بجلی کے نرخوں میں اضافہ
بجلی کی پیداوار کا ایک اور سستا ذریعہ کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار ہے۔۔۔
ایک خبر کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ای سی سی نے نیپرا کو بجلی کے نرخ مقرر کرنے کا اختیار دیدیا ہے ۔ جنوری میں ہی بجلی کے نرخوں میں ایک روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت لائن لاسز کو کم سے کم کرکے اپنے نقصان کو گھٹا سکتی ہے۔ لیکن اس طرف توجہ دینے کے بجائے سارا زور اس بات پر صرف کردیا جاتا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا جائے۔
یہ بات درست ہے کہ تیل پر مبنی بجلی کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان جوکہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، پاکستان کو ملنے والے دریاؤں پر بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ڈیمز تعمیر کیے چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اول پاکستان کو زرعی مقاصد کے لیے ملنے والا پانی بھی کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کے بعد میں ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ بجلی کی پیداوار بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب کی وادی میں بھی کئی ڈیمز کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس سے بھارت میں سستی بجلی وافر مقدار میں پیدا کی جائے گی جب کہ پاکستان نے 1974 میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سستی بجلی کے لیے ڈیمز کی تعمیر کا سلسلہ ترک کردیا۔
بعد میں 1994 میں مغربی طاقتوں کے مشورے سے بجلی کے انتہائی مہنگے منصوبے شروع کیے جس میں پہلے تیل استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں کچھ پیداواری یونٹوں کو گیس میں تبدیل کیا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود مجموعی طور پر بجلی کی پیداواری لاگت پھر بھی زیادہ رہی۔ دنیا بھر میں سستا ترین بجلی کا اہم ترین ذریعہ پن بجلی کا حصول ہے۔ پاکستان کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ پانی سے بجلی کی پیداوار ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ سے زائد حاصل کی جاسکتی ہے لیکن کل 6500 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ جو کل پیداوار کا 33 فیصد ہے، باقی 67 فیصد بجلی انتہائی مہنگے ذرایع سے حاصل کی جا رہی ہے۔
بجلی کی پیداوار کا ایک اور سستا ذریعہ کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار ہے۔ دنیا بھر میں اس ذریعے سے بجلی 41 فیصد پیدا کی جاتی ہے۔ جب کہ پاکستان نے اس سستے ذریعے سے اب تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ امریکا پاکستان کو کوئلے کے ذرایع سے فائدہ اٹھانے کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔ جب کہ خود امریکا میں کوئلے کے ذریعے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا کوئلے کے ذریعے اپنی بجلی کی پیداوار کا 43 فیصد حاصل کرتا ہے جب کہ پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے سبب فضائی آلودگی پیدا ہوگی۔ حالانکہ موجودہ دور میں ایسی ٹیکنالوجیز آگئی ہیں جن کی وجہ سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے لیے تھرکول پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا ہے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے جامشورو پاور پلانٹ کو 90 کروڑ ڈالر کی فراہمی کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے جس سے 600 یونٹ کے 2 پیداواری یونٹ قائم کیے جائیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک توانائی منصوبوں کے لیے 3 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔
اس منصوبے کی تکمیل سے 50 کروڑ ڈالر سالانہ تیل کی بچت ہوگی۔ جب کہ اس منصوبے میں درآمدی کوئلہ اور تھر کا کوئلہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ حکومت کو اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 3 ارب ڈالر کی فراہمی کا رخ پن بجلی کے منصوبوں کی طرف موڑا جائے۔ ماضی میں کئی ڈیمز کی تعمیر اسی لیے شروع نہ ہوسکی کہ مطلوبہ فنڈز کے لیے قرض فراہم کرنے والے ادارے اس بات پر رضامند نہیں تھے کہ طویل المیعاد منصوبے شروع کیے جائیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اب بتایا جا رہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین کے حصول کا عمل جاری ہے حالانکہ اس سے قبل اس ڈیم کے بارے میں یہی بتایا جاتا تھا کہ فزیبلٹی رپورٹ تیار ہو چکی ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔ اتنے عرصے سے یہ منصوبہ زیر غور تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے زمین کے حصول کا عمل اب شروع کیا گیا ہے۔ اس طرح کے تاخیری حربوں سے جہاں طویل المیعاد منصوبے مزید طوالت اختیار کر جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی ان منصوبوں کی تعمیری لاگت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تیل اور گیس کے علاوہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے زیادہ اہمیت پن بجلی کو دی جائے کیونکہ یہی سب سے سستا ترین ذریعہ ہے۔ ایسے منصوبے طویل المیعاد ہوتے ہیں لیکن جہاں فوری پیداوار کے لیے دیگر مہنگے ذرایع اختیار کیے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی پن بجلی کے منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جائے، پن بجلی کے بڑے اور طویل المعیاد منصوبوں کے علاوہ کم سرمایہ سے تیار ہونے والے اور کم مدت میں تیار ہونے والے پن بجلی گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ جولائی 2013 میں پاکستان کے پہلے پن بجلی گھر کا افتتاح کیا گیا تھا۔ دریائے جہلم پر نجی شعبے کی طرف سے یہ پہلا منصوبہ لگایا گیا تھا۔
اس قسم کے منصوبے نیشنل گرڈ اسٹیشن کے قریب لگائے جائیں چونکہ بجلی کی پیداوار کے بعد گرڈ اسٹیشن تک پہنچانے میں کافی سرمایہ لگ جاتا ہے اس لیے بعض سرمایہ کار رقوم لگانے سے احتراز کرتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی نہروں پر ٹربائن لگا کر بھی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک سردست سندھ اور پنجاب کی نہروں میں ٹربائن لگا کر ایک ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ادھر صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بھی پن بجلی کے کئی منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے۔ کچھ منصوبوں کا افتتاح بھی کردیا ہے۔ اس کے علاوہ آیندہ مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق آیندہ چند سال میں ان منصوبوں کی تکمیل سے 3200 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ حکومت پنجاب نے بھی پن بجلی کے کئی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں۔ تونسہ پن بجلی منصوبے کے بارے میں ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے ایک سو بیس میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ پاکستانی عوام اور صنعتیں مہنگی بجلی کے متحمل نہیں ہوسکتے اور حکومت کی معاشی اور مالیاتی کمزوری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جلد از جلد مہنگی بجلی کی پیداوار سے ہٹ کر سستی بجلی پیدا کی جائے اور ایسے ہی منصوبے چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر بجلی پیدا کریں یا بڑے پیمانے پر بجلی حاصل ہوسکتی ہو اس پر بھرپور توجہ دی جائے اور ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ اور دیگر تیکنیکی سہولیات کے حصول کو اولین اہمیت دی جائے، ان منصوبوں کو شروع کرنے کے بعد ان کی تکمیل کی طرف بھرپور توجہ دی جائے۔ آئی ایم ایف کا یہ کہنا درست ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں یا پھر بجلی کی پیداواری لاگت کو گھٹایا جائے۔
گزشتہ سال جولائی میں حکومت نے 502 ارب کے گردشی قرضے اتارے ہیں جن میں پھر دوبارہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اب تک پھر گردشی قرضے 190 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ حال ہی میں ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے، جس سے امید کی جاتی ہے کہ نجی شراکت داروں کو پن بجلی کے منصوبوں کی طرف راغب کیا جا سکے گا۔ بجلی کے نرخ بڑھا دینا دراصل صارفین کے ساتھ ظلم کے علاوہ صنعتوں کے دروازے بند کردینے کے مترادف ہے۔ نیز ملکی سرمایہ کاری میں بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ چین اور دیگر ممالک نے سب سے پہلے سستی بجلی کی فراہمی کا بندوبست کیا۔ جس سے ان ملکوں کی پیداوار عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت پیدا ہوئی۔ پاکستانی صنعتکاروں کا المیہ یہ ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کے باعث پیداواری لاگت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت نہیں رہتی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملکی ترقی برآمدات میں اضافے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے بجائے سستی بجلی پیدا کی جائے اور ارزاں نرخوں پر عوام اور صنعت کو بجلی فراہم کی جائے۔
یہ بات درست ہے کہ تیل پر مبنی بجلی کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان جوکہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، پاکستان کو ملنے والے دریاؤں پر بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ڈیمز تعمیر کیے چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اول پاکستان کو زرعی مقاصد کے لیے ملنے والا پانی بھی کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کے بعد میں ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ بجلی کی پیداوار بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب کی وادی میں بھی کئی ڈیمز کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس سے بھارت میں سستی بجلی وافر مقدار میں پیدا کی جائے گی جب کہ پاکستان نے 1974 میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سستی بجلی کے لیے ڈیمز کی تعمیر کا سلسلہ ترک کردیا۔
بعد میں 1994 میں مغربی طاقتوں کے مشورے سے بجلی کے انتہائی مہنگے منصوبے شروع کیے جس میں پہلے تیل استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں کچھ پیداواری یونٹوں کو گیس میں تبدیل کیا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود مجموعی طور پر بجلی کی پیداواری لاگت پھر بھی زیادہ رہی۔ دنیا بھر میں سستا ترین بجلی کا اہم ترین ذریعہ پن بجلی کا حصول ہے۔ پاکستان کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ پانی سے بجلی کی پیداوار ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ سے زائد حاصل کی جاسکتی ہے لیکن کل 6500 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ جو کل پیداوار کا 33 فیصد ہے، باقی 67 فیصد بجلی انتہائی مہنگے ذرایع سے حاصل کی جا رہی ہے۔
بجلی کی پیداوار کا ایک اور سستا ذریعہ کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار ہے۔ دنیا بھر میں اس ذریعے سے بجلی 41 فیصد پیدا کی جاتی ہے۔ جب کہ پاکستان نے اس سستے ذریعے سے اب تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ امریکا پاکستان کو کوئلے کے ذرایع سے فائدہ اٹھانے کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔ جب کہ خود امریکا میں کوئلے کے ذریعے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا کوئلے کے ذریعے اپنی بجلی کی پیداوار کا 43 فیصد حاصل کرتا ہے جب کہ پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے سبب فضائی آلودگی پیدا ہوگی۔ حالانکہ موجودہ دور میں ایسی ٹیکنالوجیز آگئی ہیں جن کی وجہ سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے لیے تھرکول پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا ہے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے جامشورو پاور پلانٹ کو 90 کروڑ ڈالر کی فراہمی کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے جس سے 600 یونٹ کے 2 پیداواری یونٹ قائم کیے جائیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک توانائی منصوبوں کے لیے 3 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔
اس منصوبے کی تکمیل سے 50 کروڑ ڈالر سالانہ تیل کی بچت ہوگی۔ جب کہ اس منصوبے میں درآمدی کوئلہ اور تھر کا کوئلہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ حکومت کو اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 3 ارب ڈالر کی فراہمی کا رخ پن بجلی کے منصوبوں کی طرف موڑا جائے۔ ماضی میں کئی ڈیمز کی تعمیر اسی لیے شروع نہ ہوسکی کہ مطلوبہ فنڈز کے لیے قرض فراہم کرنے والے ادارے اس بات پر رضامند نہیں تھے کہ طویل المیعاد منصوبے شروع کیے جائیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اب بتایا جا رہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین کے حصول کا عمل جاری ہے حالانکہ اس سے قبل اس ڈیم کے بارے میں یہی بتایا جاتا تھا کہ فزیبلٹی رپورٹ تیار ہو چکی ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔ اتنے عرصے سے یہ منصوبہ زیر غور تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے زمین کے حصول کا عمل اب شروع کیا گیا ہے۔ اس طرح کے تاخیری حربوں سے جہاں طویل المیعاد منصوبے مزید طوالت اختیار کر جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی ان منصوبوں کی تعمیری لاگت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تیل اور گیس کے علاوہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے زیادہ اہمیت پن بجلی کو دی جائے کیونکہ یہی سب سے سستا ترین ذریعہ ہے۔ ایسے منصوبے طویل المیعاد ہوتے ہیں لیکن جہاں فوری پیداوار کے لیے دیگر مہنگے ذرایع اختیار کیے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی پن بجلی کے منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جائے، پن بجلی کے بڑے اور طویل المعیاد منصوبوں کے علاوہ کم سرمایہ سے تیار ہونے والے اور کم مدت میں تیار ہونے والے پن بجلی گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ جولائی 2013 میں پاکستان کے پہلے پن بجلی گھر کا افتتاح کیا گیا تھا۔ دریائے جہلم پر نجی شعبے کی طرف سے یہ پہلا منصوبہ لگایا گیا تھا۔
اس قسم کے منصوبے نیشنل گرڈ اسٹیشن کے قریب لگائے جائیں چونکہ بجلی کی پیداوار کے بعد گرڈ اسٹیشن تک پہنچانے میں کافی سرمایہ لگ جاتا ہے اس لیے بعض سرمایہ کار رقوم لگانے سے احتراز کرتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی نہروں پر ٹربائن لگا کر بھی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک سردست سندھ اور پنجاب کی نہروں میں ٹربائن لگا کر ایک ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ادھر صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بھی پن بجلی کے کئی منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے۔ کچھ منصوبوں کا افتتاح بھی کردیا ہے۔ اس کے علاوہ آیندہ مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق آیندہ چند سال میں ان منصوبوں کی تکمیل سے 3200 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ حکومت پنجاب نے بھی پن بجلی کے کئی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں۔ تونسہ پن بجلی منصوبے کے بارے میں ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے ایک سو بیس میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ پاکستانی عوام اور صنعتیں مہنگی بجلی کے متحمل نہیں ہوسکتے اور حکومت کی معاشی اور مالیاتی کمزوری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جلد از جلد مہنگی بجلی کی پیداوار سے ہٹ کر سستی بجلی پیدا کی جائے اور ایسے ہی منصوبے چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر بجلی پیدا کریں یا بڑے پیمانے پر بجلی حاصل ہوسکتی ہو اس پر بھرپور توجہ دی جائے اور ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ اور دیگر تیکنیکی سہولیات کے حصول کو اولین اہمیت دی جائے، ان منصوبوں کو شروع کرنے کے بعد ان کی تکمیل کی طرف بھرپور توجہ دی جائے۔ آئی ایم ایف کا یہ کہنا درست ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں یا پھر بجلی کی پیداواری لاگت کو گھٹایا جائے۔
گزشتہ سال جولائی میں حکومت نے 502 ارب کے گردشی قرضے اتارے ہیں جن میں پھر دوبارہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اب تک پھر گردشی قرضے 190 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ حال ہی میں ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے، جس سے امید کی جاتی ہے کہ نجی شراکت داروں کو پن بجلی کے منصوبوں کی طرف راغب کیا جا سکے گا۔ بجلی کے نرخ بڑھا دینا دراصل صارفین کے ساتھ ظلم کے علاوہ صنعتوں کے دروازے بند کردینے کے مترادف ہے۔ نیز ملکی سرمایہ کاری میں بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ چین اور دیگر ممالک نے سب سے پہلے سستی بجلی کی فراہمی کا بندوبست کیا۔ جس سے ان ملکوں کی پیداوار عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت پیدا ہوئی۔ پاکستانی صنعتکاروں کا المیہ یہ ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کے باعث پیداواری لاگت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت نہیں رہتی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملکی ترقی برآمدات میں اضافے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے بجائے سستی بجلی پیدا کی جائے اور ارزاں نرخوں پر عوام اور صنعت کو بجلی فراہم کی جائے۔