سندھ فیسٹیول
بعض عاقبت نا اندیش اور ثقافت دشمن عناصر نے سندھ فیسٹیول پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھانا شروع کردیے ہیں۔۔۔
بلا شبہ سندھ صوفیوں اورولیوں کی سرزمین ہے، یہ امن وآشتی اور اخوت و محبت کی دھرتی ہے جہاں سچل سرمست اورشاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے عظیم صوفی بزرگوں اور اﷲ کے نیک بندوں کے رشدوہدایت کے پیغامات کی خوشبو سے فضائیں مہک رہی ہیں۔ سندھ باب الاسلام ہے جہاں عظیم مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم نے فتح کا پرچم لہرایا، قدیم یونان، مصر، ایران اور چین کی معروف تہذیبوں کی طرح سندھ کی قدیم تہذیب بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے، سندھ میں متعدد تہذیبوں کے آثار دریافت ہوئے جن میں لاڑکانہ کے قریب دریافت ہونے والے تاریخی شہر موہن جو دڑو کو ارفع مقام حاصل ہے۔ پانچ ہزار سال قدیم یہ شہر 20 ویں صدی کے اوائل میں دریافت ہوا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے موہن جو دڑوکو تاریخی عالمی ورثہ قرار دیا۔ اس تاریخی شہر کے کھنڈرات ہزاروں سال پرانی ایک شاندار تہذیب کا پتہ دیتے ہیں۔
آپ ملکوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آثارقدیمہ کی نشانیاں کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور قومی ورثہ ہوتی ہیں جو اپنے اندر ایک تہذیب وثقافت کی پوری تاریخ اور کشش رکھتی ہیں۔ بالخصوص سیاحوں کے لیے ماضی کے تاریخی کھنڈرات نہایت دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں اور محققین حضرات آثار قدیمہ کے کھنڈرات سے قدیم تہذیبوں کے راز تلاش کرتے اور تاریخ مرتب کرتے ہیں، زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ اپنے ماضی اور اجداد کی شاندار روایات، اقدار، تمدن اور معاشرت کو نہ صرف زندہ رکھتی ہیں بلکہ ان کی حفاظت اور نسل نو کو ان سے روشناس کرانے اور آیندہ نسلوں تک ان کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی ثقافت اور قدیم تہذیبوں کی حفاظت کرنا اور دنیا بھر کو اس سے متعارف کرانا ایک قومی فریضہ ہے، پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری ملک کے وہ پہلے سیاست دان ہیں جنہوںنے یہ قومی فریضہ ادا کرنے کا بیڑہ اٹھایاہے۔
موہن جو دڑو کے تاریخی مقام پر سندھ فیسٹیول کی 15روزہ تقریبات کا شاندار افتتاح کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہاکہ سندھ صدیوں سے باب الاسلام رہا ہے لیکن عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں نے اپنا اسلامی نظام متعارف کرواکے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح کیا۔ انھوںنے کہاکہ سندھ فیسٹیول کا مقصد دنیا بھر میں اپنی ثقافت کے ذریعے وطن عزیز کا امیج بہتر بنانا ہے، سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت کو اجاگر اور پاکستانی قوم کو متحد اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرانا ہے۔ کراچی کے تاریخی ابن قاسم باغ کلفٹن میں بھی سندھ فیسٹیول کے تحت بلاول بھٹو زرداری نے ''سستی تقریبات'' کا آغاز کردیاہے، فیسٹیول کی 15روزہ تقریبات میں میوزک میلہ، مشاعرہ، غزل نائٹ، فلم شوز، آرٹ و فیشن سمیت بے شمار چھوٹی بڑی تقریبات کا انعقاد کیا جارہاہے، جس میں سندھ اور پاکستان کی ثقافت کے رنگوں کو نمایاں کیا گیا ہے، سندھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی جوق در جوق شرکت سے اس امر کو تقویت ملی ہے کہ لوگ نہ صرف حبس و گھٹن کے ماحول سے نجات چاہتے اور ملک میں امن و سکون کے خواہاں ہیں بلکہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی خصوصی لگائو اور دلچسپی رکھتے ہیں جو یقیناً ایک خوش آیند بات ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے ذہن میں سندھ فیسٹیول کے انعقاد کا خیال کیسے آیا؟ اس بارے میں خود بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل وہ موہن جو دڑو کے تاریخی مقام پر گئے تو وہاں انھیں یہ دیکھ کر نہایت دکھ اور افسوس ہوا کہ باب الاسلام سندھ کا ہزاروں سال قدیم تاریخی و عالمی ورثہ عدم توجہ کے باعث تیزی سے معدوم ہوتا جارہاہے اور اگر بروقت اس کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو جلد یہ تاریخی نشانیاں مٹی ہوجائیںگی، پس اس خیال سے انھوںنے سندھ کے تاریخی ورثے موہن جو دڑوکے تحفظ کا بیڑہ اٹھانے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور سندھ فیسٹیول کے انعقاد کا بنیادی مقصد ہی موہن جودڑو کے قدیم تاریخی ورثے کے تحفظ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا ہے، اس حوالے سے قومی و عالمی سطح پر بعض اداروں اور شخصیات نے سندھ کے تاریخی ورثے کو بچانے کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جو یقیناً حوصلہ افزا، سندھ اور اس کی ثقافت سے ان کی دیرینہ وابستگی و محبت کا اظہار ہے۔
سندھ کے سپوت بلاول بھٹو زرداری نے مثبت سوچ کے ساتھ ایک اچھے کام کا آغاز کیا ہے جس کی توصیف کی جانی چاہیے اور ان کے اقدام اور قومی جذبے اور اپنی تہذیب و ثقافت سے والہانہ محبت کے اظہار کو سراہا جانا چاہیے۔ جیسا کہ نہ صرف سندھ کے عوام بلکہ پورے پاکستان اور بیرون وطن سے بھی بلاول بھٹو کے سندھ فیسٹیول کو پذیرائی مل رہی ہے اور صائب الرائے و محب وطن حلقے سندھ فیسٹیول کو بلاول بھٹو کی جانب سے اہل وطن کے لیے ''امن کا پیغام'' قرار دے رہے ہیں اور اس امید کا اظہار کیا جارہاہے کہ پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں واقع متعدد تاریخی مقامات ہڑپہ، ٹیکسلا، مہر گڑھ، مکلی، بادشاہی مسجد، شالامار باغ، درہ بولان، باب خیبر وغیرہ کی حفاظت کے لیے بھی اسی قسم کے فیسٹیول منعقد کیے جائیںگے۔ ملک میں برسوں سے جاری خوف و دہشت کے ماحول میں بلاول بھٹو کے امن، محبت، رواداری اور بھائی چارگی کے پیغام کو بڑی دلچسپی سے سنا اور سمجھا جارہاہے جس سے انتہا پسند عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی اور امن و آشتی کو فروغ حاصل ہوگا۔
اپنے اجداد کی تہذیبی روایات اور قومی ثقافت کی شناخت کا کلچر پروان چڑھے گا لیکن دوسری جانب تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بعض عاقبت نا اندیش اور ثقافت دشمن عناصر نے سندھ فیسٹیول پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھانا شروع کردیے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں، در اصل ہمارا معاشرہ ذہنی انتشار، نفرت، عدالت، بغض، کینہ پروری اور خبطی پن کا شکار ہوتا جارہاہے، اچھے کاموں کی تعریف کرنے کی بجائے ان میں کیڑے نکالنا بلا جواز تنقید کرنا اور مخالفت برائے مخالفت کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ تقریب کے اسٹیج کے لیے کی گئی کھدائی سے موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچ سکتاہے، بعض ''سیانے'' تو ایوان عدل تک جا پہنچے، حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے از خود اس مقام کا جائزہ لیا جہاں اسٹیج تعمیر کیا جانا تھا اور پوری طرح اطمینان کرلینے کے بعد کھدائی کی گئی اور اسٹیج کی تعمیر کے بعد پروقار تقریب بھی منعقد ہوگئی اور آثار قدیمہ کو قطعاً کوئی نقصان نہیں پہنچا، ثابت ہوگیا کہ اس حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈا بے بنیاد، من گھڑت اور بلا جواز ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے ناقدین کے اعتراضات اور خدشات کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، پیپلزپارٹی کراچی کے انفارمیشن سیکریٹری لطیف مغل کا کہنا تھا کہ معترضین صرف مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر خود ساختہ الزامات لگا رہے ہیں، موہن جو دڑو کا ورثہ ہمارا قومی سرمایہ ہے اور سندھ فیسٹیول کے موہن جو دڑو کے مقام پر انعقاد کے ناقدین و مخالفین اس خاص جگہ پر افتتاحی تقریب کے انعقاد کی اہمیت و افادیت سے نا آشنا ہیں، ہم نے اس ضمن میں تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرلی تھیں تاکہ قومی ورثے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس قدر مدلل و موثر جواب کے بعد ناقدین کا پروپیگنڈا جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے اور فیسٹیول کی تقریبات زور و شور سے جاری ہیں، ایک حلقہ سندھ فیسٹیول کی فنڈریزنگ کے حوالے سے بھی تنقید کی پوٹلی کھولے بیٹھا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی برائے ثقافت شرمیلا فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں اس تنقید کا بھرپور اور مدلل جواب دے کر ناقدین کو خاموش کردیاہے، شرمیلا کے بقول ایک ٹرسٹ بنایا جارہا ہے جو سندھ کے تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے خود رقم فراہم کرے گا اور سندھ کے محکمہ ثقافت سے لی گئی رقم اسپانسر شپ، فنڈ ریزنگ، ایونٹس کے ٹکٹوں کی فروخت ودیگر ذرایع سے حاصل آمدنی سے واپس کردی جائے گی لہٰذا ناقدین کے اعتراضات میں کوئی وزن نہیں ہے۔ درحقیقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر بلاول بھٹو زرداری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ناقدین کو ہضم نہیں ہورہی ہے، ان کی تنقید ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' والی بات ہے۔
آپ ملکوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آثارقدیمہ کی نشانیاں کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور قومی ورثہ ہوتی ہیں جو اپنے اندر ایک تہذیب وثقافت کی پوری تاریخ اور کشش رکھتی ہیں۔ بالخصوص سیاحوں کے لیے ماضی کے تاریخی کھنڈرات نہایت دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں اور محققین حضرات آثار قدیمہ کے کھنڈرات سے قدیم تہذیبوں کے راز تلاش کرتے اور تاریخ مرتب کرتے ہیں، زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ اپنے ماضی اور اجداد کی شاندار روایات، اقدار، تمدن اور معاشرت کو نہ صرف زندہ رکھتی ہیں بلکہ ان کی حفاظت اور نسل نو کو ان سے روشناس کرانے اور آیندہ نسلوں تک ان کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی ثقافت اور قدیم تہذیبوں کی حفاظت کرنا اور دنیا بھر کو اس سے متعارف کرانا ایک قومی فریضہ ہے، پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری ملک کے وہ پہلے سیاست دان ہیں جنہوںنے یہ قومی فریضہ ادا کرنے کا بیڑہ اٹھایاہے۔
موہن جو دڑو کے تاریخی مقام پر سندھ فیسٹیول کی 15روزہ تقریبات کا شاندار افتتاح کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہاکہ سندھ صدیوں سے باب الاسلام رہا ہے لیکن عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں نے اپنا اسلامی نظام متعارف کرواکے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح کیا۔ انھوںنے کہاکہ سندھ فیسٹیول کا مقصد دنیا بھر میں اپنی ثقافت کے ذریعے وطن عزیز کا امیج بہتر بنانا ہے، سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت کو اجاگر اور پاکستانی قوم کو متحد اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرانا ہے۔ کراچی کے تاریخی ابن قاسم باغ کلفٹن میں بھی سندھ فیسٹیول کے تحت بلاول بھٹو زرداری نے ''سستی تقریبات'' کا آغاز کردیاہے، فیسٹیول کی 15روزہ تقریبات میں میوزک میلہ، مشاعرہ، غزل نائٹ، فلم شوز، آرٹ و فیشن سمیت بے شمار چھوٹی بڑی تقریبات کا انعقاد کیا جارہاہے، جس میں سندھ اور پاکستان کی ثقافت کے رنگوں کو نمایاں کیا گیا ہے، سندھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی جوق در جوق شرکت سے اس امر کو تقویت ملی ہے کہ لوگ نہ صرف حبس و گھٹن کے ماحول سے نجات چاہتے اور ملک میں امن و سکون کے خواہاں ہیں بلکہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی خصوصی لگائو اور دلچسپی رکھتے ہیں جو یقیناً ایک خوش آیند بات ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے ذہن میں سندھ فیسٹیول کے انعقاد کا خیال کیسے آیا؟ اس بارے میں خود بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل وہ موہن جو دڑو کے تاریخی مقام پر گئے تو وہاں انھیں یہ دیکھ کر نہایت دکھ اور افسوس ہوا کہ باب الاسلام سندھ کا ہزاروں سال قدیم تاریخی و عالمی ورثہ عدم توجہ کے باعث تیزی سے معدوم ہوتا جارہاہے اور اگر بروقت اس کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو جلد یہ تاریخی نشانیاں مٹی ہوجائیںگی، پس اس خیال سے انھوںنے سندھ کے تاریخی ورثے موہن جو دڑوکے تحفظ کا بیڑہ اٹھانے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور سندھ فیسٹیول کے انعقاد کا بنیادی مقصد ہی موہن جودڑو کے قدیم تاریخی ورثے کے تحفظ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا ہے، اس حوالے سے قومی و عالمی سطح پر بعض اداروں اور شخصیات نے سندھ کے تاریخی ورثے کو بچانے کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جو یقیناً حوصلہ افزا، سندھ اور اس کی ثقافت سے ان کی دیرینہ وابستگی و محبت کا اظہار ہے۔
سندھ کے سپوت بلاول بھٹو زرداری نے مثبت سوچ کے ساتھ ایک اچھے کام کا آغاز کیا ہے جس کی توصیف کی جانی چاہیے اور ان کے اقدام اور قومی جذبے اور اپنی تہذیب و ثقافت سے والہانہ محبت کے اظہار کو سراہا جانا چاہیے۔ جیسا کہ نہ صرف سندھ کے عوام بلکہ پورے پاکستان اور بیرون وطن سے بھی بلاول بھٹو کے سندھ فیسٹیول کو پذیرائی مل رہی ہے اور صائب الرائے و محب وطن حلقے سندھ فیسٹیول کو بلاول بھٹو کی جانب سے اہل وطن کے لیے ''امن کا پیغام'' قرار دے رہے ہیں اور اس امید کا اظہار کیا جارہاہے کہ پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں واقع متعدد تاریخی مقامات ہڑپہ، ٹیکسلا، مہر گڑھ، مکلی، بادشاہی مسجد، شالامار باغ، درہ بولان، باب خیبر وغیرہ کی حفاظت کے لیے بھی اسی قسم کے فیسٹیول منعقد کیے جائیںگے۔ ملک میں برسوں سے جاری خوف و دہشت کے ماحول میں بلاول بھٹو کے امن، محبت، رواداری اور بھائی چارگی کے پیغام کو بڑی دلچسپی سے سنا اور سمجھا جارہاہے جس سے انتہا پسند عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی اور امن و آشتی کو فروغ حاصل ہوگا۔
اپنے اجداد کی تہذیبی روایات اور قومی ثقافت کی شناخت کا کلچر پروان چڑھے گا لیکن دوسری جانب تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بعض عاقبت نا اندیش اور ثقافت دشمن عناصر نے سندھ فیسٹیول پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھانا شروع کردیے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں، در اصل ہمارا معاشرہ ذہنی انتشار، نفرت، عدالت، بغض، کینہ پروری اور خبطی پن کا شکار ہوتا جارہاہے، اچھے کاموں کی تعریف کرنے کی بجائے ان میں کیڑے نکالنا بلا جواز تنقید کرنا اور مخالفت برائے مخالفت کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ تقریب کے اسٹیج کے لیے کی گئی کھدائی سے موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچ سکتاہے، بعض ''سیانے'' تو ایوان عدل تک جا پہنچے، حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے از خود اس مقام کا جائزہ لیا جہاں اسٹیج تعمیر کیا جانا تھا اور پوری طرح اطمینان کرلینے کے بعد کھدائی کی گئی اور اسٹیج کی تعمیر کے بعد پروقار تقریب بھی منعقد ہوگئی اور آثار قدیمہ کو قطعاً کوئی نقصان نہیں پہنچا، ثابت ہوگیا کہ اس حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈا بے بنیاد، من گھڑت اور بلا جواز ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے ناقدین کے اعتراضات اور خدشات کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، پیپلزپارٹی کراچی کے انفارمیشن سیکریٹری لطیف مغل کا کہنا تھا کہ معترضین صرف مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر خود ساختہ الزامات لگا رہے ہیں، موہن جو دڑو کا ورثہ ہمارا قومی سرمایہ ہے اور سندھ فیسٹیول کے موہن جو دڑو کے مقام پر انعقاد کے ناقدین و مخالفین اس خاص جگہ پر افتتاحی تقریب کے انعقاد کی اہمیت و افادیت سے نا آشنا ہیں، ہم نے اس ضمن میں تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرلی تھیں تاکہ قومی ورثے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس قدر مدلل و موثر جواب کے بعد ناقدین کا پروپیگنڈا جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے اور فیسٹیول کی تقریبات زور و شور سے جاری ہیں، ایک حلقہ سندھ فیسٹیول کی فنڈریزنگ کے حوالے سے بھی تنقید کی پوٹلی کھولے بیٹھا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی برائے ثقافت شرمیلا فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں اس تنقید کا بھرپور اور مدلل جواب دے کر ناقدین کو خاموش کردیاہے، شرمیلا کے بقول ایک ٹرسٹ بنایا جارہا ہے جو سندھ کے تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے خود رقم فراہم کرے گا اور سندھ کے محکمہ ثقافت سے لی گئی رقم اسپانسر شپ، فنڈ ریزنگ، ایونٹس کے ٹکٹوں کی فروخت ودیگر ذرایع سے حاصل آمدنی سے واپس کردی جائے گی لہٰذا ناقدین کے اعتراضات میں کوئی وزن نہیں ہے۔ درحقیقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر بلاول بھٹو زرداری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ناقدین کو ہضم نہیں ہورہی ہے، ان کی تنقید ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' والی بات ہے۔