کراچی۔ ڈوبتی شہ رگ

ملک کے سب سے بڑے معاشی انجن، کراچی سے روا رکھا گیا یہ سلوک انتہائی غیردانشمندانہ ہے

younus.dagha@gmail.com

WASHINGTON:
'' شہر تیزرفتارمعاشی ترقی کا ذریعہ ہیں۔ انسانی تمدن کی کہانی شہروں میں رقم ہوگی۔'' (پیٹر شر)

پاکستان میں آٹھ ایسے شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ نفوس سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں ایسے پانچ، سندھ میں دو اور خیبرپختونخوا میں ایک شہر ہے۔ یہ شہر جوملکی معیشت کی ترقی کے انجن ہیں، ان کا ہم کیسے خیال رکھتے ہیں اور ان انجنوں کا کیا حال ہے؟ اس پر ہماری قوم کے معاشی مستقبل کا انحصار ہوگا۔

کراچی جہاں اندازاً ملک کی دس فیصد آبادی ہے، وہاں سے ملک کی پچاس فیصد ایکسپورٹ ہوتی ہیں، وفاقی خزانے کے لیے چھپن (56) فیصد اور صوبائی خزانے کے لیے چھیانوے (96) فیصد حصّہ جمع ہوتا ہے۔ کراچی سے حاصل ہونے والی سروسز پر سیلزٹیکس کی آمدنی پورے پنجاب کے سروسز پر سیلزٹیکس کی آمدنی کے تقریباً برابر ہے۔

ورلڈ بینک کی 2017کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کو رہنے کے لائق شہر بنانے میں دس ارب ڈالر کی مالیت کی شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ '' اس شہر میں45 افراد کی لیے بس کی ایک سیٹ ہے۔ پینے کا پانی مہنگے داموں خریدنا پڑتاہے۔ سیوریج کے نظام کو 1960 کے سسٹم پر چلایا جارہا ہے۔ بلدیاتی اور صنعتی فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ 12000 ٹن کچرے میں سے صرف 40 فیصد اٹھایا جاتا ہے۔ کراچی عدم استحکام کے راستے پر رواں ہے۔''

2020 کی تباہ کن بارشوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کراچی پر توجہ دینے پر مجبور کیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر کراچی بحالی پلان کے 1100 ارب کے منصوبوں کے لیے فنڈ مہیا کرنے کے دعوے کیے۔ ان منصوبوں کو تین سال میں مکمل ہونا تھا۔ ڈیڑھ سال گذر چکے ہیں، کتنا خرچ ہوا اور کون سے معاملات ٹھیک ہو گئے، سب کے سامنے ہے۔

لیکن بھلا کیوں وفاقی یا صوبائی حکومتیں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ کراچی کے مالیاتی بحران کے لیے اپنے وسائل استعمال کریں ؟

2009کے قومی مالیاتی ایوارڈ نے صوبوں کو یکایک امیر کر دیا۔ سندھ کا بجٹ2008 کے 178ارب کے مقابلے میں 815 فیصد اضافے سے رواں سال میں1452 ارب ہو چکا ہے۔ صوبے کے وسائل میں اس قدر بے پناہ اضافے کے نتیجے میں سندھ کے دارالحکومت کراچی کو جنت نظیر بن جانا چاہیے تھا بجائے یہ کہ کراچی کا شمار دنیا کے بدترین شہروں میں ہونے لگا۔


2008میں صوبے کے بجٹ میں 37 ارب روپے کراچی شہری حکومت کے لیے رکھے گئے جو کہ بجٹ کا20 فیصد تھا۔2021 میں اگروہی 20 فیصد رکھے جاتے تو کراچی کو244 ارب روپے ملتے۔ لیکن کراچی کو محض 3 فیصد یعنی38 ارب دیئے گئے۔ صوبے کو ملنے والے اضافی1274 ارب میں سے کراچی کے لیے12 سال صرف ایک ارب روپے کا اضافہ؟2009 سے صوبائی مالیاتی فنڈ کو غیر فعال کرکے کراچی کو اس کے حق کے تقریباً 85 فیصد حصہ سے مسلسل محروم رکھا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ رقم663 ارب روپے ہے جو موجودہ قدر میں کئی گنا بنتی ہے۔

اسی طرح2008کے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کے لیے 61.6 فیصد رقم کم ہوکر 2021میں صرف 2 فیصد رہ گئی۔ اگر کراچی کی ترقی کو وہی فوقیت دی جاتی تو وفاقی حکومت سے بھی کراچی کو 1286 ارب روپے اضافی ملتے جس کی موجودہ قدر کئی گنا ہوتی۔

لہٰذا اگر کراچی کو2008تک ملنے والے مالیاتی وسائل کو روکا نہ جاتا تو آج ورلڈ بینک کو کراچی کی شہری سہولتوں میں 10 ارب ڈالر کا فقدان نظر نہ آتا۔ چنانچہ 1100 ارب روپے کا کراچی بحالی پلان محض کراچی کے ان مالیاتی وسائل کی واپسی کا وعدہ ہے جن سے اس شہر کو گزشتہ بارہ سالوں میں محروم کیا گیا۔

ملک کے سب سے بڑے معاشی انجن، کراچی سے روا رکھا گیا یہ سلوک انتہائی غیردانشمندانہ ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کو معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوئی خواہش ہے اور اگر ہم سندھ کو متحد اور پرامن رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کراچی کو مکمل تباہی کے دہانے سے واپس لانا ہوگا۔ کیا صوبہ اپنے آئینی اور مالیاتی حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے اگر وہ خود اپنے شہروں اور ضلعوں کو ان حقوق سے محروم رکھ کر آئین کی شق 140الف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو۔

صوبائی مالیاتی کمیشن کو فوری طور پہ بحال کرکے شہروں اور ضلعوں کو ان کا جائز آئینی حق دیا جائے۔ یوں جہاں کراچی کو38 ارب کے بجائے 250سے 300 ارب سالانہ ملیں گے، وہیں دوسرے ضلعوں کو بھی موجودہ ملنے والے مالی وسائل سے تقریباً 18 سے 20 گنا زیادہ فنڈز ملیں گے۔

اس بات کا کیا جواز ہے کہ شہروں میں کچرے کی صفائی کے ٹھیکے بھی وزیراعلیٰ دیا کریں۔ اختیارات کا اس قدر ارتکاز اتنا ہی بلاجواز ہے جتنا کہ مشرف دور کے ناظموں کے اختیارات۔ بلدیاتی امور کو بہرحال بلدیاتی اداروں کے پاس ہی ہونا چاہیے جیسا کہ پانی کی فراہمی، صفائی یعنی سیوریج اور کچرا اٹھانے کا نظام، بلدیاتی ٹیکس اور قانون سازی، ماسٹرپلان اور بلڈنگ کنٹرول، ترقیاتی ادارے (کے ڈی اے، ایم ڈی اے، وغیرہ)، شہری ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ۔ اس کے علاوہ پراپرٹی اور موٹر وہیکل ٹیکس بھی ضلعوں کے حوالے کیا جانا چاہیے۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی معاشی ترقی کے مراکز، اپنے شہروں کو توانا اور متحرک بنائیں تاکہ وہ ملک کی تیز رفتار ترقی میں اپنا صحیح کردار ادا کر سکیں۔

(کالم نویس سابق وفاقی سیکریٹری خزانہ اور موجودہ چیئرمین، پالیسی ایڈوائزری بورڈ، ایف پی سی سی آئی ہیں)
Load Next Story