کراچی میں انسانی حقوق کی پامالی
2008ء کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحا ل انتہائی خراب ہوئی۔۔۔
کراچی میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات نے صورتحال کو گمبھیر کر دیا ہے۔ پولیس کے تشدد کی بنا پر ایم کیو ایم کے 2 کارکن جاں بحق ہوئے۔ فہد نامی دولہا کو بارات میں سے اغوا کیا گیا اور نوجوان پر رات بھر تشدد ہوا۔ احتجاج پر پولیس حکام نے فہد کو شخصی ضمانت پر رہا کیا تو وہ نجی اسپتال میں داخل ہوا۔ ادھر لیاری میں سیکڑوں افراد ہلاک کیے گئے اور خوف کے باعث کوئی اف تک نہیں کرتا، پولیس کا کہنا ہے کہ فہد ابراہیم حیدری میں پولیس موبائل پر حملے میں ملوث ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ اس کے سیکڑوں کارکن لاپتہ ہیں۔ اگرچہ پولیس ان الزامات کی تردید کر رہی ہے اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی قائم ہوئی ہے۔
کراچی یوں تو گزشتہ 24 سال سے بدامنی کا شکار ہے مگر 2008ء کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحا ل انتہائی خراب ہوئی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صلح کل کے نظریہ کے تحت سندھ اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کو سندھ حکومت میں شامل کیا، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل کے نمایندوں کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں شمولیت سے سیاسی اتفاق کی ایک نئی مثال قائم ہوئی تھی مگر اس مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا، جس کا براہ راست اثر کراچی شہر کے حالات پر پڑا۔ 2008ء سے پہلے نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور نادرن بائی پاس کے درمیان ہزاروں ایکڑ زمین کے مختلف ٹکڑوں پر لڑائیاں ہوتی تھیں مگر ان لڑائیوں میں ملوث مختلف گروہ کی کوئی سیاسی جماعت براہ راست سر پرستی نہیں کرتی تھی، صرف پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان گروہوں کو تحفظ فراہم کرتی تھیں، اس بنا پر یہ لڑائی اس مخصوص علاقے تک محدود تھی مگر 2008ء میں نئے سیاسی ڈھانچے کے بننے کے بعد سندھ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے مختلف متحارب گروپوں کی حمایت کرنا شروع کی، یوں یہ لڑائی کراچی میں داخل ہوئی۔
اس بنا پر سہراب گوٹھ، ابوالحسن اصفہانی روڈ، عباس ٹائوں، گلستان جوہر، بلدیہ ٹائون وغیرہ میں مختلف متحارب گروہوں میں تصادم کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا دور آیا، پھر فرقہ وارانہ بنیادوں پر لوگوں کو قتل کیا جانے لگا۔ اس گروہ کو بڑی سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ حمایت حاصل ہوئی۔ شہر کے بعض علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے مسلح کارکنوں نے پولیس اور بلدیاتی اداروں کے فرائض انجام دینے شروع کیے۔ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد دو ہندسوں تک پہنچ گئی تھی۔ ایم کیو ایم کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے قتل کے بعد ایک ہی رات میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب کراچی کے مضافاتی علاقوں گھگر پھاٹک سے حَب چوکی تک وسیع و عریض علاقے میں انتہا پسند گروہوں نے اپنی کمین گاہیں قائم کر لی تھیں۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومت بگڑتی ہوئی صورتحال کے تدارک کے لیے حکمت عملی تیار نہیں کر سکی۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومتیں ایک طرف اچھی طرز حکومت کی صلاحیت سے محروم رہیں، سفارش اور رشوت کی بنیاد پر پولیس کے محکمے کو چلایا جاتا تھا، دوسری طرف عسکری مقتدرہ اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے متوازی حکمت عملی پر عمل کر رہی تھی۔ ان عوامل نے ریاست کے عملداری کو موثر بنانے کے اقدامات کو بے اثر کر دیا، پھر شاید صدر آصف زرداری امریکا کی حمایت کے بعد یہ سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اس بنا پر انھوں نے قریبی معاون رحمن ملک کی کوششوں پر توجہ دی۔ ملکی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں اس موضوع پر بار بار بحث ہوئی کہ کراچی میں اہم سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ قائم کر لیے ہیں، جن کا شہر کے مختلف علاقوں پر مکمل کنٹرول ہے۔
جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کا از خود نوٹس لیا اور مہینوں اس مقدمے کی سماعت جاری رہی۔ سپریم کورٹ کے سامنے خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی سرگرمیوں پر رپورٹیں پیش کیں۔ اگرچہ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی سمیت دوسری جماعتوں نے ان الزامات سے انکار کیا مگر رونما ہونے والے شرمناک واقعات نے ان رپورٹوں کی تصدیق کی۔ سپریم کورٹ کے روبرو سندھ کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس (IG) نے اپنے بے اختیار ہونے، پولیس فورس میں مجرموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی موجودگی کا اقرار کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں ان عسکری ونگز کے خاتمے کی ہدایت جاری کی مگر دوسرے فیصلوں کی طرح اس فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
زرداری صاحب کے دور میں جب بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی شرح بڑھی، ایم کیو ایم نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی، رحمن ملک کراچی آئے، انھوں نے رینجرز اور پولیس حکام کے ساتھ مذاکرات کیے، پھر محدود ٹارگٹ آپریشن کا اعلان ہوا مگر حالات بدستور خراب ہوتے چلے گئے۔ کراچی میں سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتے وصول کرنے کے نئے نئے طریقہ پر مبنی کاروبار عروج پر پہنچ گئے۔ اس خطرناک صورتحال میں پیپلز پارٹی نے اپنے 5 سال مکمل کیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد امن و امان کی صورتحال بگڑی تو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر محدود آپریشن کا فیصلہ ہوا، اس طرح امن و امان کے مقصد کے حصول کے لیے پولیس، رینجرز اور خفیہ عسکری ایجنسیوں کو ایک صف پر لایا گیا۔ وفاق کی ایما پر وزیر اعلیٰ کو اس آپریشن کا سربراہ مقرر کیا گیا، تمام سیاسی جماعتوں نے آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس موقع پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ آپریشن کی نگرانی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جائے گی اور خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی مگر نگراں کمیٹی قائم نہ ہو سکی،اس طرح خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پولیس اور رینجرز نے یکساں کمانڈ کے تحت کارروائیاں شروع کیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکا مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتے کی وارداتوں کے علاوہ اسٹریٹ کرائمز پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا اور پولیس والوں کے قتل کا سلسلہ نہ رک سکا۔ گزشتہ ماہ پولیس افسروں کے تبادلوں کے معاملے پر صوبائی حکومت اور رینجرز حکام کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے جس کا اظہار ذرایع ابلاغ میں ہوا، پھر سی آئی ڈی کے افسر چوہدری اسلم کے قتل کے بعد یہ بات محسوس ہونے لگی کہ پولیس میں موجود بعض عناصر انتہا پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کی مدد کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کے اغوا اور ان پر ہونے والے تشدد کی طرف توجہ دلانے کے لیے آواز بلند کی، مگر سندھ کی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت نے بھی اس اہم معاملے پر توجہ نہیں دی۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اس کے سیکڑوں کارکن لاپتہ ہیں، متعدد کارکنوں کی لاشیں شہر کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ پولیس شہریوں کو اغوا کرتی ہے اور رہائی کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، اس طرح پولیس ہر ماہ 27 کروڑ روپے شہریوں سے وصول کرتی ہے۔ اصولی طور پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل تحقیقاتی ٹریبونل قائم کیا جانا تھا تا کہ حقائق واضح ہو جائیں اور ایم کیو ایم کسی انتہائی قدم پر مجبور نہ ہو۔ بہرحال ایم کیو ایم نے فہد تشدد کیس پر سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کر دی ہے، جہاں حقائق سامنے آ جائیں گے۔
اب بھی حکومت کا فرض ہے کہ اس آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل کے تمام معاملات کی ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل سے تحقیقات کرائے اور اس ٹریبونل کی رپورٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کی جائے اور اگر رپورٹ میں پولیس کے اہلکاروں کو ذمے دار قرار دیا جائے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں نے تاریخی قربانیاں دیں مگر غیر قانونی اقدامات کے خلاف تحقیقات کا مقصد پولیس فورس کے جذبے کو کم کرنا نہیں بلکہ عوام کی شکایات کو دور کرنا ہے۔ پولیس اور رینجرز عوام ہی کی مدد سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں پھر حالات جنگ میں بھی ہر فرد کا احتساب لازمی ہونا ہے، یوں قانون کی حکمرانی مستحکم ہو گی۔ ایم کیو ایم کو بھی کسی انتہا پسند اقدام سے گریز کرنا چاہیے، شہر کو بند کرانے سے انتہا پسندوں کو تقویت ملتی ہے۔ شہریوں کو اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کراچی یوں تو گزشتہ 24 سال سے بدامنی کا شکار ہے مگر 2008ء کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحا ل انتہائی خراب ہوئی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صلح کل کے نظریہ کے تحت سندھ اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کو سندھ حکومت میں شامل کیا، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل کے نمایندوں کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں شمولیت سے سیاسی اتفاق کی ایک نئی مثال قائم ہوئی تھی مگر اس مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا، جس کا براہ راست اثر کراچی شہر کے حالات پر پڑا۔ 2008ء سے پہلے نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور نادرن بائی پاس کے درمیان ہزاروں ایکڑ زمین کے مختلف ٹکڑوں پر لڑائیاں ہوتی تھیں مگر ان لڑائیوں میں ملوث مختلف گروہ کی کوئی سیاسی جماعت براہ راست سر پرستی نہیں کرتی تھی، صرف پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان گروہوں کو تحفظ فراہم کرتی تھیں، اس بنا پر یہ لڑائی اس مخصوص علاقے تک محدود تھی مگر 2008ء میں نئے سیاسی ڈھانچے کے بننے کے بعد سندھ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے مختلف متحارب گروپوں کی حمایت کرنا شروع کی، یوں یہ لڑائی کراچی میں داخل ہوئی۔
اس بنا پر سہراب گوٹھ، ابوالحسن اصفہانی روڈ، عباس ٹائوں، گلستان جوہر، بلدیہ ٹائون وغیرہ میں مختلف متحارب گروہوں میں تصادم کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا دور آیا، پھر فرقہ وارانہ بنیادوں پر لوگوں کو قتل کیا جانے لگا۔ اس گروہ کو بڑی سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ حمایت حاصل ہوئی۔ شہر کے بعض علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے مسلح کارکنوں نے پولیس اور بلدیاتی اداروں کے فرائض انجام دینے شروع کیے۔ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد دو ہندسوں تک پہنچ گئی تھی۔ ایم کیو ایم کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے قتل کے بعد ایک ہی رات میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب کراچی کے مضافاتی علاقوں گھگر پھاٹک سے حَب چوکی تک وسیع و عریض علاقے میں انتہا پسند گروہوں نے اپنی کمین گاہیں قائم کر لی تھیں۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومت بگڑتی ہوئی صورتحال کے تدارک کے لیے حکمت عملی تیار نہیں کر سکی۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومتیں ایک طرف اچھی طرز حکومت کی صلاحیت سے محروم رہیں، سفارش اور رشوت کی بنیاد پر پولیس کے محکمے کو چلایا جاتا تھا، دوسری طرف عسکری مقتدرہ اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے متوازی حکمت عملی پر عمل کر رہی تھی۔ ان عوامل نے ریاست کے عملداری کو موثر بنانے کے اقدامات کو بے اثر کر دیا، پھر شاید صدر آصف زرداری امریکا کی حمایت کے بعد یہ سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اس بنا پر انھوں نے قریبی معاون رحمن ملک کی کوششوں پر توجہ دی۔ ملکی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں اس موضوع پر بار بار بحث ہوئی کہ کراچی میں اہم سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ قائم کر لیے ہیں، جن کا شہر کے مختلف علاقوں پر مکمل کنٹرول ہے۔
جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کا از خود نوٹس لیا اور مہینوں اس مقدمے کی سماعت جاری رہی۔ سپریم کورٹ کے سامنے خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی سرگرمیوں پر رپورٹیں پیش کیں۔ اگرچہ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی سمیت دوسری جماعتوں نے ان الزامات سے انکار کیا مگر رونما ہونے والے شرمناک واقعات نے ان رپورٹوں کی تصدیق کی۔ سپریم کورٹ کے روبرو سندھ کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس (IG) نے اپنے بے اختیار ہونے، پولیس فورس میں مجرموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی موجودگی کا اقرار کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں ان عسکری ونگز کے خاتمے کی ہدایت جاری کی مگر دوسرے فیصلوں کی طرح اس فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
زرداری صاحب کے دور میں جب بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی شرح بڑھی، ایم کیو ایم نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی، رحمن ملک کراچی آئے، انھوں نے رینجرز اور پولیس حکام کے ساتھ مذاکرات کیے، پھر محدود ٹارگٹ آپریشن کا اعلان ہوا مگر حالات بدستور خراب ہوتے چلے گئے۔ کراچی میں سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتے وصول کرنے کے نئے نئے طریقہ پر مبنی کاروبار عروج پر پہنچ گئے۔ اس خطرناک صورتحال میں پیپلز پارٹی نے اپنے 5 سال مکمل کیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد امن و امان کی صورتحال بگڑی تو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر محدود آپریشن کا فیصلہ ہوا، اس طرح امن و امان کے مقصد کے حصول کے لیے پولیس، رینجرز اور خفیہ عسکری ایجنسیوں کو ایک صف پر لایا گیا۔ وفاق کی ایما پر وزیر اعلیٰ کو اس آپریشن کا سربراہ مقرر کیا گیا، تمام سیاسی جماعتوں نے آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس موقع پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ آپریشن کی نگرانی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جائے گی اور خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی مگر نگراں کمیٹی قائم نہ ہو سکی،اس طرح خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پولیس اور رینجرز نے یکساں کمانڈ کے تحت کارروائیاں شروع کیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکا مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتے کی وارداتوں کے علاوہ اسٹریٹ کرائمز پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا اور پولیس والوں کے قتل کا سلسلہ نہ رک سکا۔ گزشتہ ماہ پولیس افسروں کے تبادلوں کے معاملے پر صوبائی حکومت اور رینجرز حکام کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے جس کا اظہار ذرایع ابلاغ میں ہوا، پھر سی آئی ڈی کے افسر چوہدری اسلم کے قتل کے بعد یہ بات محسوس ہونے لگی کہ پولیس میں موجود بعض عناصر انتہا پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کی مدد کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کے اغوا اور ان پر ہونے والے تشدد کی طرف توجہ دلانے کے لیے آواز بلند کی، مگر سندھ کی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت نے بھی اس اہم معاملے پر توجہ نہیں دی۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اس کے سیکڑوں کارکن لاپتہ ہیں، متعدد کارکنوں کی لاشیں شہر کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ پولیس شہریوں کو اغوا کرتی ہے اور رہائی کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، اس طرح پولیس ہر ماہ 27 کروڑ روپے شہریوں سے وصول کرتی ہے۔ اصولی طور پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل تحقیقاتی ٹریبونل قائم کیا جانا تھا تا کہ حقائق واضح ہو جائیں اور ایم کیو ایم کسی انتہائی قدم پر مجبور نہ ہو۔ بہرحال ایم کیو ایم نے فہد تشدد کیس پر سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کر دی ہے، جہاں حقائق سامنے آ جائیں گے۔
اب بھی حکومت کا فرض ہے کہ اس آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل کے تمام معاملات کی ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل سے تحقیقات کرائے اور اس ٹریبونل کی رپورٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کی جائے اور اگر رپورٹ میں پولیس کے اہلکاروں کو ذمے دار قرار دیا جائے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں نے تاریخی قربانیاں دیں مگر غیر قانونی اقدامات کے خلاف تحقیقات کا مقصد پولیس فورس کے جذبے کو کم کرنا نہیں بلکہ عوام کی شکایات کو دور کرنا ہے۔ پولیس اور رینجرز عوام ہی کی مدد سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں پھر حالات جنگ میں بھی ہر فرد کا احتساب لازمی ہونا ہے، یوں قانون کی حکمرانی مستحکم ہو گی۔ ایم کیو ایم کو بھی کسی انتہا پسند اقدام سے گریز کرنا چاہیے، شہر کو بند کرانے سے انتہا پسندوں کو تقویت ملتی ہے۔ شہریوں کو اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔