کورونا وائرس کا خطرہ

حکومت کے ٹاسک فورسز کو سوشل کاموں میں مصروف رکھنے کا یہی وقت ہے

حکومت کے ٹاسک فورسز کو سوشل کاموں میں مصروف رکھنے کا یہی وقت ہے (فوٹو : فائل)

کورونا وائرس کیسز میں اضافہ اور اس کے طبی اثرات و نتائج کے بارے میں ملکی اداروں اور بین الاقوامی تحقیقی فورمز کے حقائق نے ماہرین کو سخت الجھن میں ڈال دیا ہے، اس وائرس کی فعالیت اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے خطرات کم نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستان میں گزرے روز تک وائرس کے چھتیس ہزار فعال کیسز موجود ہیں جن میں سے تقریباً آٹھ سو افراد کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔

اومیکرون کے پھیلاؤ کے سبب ملک کے صنعتی و تجارتی حب کراچی میں صورت حال اچھی نہیں جہاں نہ صرف عام شہری بلکہ طبی ورکرز بھی اس وائرس سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ حالیہ لہر کے دوران 500 سے زائد ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس بیماری کا نشانہ بنے ہیں۔ اتوار کو کی اطلاع کے مطابق ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر کووڈ کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ سیکڑوں ہیلتھ کیئر پروفیشنلز اس وقت وباء کا شکار ہیں۔

گزشتہ روز بتایا گیا تھا کہ28 اگست کے بعد سب سے زیادہ 4286 ہزار کیسز ریکارڈ ہوئے، چار مریض جاں بحق ہوئے جب کہ کیسز کی شرح 8.2 فیصد تھی، تعلیمی اداروں کو تاریخ میں پہلی بار کورونا کے باعث شدید ذہنی، جذباتی اور اعصابی دباؤ کا سامنا رہا، تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے طلبا کا بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے، طلبا اور والدین کو تشویش ہے کہ آن لائن تعلیم کا پروسیس بھی مربوط اور باقاعدگی سے نہیں ہورہا، کورونا کے پھر سے پھیلاؤ کی وجہ سے شادی ہالز میں کھانا ڈبوں میں بند ملے گا، ماسک پہننے، فاصلہ رکھنے اور بھیڑ سے گریز کی پابندیوں میں سختی کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا کیسز 32 کروڑ سے تجاوز کرگئے، ماہرین کے مطابق اومی کرون اگرچہ شدت میں ہولناک نہیں مگر اس کا خطرہ بھی عوام کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے، کووڈ 19 کے باعث اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں میں مختصر مدت تک خون میں ایسے پروٹین کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے جو دماغی نقصان کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ درحقیقت کووڈ کا مرض معمر افراد کے دماغ کو الزائمر امراض سے زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ بیماری کے بعد مختصر وقت تک ان پروٹین کی سطح دیگر بیماریوں بشمول الزائمر سے متاثرہ افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں مارچ سے مئی 2020کے دوران بیمار ہونے والے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔

مریضوں میں مستقبل میں الزائمر امراض کا خطرہ تو نہیں بڑھ جاتا یا وہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتے ہیں، اس کا تعین کرنے کے لیے طویل المدتی تحقیقی رپورٹس کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔ تحقیق میں کووڈ 19 کے مریضوں میں ایسے 7 پروٹین کی زیادہ سطح کو دریافت کیا گیا جن کو بیماری کے دوران دماغی علامات کا سامنا تھا اور ان میں ہلاکتوں کی شرح بھی کووڈ سے متاثر دیگر افراد (جن کو دماغی علامات کا سامنا نہیں ہوا) سے زیادہ تھی۔

مزید تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ دماغ کو نقصان پہنچانے والے یہ اشاریے مختصر مدت تک الزائمر کے شکار افراد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، بلکہ ایک کیس میں یہ شرح دگنا سے بھی زیادہ تھی۔ محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں بالخصوص دماغی و اعصابی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں دماغ کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی شرح زیادہ ہوتی ہے بلکہ الزائمر کے مریضوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں 251 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر 71 سال تھی مگر ان میں دماغی تنزلی یا ڈیمینشیا کی علامات کووڈ سے بیمار ہونے سے قبل نہیں تھیں۔ ان مریضوں کو دماغی علامات ہونے یا نہ ہونے، صحتیاب اور ڈسچارج ہونے یا ہلاکت جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے گروپس میں تقسیم کیا گیا۔


ان محققین کی جانب سے الزائمر کے حوالے سے ایک طویل المیعاد تحقیق پر پہلے سے کام کیا جارہا تھا تو وہ یہ موازنہ کرنے میں کامیاب رہے۔ 161 افراد کے کنٹرول گروپ (54 دماغی طور پر صحت مند، 54 میں معمولی دماغی مسائل اور 53 میں الزائمر کی تشخیص ہوئی تھی) میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دماغی انجری کی جانچ پڑتال کی گئی اور خون کے نمونوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔ محققین نے دماغی علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے خون میں7 پروٹینز کی زیادہ مقدار کو دریافت کیا جن میں یہ شرح ان علامات کا سامنا نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ تھی۔

انھوں نے بتایا کہ نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ کووڈ کے مریض میں الزائمر یا ڈیمینشیا سے متعلق کسی عارضے کا امکان مستقبل میں ہوسکتا ہے، مگر خطرہ ضرور بڑھ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی پیچیدگیوں اور دماغی تنزلی کے درمیان تعلق ابھی ایک سوال ہے جس کے جواب کو فوری جاننے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہم مریضوں کی مانیٹرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے الزائمرز اینڈ ڈیمینشیا : دی جرنل آف دی الزائمرز ایسوسی ایشن میں شایع ہوئے۔ ایک دوسری تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ سے معمولی بیمار افراد بھی طویل المیعاد منفی اثرات کا سامنا کرسکتے ہیں، تحقیق کینیڈا کے لانگی چیودینل ادارہ نے کی ہے، یہ ریسرچ عمر کے حوالے سے ہے، جس میں 24 ہزار 114معمر اور درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ لیا گیا۔

اس تحقیق میں کووڈ کو دریافت کیا گیا تھا، اور بیشتر افراد میں کووڈ کی شدت معمولی سے معتدل تھی جنھیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہ تھی مگر ان پر بیماری کے بعد منفی اثرات کا تسلسل برقرار تھا، تحقیق میں بتایا گیا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے معمولی یا معتدل بیمار ہونے والے افراد کو بھی ضرورت ہوتی ہے کہ انھیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی، ان افراد کے ابتدائی گروپ میں شامل لگ بھگ 42 فیصد کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ تھی، جن میں 51 فیصد خواتین تھیں۔

ان افراد کی نقل و حرکت کو جسمانی مشقتوں میں جانچا گیا، جیسے ایک کرسی پر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہونے، گھریلو کاموں میں شمولیت اور روزمرہ کی جسمانی سرگرمیوں تک اس کا جائزہ شامل تھا، محققین نے بتایا کہ ہم نے متعدد افراد کو ایروبک سرگرمیوں میں نمایاں چیلنجز کا سامنا کرتے دیکھا، دلچسپ بات یہ تھی کہ دیگر کاموں میں سخت سرگرمیوں میں بھی جیسے بھاری وزن اٹھانے کے قابل تھے، مگر ان افراد کے لیے عام سرگرمیوں کے کام مشکل ثابت ہوئے، مثلاً کچھ دیر چلنا، خاص طور پر سیڑھیاں چڑھنا مشکل ثابت ہوا ماہرین کا کہنا تھا کہ جسمانی نقل وحرکت پر محض عمر میں اضافے کا منفی اثر نہیں تھے کیونکہ وہ دیگر کام بھی کرتے تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کووڈ سے سماجی حرکت کے مسائل مثلاً جوڑوں اور اپنے بل پر چہل قدمی کرنے، وزن منتقل کرنے جیسی مشکلات پیش آتی تھیں، تحقیق کے مطابق کووڈ کے اس طرح کے طویل المیعاد اثرات جن کو درپیش آتے تو انھیں مشکلات پر مزید کام نہیں دیا جاتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ طبی امداد کے بغیر سنگین کیسز میں مریضوں کو تھکاوٹ اور یا ماحول سے کٹ جانے کا احساس بھی ہو جاتا ہے، انھیں مسلز میں حجم کی کمی کا سامنا ہوتا تھا۔

بہرحال کورونا کے پھیلاؤ کے ساتھ محققین نے علاج کے لیے بہت سی مثبت تجاویز کے حوالے دیے ہیں، لیکن کورونا اور اومی کرون کے اثرات اور نتائج کے بارے میں عوام کو ہر ممکن معلومات اور آگہی ملنی چاہیے، حکومت اور متعلقہ ادارے عوام کی مشکلات کا ادراک کریں، انھیں ماسک پہننے، فاصلہ رکھنے اور اجتماع سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کرنے کے علاوہ بھی بنیادی معلومات اور سہولتیں درکار ہیں، گزشتہ دنوں حکومت نے اسکول میں کھانے کے بند پیکٹوں کی تقسیم کی باتیں کیں، ایسے ڈبل روٹیوں اور چھولے کے بند پیکٹ، خشک دودھ اور گھی کے ڈبے اسکول میں تقسیم ہوتے تھے، یہ روایت دوبارہ بھی شروع کی جاسکتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ٹاسک فورسز کو سوشل کاموں میں مصروف رکھنے کا یہی وقت ہے، حکومت نئے نئے آئیڈیاز دے رہی ہے، لہٰذا سماجی کاموں اور غریب طبقات کو کھانے پینے کی سہولتوں کی فراہمی سے غربت اور بیروزگاری کے شکار عوام کو بہت سہارا مل سکے گا۔

حکومت کی دستگیری کے بارے میں بھی عملی روایت بھی دوبارہ جڑ پکڑ ے گی، عوام محسوس کرسکیں گے کہ بیماریوں اور غربت میں حکومت نے عوام کو یاد رکھا ہے۔ اس احساس محرومی کا حوالہ ایک سیاستدان نے اپنی تقریر میں کیا تھا کہ غربت میں ارباب اختیار اگر قریب نہ ہوں تو عوام کو بہت تکلیف ہوتی ہے، لازم ہے کہ غربت اور بیروزگاری میں مبتلا لوگوں سے یک جہتی کا عملی مظاہرہ سیاست کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔
Load Next Story