج اہم ہے کہ ہم کیسے امریکا او رچین کے تناظر میں توازن پر مبنی پالیسی اختیار کرکے امریکی تحفظات کو کم کرسکیں ۔
علاقائی سیاست میں ایک بڑی مشکل پاک بھارت تعلقات ہیں، بداعتمادی کا ماحول کیسے ختم ہو، یہ ایک مشکل سوال لگتا ہے ۔ہم نے دنیا کو یہ باور بھی کرایا ہے کہ پاکستان ماضی سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف جانا چاہتا ہے جس میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا ایجنڈا سرفہرست ہے ۔ ایک ٹکراؤ مسئلہ کشمیر پر ہے اوربھارت اس مسئلہ پر کوئی ایسی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں جو دو طرفہ بات چیت یا مذاکرات کا راستہ کھول سکے ۔افغان بحران میں بھی بھار ت کا کردار منفی ہے۔
بھارت اس بحران کے حل میں نہ خود کوئی پیش رفت کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ثالثی کے لیے تیار ہے ۔امریکا کا اہم اتحادی بھی اس علاقائی سیاست میں بھارت ہے اور وہ اسے مستحکم کرکے چین کے تناظر میں اہمیت دیتا ہے ۔ لیکن امریکا پاکستانی تحفظات پر بھارت پر دباو ڈالنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ۔
ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں اس نقطہ کو زیادہ فوقیت دینا ہوگی کہ ہماری سرزمین نہ تو کسی ملک کے خلاف استعمال ہوگی اور نہ ہی کسی اورملک کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہونی چاہیے ۔تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی سے جو بات چیت افغان حکومت کی خواہش پر شروع ہوئی تھی وہ آگے نہیں بڑھ سکی ۔ کیونکہ جو شرائط ٹی ٹی پی نے دی تھیں پاکستان کے بقول ان کو قبول کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا ۔ آئی ایس پی آ رکے بقول اب ان کے خلاف ہماری جنگ ان کے منطقی انجام تک جاری رہے گی ۔ اس جنگ سے نمٹنا بھی ہماری سیاسی اور عسکری حکمت عملی کا اہم حصہ ہونا چاہیے ۔
خارجہ پالیسی کی یہ جنگ تقاضہ کرتی ہے کہ ڈپلومیسی کے محاذ پر جو بھی ہماری کمزوریاں ہیں ان کو دورکرنا اور روائتی سوچ سے باہر نکل کر جدید انداز میں سفارت کاری کو مضبوط، مربوط اورفعال بنانا ہوگا۔ اسی طرح سفارت کاری کی یہ جنگ سمیت ہم مجموعی طور پر خارجہ پالیسی کی جنگ کو داخلی سطح پر ایک بڑے سیاسی اور معاشی استحکام کی بنیاد پر جیت سکیں گے ۔اس کے لیے میڈیا کے محاذ پر بھی ہمیں اپنے سیاسی بیانیہ کو مضبوط بنانا ہوگا او ربالخصوص عالمی میڈیا میں اپنے بیانیہ کی درست انداز میں تشہیر کرنا ہوگی ۔ جو غلطیاں ہماری داخلی سیاست سے جڑی ہیں ان کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا اور تمام فریقین کو ساتھ ملا کر ہی ہم اس خارجہ پالیسی کی جنگ میں اپنی مشکلات کو کم کرسکتے ہیں ۔