غالب کا پڑوسی
مرزا کی موت کے بعد غالب گئے دنوں کی یاد میں کھو گئے۔ مرزا نے بھی کیا کیا تماشے کیے تھے۔۔۔
لاہور:
یہ اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا کہ آج سے لگ بھگ ڈیڑھ سو برس پہلے پرانی دلی کے علاقے چاندنی چوک کے آس پاس کتنے لوگ پیدا اور کتنے موت کے منہ میں چلے گئے ہوں گے، لیکن عجیب بات ہے کہ ایک 73 سالہ آزاد منش اور کچھ لوگوں کی نظر میں بے راہ رو بزرگ کی موت کو نہیں بھلایا جاسکا۔ یہ بزرگ جو اپنے حلیے اور طرز بودو باش سے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگتے تھے، گلی قاسم جاں کے قریب بلی ماراں کی ایک حویلی میں رہتے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں نابغہ روزگار شاعر غالب کی بھی بود و باش تھی۔ یہ 73 سالہ بزرگ جو غالب ہی کے ہم نام تھے، اسد اﷲ خان بیگ کہلاتے تھے، باپ داد کا پیشہ سپہ گری تھا۔ عزت اثر و رسوخ اور مال و منال کی کمی نہیں تھی۔ آگرہ میں پیدا ہوئے، 5 برس کی عمر میں یتیم ہوگئے تو چچا نے بھتیجے کی بڑے ناز کے ساتھ پرورش کی، منہ سے نکلی ہر بات پوری کی گئی، سیر تماشوں سے لے کر مرغ اور کبوتر بازی تک کے تماشے دیکھنے کا موقع فراہم کیا گیا مگر جلد ہی چچا بھی رخصت ہوگئے اور پھر زمانے کے چلن کے مطابق اسد اﷲ بیگ خاں شاعری کا شغل کرنے لگے۔
بچپن نے جوانی کی دہلیز پر کچھ جلدی ہی دستک دے دی اور موصوف 13 برس کی عمر میں نواب الٰہی بخش کی 11 سالہ چہیتی بیٹی کی امان میں دے دیے گئے۔ اب انھوں نے اکبر آباد کی گلیاں چھوڑ کر دلی کا رخ کیا اور غالب کے پڑوس میں آباد ہوگئے۔ غالب اور بیگ میں جو قدر مشترک تھی وہ تھی شاعری۔ دونوں میں ایسی گاڑھی چھنی کہ ایک دوسرے کے بغیر نہ رہتے تھے، شام ہوئی اور اسد اﷲ پہنچ گئے غالب کی حویلی اور پھر تا دیر شعر و شاعری، شغل مینا جام، قمار بازی اور نہ جانے کیا کیا چلتا رہتا۔ اسد اﷲ بیگ کی بیوی پڑوس سے چلاتی رہتیں کہ مرزا صاحب اب بس بھی کیجیے۔ مگر مرزا صاحب مسکرا کر رہ جاتے اور اہلیہ تھوڑی دیر بڑبڑا کر خاموش ہو رہتیں۔ غالب یہ سب تماشے دیکھتے رہتے اور مرزا کو سمجھاتے کہ کیوں بیوی کو تنگ کرتے ہو۔ جواب ملتا کہ پیارے صاحب، وہ اس کی عادی ہیں، میں ان کی عادت تبدیل کرکے انھیں مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ مرزا اسد اﷲ خاں بیگ اور غالب ایک دوسرے سے اتنا گھل مل گئے تھے کہ اب ان کی نہ صرف شکلیں ملنے لگی تھیں بلکہ اب لوگوں کو بھی مغالطہ ہونے لگا تھا کہ غالب کون ہے اور مرزا اسد اﷲ خان بیگ کون۔
15 فروری 1869 کو ضعف اور صبر آزما بیماری کے بعد مرزا اسداﷲ بیگ کا انتقال ہوگیا تو دشمنوں نے انھیں غالب سمجھ کر دفنا دیا، مگر غالب نے احتجاج کرنے کے بجائے ایک مصرعہ پڑھ کر بدخواہوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مرزا کی موت کے بعد غالب گئے دنوں کی یاد میں کھو گئے۔ مرزا نے بھی کیا کیا تماشے کیے تھے۔ بادشاہ وقت کے اتالیق ذوق پر ہی چوٹ کر بیٹھے اور لینے کے دینے پڑگئے، پھر کھڑے کھڑے صفائی بھی پیش کر ڈالی اور وطیفہ اور خطابات کے حق دار بھی ٹھہرائے گئے۔ بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا... وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔ اکثر بیٹھے بیٹھے مرزا کی حرکتوں پر مسکرا اٹھتے۔ کلکتہ کے ایک مشاعرے میں مرزا کے ایک مصرعے پر اعتراض کیا گیا تو بھڑک اٹھے تھے، بھلا قتیل کو کھتری بچہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ کوتوال اور حوالات والا قصہ یاد آیا تو مسکرا کر اپنا ہی شعر گنگنانے لگے۔ بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے... ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔ شاعری میں روپوشی کے زمانے میں غالب کے پاس مرزا کی یادوں، ان کی بذلہ سنجیوں اور برجستہ گوئیوں کے سوا دل بہلانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ مرزا کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ تھے لیکن غالب کا ایک ہی رنگ تھا اور وہ تھا شاعری۔ ایک ایسی شاعری جو مرزا کی شاعری سے مختلف تھی۔ اس روز غالب کو مرزا کی شاعری بری طرح یاد آ رہی تھی۔
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
.........
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
.........
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں
.........
غیر کے ساتھ مئے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں
مرزا کے اشعار پڑھتے وقت غالب کی آنکھوں میں نمی تھی کہ برسوں کا یارانہ چھوٹ گیا تھا مگر مسکرائے جا رہے تھے۔ پھر مرزا کے وہ خطوط بھی یاد آگئے جو انھوں نے مختلف لوگوں کو لکھے تھے۔ کیا کیا برمحل فقرے، کیسی کیسی بذلہ سنجی۔ اب غالب ایک نئی مشکل میں پڑ گئے اور سوچنے لگے کہ مزرا کے خطوط زندہ رہیں گے یا ان کی اپنی شاعری۔ رات کافی ہوچکی تھی۔ غالب نے دیوان بند کیا، وقت کے سرہانے رکھا اور جب صبح ان کی آنکھ کھلی تو یہ دیوان ان کے ہونہار شاگرد الطاف حسین حالی کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ پھر کیا تھا اسے ایسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ مرزا اور غالب کو لوگ ایک ہی سمجھنے لگے۔ تجسس نے عقل اور تشکیک نے تحقیق کے گھوڑے دوڑا دیے۔ جس کی جو جو سمجھ میں آیا سمجھتا رہا اور غالب مسکراتے رہے۔ وژیول آرٹ کا زمانہ آیا تو 1954 میں سہراب مودی نے غالب پر فلم بنا ڈالی۔ پاکستان میں بھی ایم ایم بندو نے ہمت کر ڈالی، جس میں نورجہاں کی آواز نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ گلزار اور کیفی اعظمی نے تو کمال ہی کر دکھایا اور سونے پر سہاگا جگجیت اور چترا کی آوازیں۔
خواجہ معین الدین تو غالب کو بندر روڈ تک کھینچ لائے۔ غالب یہ سب کھیل تماشے دیکھتے رہے کہ ایک دن عالم بالا میں آغا عیش تجمل کا طنز یاد کرتے ہوئے انور مقصود تک کو خط لکھ بیٹھے۔
'شبیر 'کسی سے کیوں پیچھے رہتا، لگ گیا چچا غالب کی کھوج میں ۔ ذرا بتائیں تو پاکستان میں کیا چل رہا ہے۔ چچا نے ایک نظر اوپر سے نیچے تک شبیر کو دیکھا اور مسکراتے ہوے بولے۔ میاں صاحبزادے کیا کرتے ہو۔ کیا پاکستان میں بولنے اور لکھنے کی آزادی مل گئی ہے۔ شبیر نے ایک لمحے کے لیے گردن جھکا لی اور چچا نے صرف ایک مصرعہ پڑھ کر اسے ٹرخا دیا۔ چچا کا جواب سن کر بیچارے نے اسی میں عافیت سمجھی کہ غالب کو ایک طرف رکھ کر ان کے پڑوسی مرزا اسد اﷲ خان بیگ کو ہی یاد رکھا جائے۔
یہ اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا کہ آج سے لگ بھگ ڈیڑھ سو برس پہلے پرانی دلی کے علاقے چاندنی چوک کے آس پاس کتنے لوگ پیدا اور کتنے موت کے منہ میں چلے گئے ہوں گے، لیکن عجیب بات ہے کہ ایک 73 سالہ آزاد منش اور کچھ لوگوں کی نظر میں بے راہ رو بزرگ کی موت کو نہیں بھلایا جاسکا۔ یہ بزرگ جو اپنے حلیے اور طرز بودو باش سے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگتے تھے، گلی قاسم جاں کے قریب بلی ماراں کی ایک حویلی میں رہتے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں نابغہ روزگار شاعر غالب کی بھی بود و باش تھی۔ یہ 73 سالہ بزرگ جو غالب ہی کے ہم نام تھے، اسد اﷲ خان بیگ کہلاتے تھے، باپ داد کا پیشہ سپہ گری تھا۔ عزت اثر و رسوخ اور مال و منال کی کمی نہیں تھی۔ آگرہ میں پیدا ہوئے، 5 برس کی عمر میں یتیم ہوگئے تو چچا نے بھتیجے کی بڑے ناز کے ساتھ پرورش کی، منہ سے نکلی ہر بات پوری کی گئی، سیر تماشوں سے لے کر مرغ اور کبوتر بازی تک کے تماشے دیکھنے کا موقع فراہم کیا گیا مگر جلد ہی چچا بھی رخصت ہوگئے اور پھر زمانے کے چلن کے مطابق اسد اﷲ بیگ خاں شاعری کا شغل کرنے لگے۔
بچپن نے جوانی کی دہلیز پر کچھ جلدی ہی دستک دے دی اور موصوف 13 برس کی عمر میں نواب الٰہی بخش کی 11 سالہ چہیتی بیٹی کی امان میں دے دیے گئے۔ اب انھوں نے اکبر آباد کی گلیاں چھوڑ کر دلی کا رخ کیا اور غالب کے پڑوس میں آباد ہوگئے۔ غالب اور بیگ میں جو قدر مشترک تھی وہ تھی شاعری۔ دونوں میں ایسی گاڑھی چھنی کہ ایک دوسرے کے بغیر نہ رہتے تھے، شام ہوئی اور اسد اﷲ پہنچ گئے غالب کی حویلی اور پھر تا دیر شعر و شاعری، شغل مینا جام، قمار بازی اور نہ جانے کیا کیا چلتا رہتا۔ اسد اﷲ بیگ کی بیوی پڑوس سے چلاتی رہتیں کہ مرزا صاحب اب بس بھی کیجیے۔ مگر مرزا صاحب مسکرا کر رہ جاتے اور اہلیہ تھوڑی دیر بڑبڑا کر خاموش ہو رہتیں۔ غالب یہ سب تماشے دیکھتے رہتے اور مرزا کو سمجھاتے کہ کیوں بیوی کو تنگ کرتے ہو۔ جواب ملتا کہ پیارے صاحب، وہ اس کی عادی ہیں، میں ان کی عادت تبدیل کرکے انھیں مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ مرزا اسد اﷲ خاں بیگ اور غالب ایک دوسرے سے اتنا گھل مل گئے تھے کہ اب ان کی نہ صرف شکلیں ملنے لگی تھیں بلکہ اب لوگوں کو بھی مغالطہ ہونے لگا تھا کہ غالب کون ہے اور مرزا اسد اﷲ خان بیگ کون۔
15 فروری 1869 کو ضعف اور صبر آزما بیماری کے بعد مرزا اسداﷲ بیگ کا انتقال ہوگیا تو دشمنوں نے انھیں غالب سمجھ کر دفنا دیا، مگر غالب نے احتجاج کرنے کے بجائے ایک مصرعہ پڑھ کر بدخواہوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مرزا کی موت کے بعد غالب گئے دنوں کی یاد میں کھو گئے۔ مرزا نے بھی کیا کیا تماشے کیے تھے۔ بادشاہ وقت کے اتالیق ذوق پر ہی چوٹ کر بیٹھے اور لینے کے دینے پڑگئے، پھر کھڑے کھڑے صفائی بھی پیش کر ڈالی اور وطیفہ اور خطابات کے حق دار بھی ٹھہرائے گئے۔ بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا... وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔ اکثر بیٹھے بیٹھے مرزا کی حرکتوں پر مسکرا اٹھتے۔ کلکتہ کے ایک مشاعرے میں مرزا کے ایک مصرعے پر اعتراض کیا گیا تو بھڑک اٹھے تھے، بھلا قتیل کو کھتری بچہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ کوتوال اور حوالات والا قصہ یاد آیا تو مسکرا کر اپنا ہی شعر گنگنانے لگے۔ بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے... ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔ شاعری میں روپوشی کے زمانے میں غالب کے پاس مرزا کی یادوں، ان کی بذلہ سنجیوں اور برجستہ گوئیوں کے سوا دل بہلانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ مرزا کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ تھے لیکن غالب کا ایک ہی رنگ تھا اور وہ تھا شاعری۔ ایک ایسی شاعری جو مرزا کی شاعری سے مختلف تھی۔ اس روز غالب کو مرزا کی شاعری بری طرح یاد آ رہی تھی۔
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
.........
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
.........
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں
.........
غیر کے ساتھ مئے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں
مرزا کے اشعار پڑھتے وقت غالب کی آنکھوں میں نمی تھی کہ برسوں کا یارانہ چھوٹ گیا تھا مگر مسکرائے جا رہے تھے۔ پھر مرزا کے وہ خطوط بھی یاد آگئے جو انھوں نے مختلف لوگوں کو لکھے تھے۔ کیا کیا برمحل فقرے، کیسی کیسی بذلہ سنجی۔ اب غالب ایک نئی مشکل میں پڑ گئے اور سوچنے لگے کہ مزرا کے خطوط زندہ رہیں گے یا ان کی اپنی شاعری۔ رات کافی ہوچکی تھی۔ غالب نے دیوان بند کیا، وقت کے سرہانے رکھا اور جب صبح ان کی آنکھ کھلی تو یہ دیوان ان کے ہونہار شاگرد الطاف حسین حالی کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ پھر کیا تھا اسے ایسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ مرزا اور غالب کو لوگ ایک ہی سمجھنے لگے۔ تجسس نے عقل اور تشکیک نے تحقیق کے گھوڑے دوڑا دیے۔ جس کی جو جو سمجھ میں آیا سمجھتا رہا اور غالب مسکراتے رہے۔ وژیول آرٹ کا زمانہ آیا تو 1954 میں سہراب مودی نے غالب پر فلم بنا ڈالی۔ پاکستان میں بھی ایم ایم بندو نے ہمت کر ڈالی، جس میں نورجہاں کی آواز نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ گلزار اور کیفی اعظمی نے تو کمال ہی کر دکھایا اور سونے پر سہاگا جگجیت اور چترا کی آوازیں۔
خواجہ معین الدین تو غالب کو بندر روڈ تک کھینچ لائے۔ غالب یہ سب کھیل تماشے دیکھتے رہے کہ ایک دن عالم بالا میں آغا عیش تجمل کا طنز یاد کرتے ہوئے انور مقصود تک کو خط لکھ بیٹھے۔
'شبیر 'کسی سے کیوں پیچھے رہتا، لگ گیا چچا غالب کی کھوج میں ۔ ذرا بتائیں تو پاکستان میں کیا چل رہا ہے۔ چچا نے ایک نظر اوپر سے نیچے تک شبیر کو دیکھا اور مسکراتے ہوے بولے۔ میاں صاحبزادے کیا کرتے ہو۔ کیا پاکستان میں بولنے اور لکھنے کی آزادی مل گئی ہے۔ شبیر نے ایک لمحے کے لیے گردن جھکا لی اور چچا نے صرف ایک مصرعہ پڑھ کر اسے ٹرخا دیا۔ چچا کا جواب سن کر بیچارے نے اسی میں عافیت سمجھی کہ غالب کو ایک طرف رکھ کر ان کے پڑوسی مرزا اسد اﷲ خان بیگ کو ہی یاد رکھا جائے۔