یادگار لوگ
کئی سال قبل ایک سول جج کی تلخ کلامی پر وکیل صاحب نے بھی درُشت لہجہ اپنایا اور بات گالی گلوچ تک جا پہنچی
DUBAI:
سپریم کورٹ کے جج کو دیکھنے اور سننے کا پہلا موقع مجھے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں راولپنڈی میں ملا جب جسٹس کارنیلیس وہاں ایک لیکچر دینے آئے تھے۔ جسٹس کارنیلیس مجرد تھے اور ان کا قیام فلیٹیز ہوٹل میں مستقل ہوتا تھا تو میں اسی شام ہوٹل پہنچ گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ کمرہ نمبر104 کارنیلیس صاحب کا ہوا کرتا تھا۔ کمرے میں ان کی تصویر دیوار پر لگی تھی۔
یہ کمرہ مخصوص لوگوں کو مہنگے کرائے پر دیا جاتا تھا۔ اس کے برابر وہ کمرہ تھا جس میں ایک بار قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے قیام کیا تھا۔ اس ہوٹل کا منیجر میرا اسکول فیلو فاروق شاہ بھی کافی عرصہ رہا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار ہائیکورٹ بار روم گئے لیکن بے حد مایوس لوٹے۔ وہ اسی ہوٹل میں مقیم تھے جب 1991 میں ان کا انتقال ہوا لیکن ان کی قابلیت، اصول پسندی اور ایمانداری کا ہر کوئی معترض ہے۔
کئی سال قبل ایک سول جج کی تلخ کلامی پر وکیل صاحب نے بھی درُشت لہجہ اپنایا اور بات گالی گلوچ تک جا پہنچی جس پر مشتعل وکلاء نے جج پر تشدد کر دیا۔ میں نے اسے ناپسندیدہ پا کر اتوار کے کالم میں اسے وکلاء کی ذیادتی قراردیا اور وکلاء پر سخت تنقید کی۔ ابھی میں نے خود بھی اخبار نہ پڑھا تھا کہ چیف جسٹس خواجہ صاحب کا ٹیلیفون آگیا اور انھوں نے حقیقت بیانی پر شکریہ ہی ادا نہیں کیا شام کو چائے کی دعوت بھی دے دی۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے لیکن میرے لیے باعث ِ تشکر تھا۔ اس قسم کے واقعات میں اب اضافہ بھی ہوتا دیکھا گیا ہے جو قابل ِ افسوس اور باعث ِ شرم ہے۔ وکلاء ہوں یا جج حضرات دونوں کو اس مقدس فورم کے تقدس کو ملحوظ ِ خاطر رکھنے ہی میں بھلائی کا رستہ ملے گا۔ یہاں یگانہ کا شعر یاد آیا ہے
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
میں نے کھاریاں تعیناتی کے دنوں دورے سے واپسی پر دیکھا کہ ایک موٹر کار کی ٹکر سے ایک بھینس سڑک پر مری پڑی ہے اور موٹر Damage کھڑی ہے۔ موٹر سپریم کورٹ کی تھی اور جج صاحب اور ان کے ڈرائیور کو ایک شخص تحصیل میڈیکل اسپتال لے گیا تھا۔ میں بھی اسپتال پہنچا ، دونوںبخیریت تھے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان دونوں کواپنے ساتھ لیا۔ میں جیپ چلا رہا تھا میرے برابر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس دُراب پٹیل براجمان تھے۔
ہم اسسٹنٹ کمشنر ہائوس پہنچے۔ جج صاحب کو آرام، واش روم اور چائے کافی کی ضرورت تھی۔ ان ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد وہ مجھ سے ہم کلام ہوئے اور خیر خیریت کے بعد میرے ذہن میں بھٹو کی مولوی مشتاق کی عدالت سے سزا یابی کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کا خیال آیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں جج صاحب سے بے تکلف ہو سکتا ہوں لہٰذا میں نے بھٹو کے ٹرائل کا ذکر چھیڑا۔
ان کی گفتگو بھٹو کے حق میں تھی اور ان کے مطابق پھانسی کی سزا ناجائز تھی۔ پہلی FIR کے بعد تفتیش ہونی چاہیے تھی ۔ کیس کو دبا کر رکھ دینا غلط تھا ،کیس کی فوری تفتیش نہ ہونا بھٹو کے حق میں جانے کے بجائے ان کے خلاف گیا اور ضیاء الحق نے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ جسٹس مشتاق استعمال ہوا، جس کا نتیجہ پھانسی کے فیصلے کی صورت میں نکلا۔ جسٹس دُراب پٹیل میری بہت سی باتوںکا جواب بڑے تحمل سے دیتے رہے۔
اس وقت میری تو کوئی حیثیت نہ تھی۔ وہ میرے بچوں سے بھی پیار کرتے رہے۔ جب قریباًایک گھنٹہ گزر گیا تو انھوں نے جانے کی اجازت چاہی،میں نے کہا کہ سر ! آپ کی کار تو چلنے کی حالت میں نہیں ہے۔ میں نے ASP کو فون کر دیا تھا کہ وہ ایک اچھی موٹر کار آپ کی اسلام آباد روانگی کے لیے اور ایک ٹرک کار کو لے کر جانے کے لیے بھجوا دے، اس وقت یہ دونوں کار اور ٹرک میرے گھر کے باہر موجود ہیں، ان کو روانہ کیا تو شکریہ ادا کرنے کے علاوہ انھوں نے کہا، وہ چند روز بعد مجھے بلائیں گے۔
ایک ہفتے کے بعد مجھے جسٹس دُراب پٹیل کی طرف سے شام چار بجے چائے کی دعوت آ گئی۔ انھوں نے مجھے بٹھا کر Bell بجائی تو ملازم چائے کی ٹرالی لے آیا۔ چائے پی ۔ پندرہ منٹ بات ہوئی۔ دُراب پٹیل صاحب کے گھر کے اندر سے کسی بچے کی بھی آواز نہ آئی تو میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ کارنیلیس صاحب کی طرح مجرد ہیں۔ چائے کے بعد میں نے اجازت لی اور واپس کھاریاں روانہ ہو گیا۔ یہاں مجھے جسٹس کارنیلیس ، جسٹس بھگوان داس اور جسٹس رُستم سدھوا کی یاد آئی۔ ان میں سے کارنیلیس صاحب سے ملا ہوں، باقی دو سے ملاقات نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ کے جج کو دیکھنے اور سننے کا پہلا موقع مجھے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں راولپنڈی میں ملا جب جسٹس کارنیلیس وہاں ایک لیکچر دینے آئے تھے۔ جسٹس کارنیلیس مجرد تھے اور ان کا قیام فلیٹیز ہوٹل میں مستقل ہوتا تھا تو میں اسی شام ہوٹل پہنچ گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ کمرہ نمبر104 کارنیلیس صاحب کا ہوا کرتا تھا۔ کمرے میں ان کی تصویر دیوار پر لگی تھی۔
یہ کمرہ مخصوص لوگوں کو مہنگے کرائے پر دیا جاتا تھا۔ اس کے برابر وہ کمرہ تھا جس میں ایک بار قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے قیام کیا تھا۔ اس ہوٹل کا منیجر میرا اسکول فیلو فاروق شاہ بھی کافی عرصہ رہا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار ہائیکورٹ بار روم گئے لیکن بے حد مایوس لوٹے۔ وہ اسی ہوٹل میں مقیم تھے جب 1991 میں ان کا انتقال ہوا لیکن ان کی قابلیت، اصول پسندی اور ایمانداری کا ہر کوئی معترض ہے۔
کئی سال قبل ایک سول جج کی تلخ کلامی پر وکیل صاحب نے بھی درُشت لہجہ اپنایا اور بات گالی گلوچ تک جا پہنچی جس پر مشتعل وکلاء نے جج پر تشدد کر دیا۔ میں نے اسے ناپسندیدہ پا کر اتوار کے کالم میں اسے وکلاء کی ذیادتی قراردیا اور وکلاء پر سخت تنقید کی۔ ابھی میں نے خود بھی اخبار نہ پڑھا تھا کہ چیف جسٹس خواجہ صاحب کا ٹیلیفون آگیا اور انھوں نے حقیقت بیانی پر شکریہ ہی ادا نہیں کیا شام کو چائے کی دعوت بھی دے دی۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے لیکن میرے لیے باعث ِ تشکر تھا۔ اس قسم کے واقعات میں اب اضافہ بھی ہوتا دیکھا گیا ہے جو قابل ِ افسوس اور باعث ِ شرم ہے۔ وکلاء ہوں یا جج حضرات دونوں کو اس مقدس فورم کے تقدس کو ملحوظ ِ خاطر رکھنے ہی میں بھلائی کا رستہ ملے گا۔ یہاں یگانہ کا شعر یاد آیا ہے
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
میں نے کھاریاں تعیناتی کے دنوں دورے سے واپسی پر دیکھا کہ ایک موٹر کار کی ٹکر سے ایک بھینس سڑک پر مری پڑی ہے اور موٹر Damage کھڑی ہے۔ موٹر سپریم کورٹ کی تھی اور جج صاحب اور ان کے ڈرائیور کو ایک شخص تحصیل میڈیکل اسپتال لے گیا تھا۔ میں بھی اسپتال پہنچا ، دونوںبخیریت تھے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان دونوں کواپنے ساتھ لیا۔ میں جیپ چلا رہا تھا میرے برابر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس دُراب پٹیل براجمان تھے۔
ہم اسسٹنٹ کمشنر ہائوس پہنچے۔ جج صاحب کو آرام، واش روم اور چائے کافی کی ضرورت تھی۔ ان ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد وہ مجھ سے ہم کلام ہوئے اور خیر خیریت کے بعد میرے ذہن میں بھٹو کی مولوی مشتاق کی عدالت سے سزا یابی کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کا خیال آیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں جج صاحب سے بے تکلف ہو سکتا ہوں لہٰذا میں نے بھٹو کے ٹرائل کا ذکر چھیڑا۔
ان کی گفتگو بھٹو کے حق میں تھی اور ان کے مطابق پھانسی کی سزا ناجائز تھی۔ پہلی FIR کے بعد تفتیش ہونی چاہیے تھی ۔ کیس کو دبا کر رکھ دینا غلط تھا ،کیس کی فوری تفتیش نہ ہونا بھٹو کے حق میں جانے کے بجائے ان کے خلاف گیا اور ضیاء الحق نے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ جسٹس مشتاق استعمال ہوا، جس کا نتیجہ پھانسی کے فیصلے کی صورت میں نکلا۔ جسٹس دُراب پٹیل میری بہت سی باتوںکا جواب بڑے تحمل سے دیتے رہے۔
اس وقت میری تو کوئی حیثیت نہ تھی۔ وہ میرے بچوں سے بھی پیار کرتے رہے۔ جب قریباًایک گھنٹہ گزر گیا تو انھوں نے جانے کی اجازت چاہی،میں نے کہا کہ سر ! آپ کی کار تو چلنے کی حالت میں نہیں ہے۔ میں نے ASP کو فون کر دیا تھا کہ وہ ایک اچھی موٹر کار آپ کی اسلام آباد روانگی کے لیے اور ایک ٹرک کار کو لے کر جانے کے لیے بھجوا دے، اس وقت یہ دونوں کار اور ٹرک میرے گھر کے باہر موجود ہیں، ان کو روانہ کیا تو شکریہ ادا کرنے کے علاوہ انھوں نے کہا، وہ چند روز بعد مجھے بلائیں گے۔
ایک ہفتے کے بعد مجھے جسٹس دُراب پٹیل کی طرف سے شام چار بجے چائے کی دعوت آ گئی۔ انھوں نے مجھے بٹھا کر Bell بجائی تو ملازم چائے کی ٹرالی لے آیا۔ چائے پی ۔ پندرہ منٹ بات ہوئی۔ دُراب پٹیل صاحب کے گھر کے اندر سے کسی بچے کی بھی آواز نہ آئی تو میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ کارنیلیس صاحب کی طرح مجرد ہیں۔ چائے کے بعد میں نے اجازت لی اور واپس کھاریاں روانہ ہو گیا۔ یہاں مجھے جسٹس کارنیلیس ، جسٹس بھگوان داس اور جسٹس رُستم سدھوا کی یاد آئی۔ ان میں سے کارنیلیس صاحب سے ملا ہوں، باقی دو سے ملاقات نہیں ہوئی۔