پی ٹی آئی میں تنظیمی تبدیلیاں
عمران خان کے تقریباً تمام وزرا حقائق مسخ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں
وزیر اعظم عمران خان نے کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن میں شکست کے بعد پی ٹی آئی کی چاروں صوبوں کی قیادت تبدیل کی اور چار وفاقی وزیروں کو نیا صوبائی صدر بنا دیا اور بیس رکنی سینٹرل ایڈوائزری کمیٹی اور پنجاب میں بھی 17 رکنی ایڈوائزری کمیٹی قائم کردی۔
سینٹرل کمیٹی میں صرف پارٹی کی سیاست کرنے والے سیاسی لوگوں کے بجائے تقریباً تمام وفاقی وزرا کو شامل کیا ہے۔ شاہ محمود بدستور وائس چیئرمین ہیں اور وزیر مملکت فرخ حبیب کو مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کی تنظیم پر توجہ ہی نہیں دی تھی۔ کے پی کے کی شکست نے انھیں اہم فیصلے کرنے پر مجبور کردیا۔
کے پی کے کا صوبائی صدر بنائے جانے کے بعد ایبٹ آباد میں پارٹی ورکرز کنونشن میں پرویز خٹک کے خلاف نعرے لگائے گئے اور ورکرز کنونشن ہلڑ کی نذر ہو گیا۔ نئے نامزد صدر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی نعرہ بازی برداشت کرنے کے بجائے خود بھی مشتعل ہوگئے اورکہا کہ پارٹی میں نفاق پیدا کرنے والوں کو نکال دیا جائے گا۔
انھوں نے کارکنوں کو ڈانٹنے کے علاوہ عوام کو بدتمیز کہا اور صحافیوں سے بھی الجھ پڑے۔ ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ کے پی کے ودیگر رہنما تقریر کیے بغیر لوٹ گئے۔ پرویز خٹک کنونشن میں مہنگائی کے نعروں پر مشتعل ہوئے اور کہا کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہوئی ہے جس پر عمران خان بھی تکلیف میں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کے پی بلدیاتی شکست کی وجہ مہنگائی کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا مگر کارکنوں نے کنونشن میں مہنگائی کے خلاف نعرے لگا کر حقیقت کا اظہار کیا کہ شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور پارٹی کے باہمی اختلافات نہیں بلکہ مہنگائی ہے۔ وزیر اعظم اور پرویز خٹک بھی اصل حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کر رہے اور حقیقت ماننے کو اب بھی تیار نہیں۔
عمران خان نے انتخابی شکست کے بعد مہنگائی کم کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مزید بڑھوا دیا۔ وفاقی وزیر بھی اپنے وزیر اعظم سے ہی متفق ہیں اور مہنگائی کو عوام کا سب سے اہم مسئلہ تسلیم نہیں کر رہے اور موسمی سبزیوں کی قیمتوں میں روایتی کمی کو مہنگائی میں واضح کمی قرار دے رہے ہیں جو غیر حقیقی منطق ہے حالانکہ ملک میں سبزیاں اور پھل پیداوار بڑھنے پر نرخ ویسے ہی کم ہو جاتے ہیں مگر حکومت یہ حقیقت تسلیم نہیں کر رہی۔
عمران خان کے تقریباً تمام وزرا حقائق مسخ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور وہ حکومتی فرض بے سروپا ، گمراہ کن بیانات دینے کو سمجھ رہے ہیں اور حقائق کے بالکل برعکس ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے عوام کو گمراہ کیا جاسکے۔ وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ عوام ان کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں اور وزیر اعظم خوش ہو جاتے ہیں مگر اب وہ عوام نہیں ہیں جو حقائق اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے حکومتی بیانات پر یقین کر لیں۔
سوشل میڈیا اب مین اسٹریم میڈیا کے مقابلے میں زیادہ دیکھا اور سنا جاتا ہے جو عوام کو حکومت کی اندرونی باتیں اور چھپائے گئے حکومتی حقائق اور وزیروں کی ناقص کارکردگی اور آمرانہ رویوں سے آگاہ کر رہا ہے اور عوام جھوٹ اور سچ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور فیصلہ کرکے اب حکومتی امیدواروں کو مسترد کر رہے ہیں جس کا واضح ثبوت کے پی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات اور پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں جہاں وفاق سمیت پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں ہیں اور حکومتی امیدوار مسلس شکست کھا رہے ہیں۔
حکومت نے میڈیا پر ٹاک شوز میں اپنے زبان دراز رہنماؤں کو مقرر کر رکھا ہے جن کا کام اپوزیشن رہنماؤں کو بولنے نہ دینا اور عوام کو گمراہ کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ان کے جھوٹ چھپائے نہیں چھپتے مگر وہ حقائق کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
پی ٹی آئی نے اپنے جن وزیروں کو صوبائی قیادت دی ہے یا عہدوں پر برقرار رکھا ہے اور مرکزی و صوبائی ایڈوائزری کمیٹیوں میں شامل کیا ہے ،وہ حکومتی عہدوں پر رعونت اور سرکاری پروٹوکول کی وجہ سے عوام سے کیا اپنے پارٹی ورکروں اور چھوٹے عہدیداروں سے بھی دور رہتے آئے ہیں تو وہ اپنی پارٹی کے لیے کیسے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں جن کا کام جھوٹ بولنا حقائق کے برعکس بولنا ہی رہ گیا ہو۔ ایسے نئے ذمے دار برسر اقتدار اپنی پارٹی کو کیسے منظم کریں گے، یہ وزیر اعظم کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
سینٹرل کمیٹی میں صرف پارٹی کی سیاست کرنے والے سیاسی لوگوں کے بجائے تقریباً تمام وفاقی وزرا کو شامل کیا ہے۔ شاہ محمود بدستور وائس چیئرمین ہیں اور وزیر مملکت فرخ حبیب کو مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کی تنظیم پر توجہ ہی نہیں دی تھی۔ کے پی کے کی شکست نے انھیں اہم فیصلے کرنے پر مجبور کردیا۔
کے پی کے کا صوبائی صدر بنائے جانے کے بعد ایبٹ آباد میں پارٹی ورکرز کنونشن میں پرویز خٹک کے خلاف نعرے لگائے گئے اور ورکرز کنونشن ہلڑ کی نذر ہو گیا۔ نئے نامزد صدر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی نعرہ بازی برداشت کرنے کے بجائے خود بھی مشتعل ہوگئے اورکہا کہ پارٹی میں نفاق پیدا کرنے والوں کو نکال دیا جائے گا۔
انھوں نے کارکنوں کو ڈانٹنے کے علاوہ عوام کو بدتمیز کہا اور صحافیوں سے بھی الجھ پڑے۔ ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ کے پی کے ودیگر رہنما تقریر کیے بغیر لوٹ گئے۔ پرویز خٹک کنونشن میں مہنگائی کے نعروں پر مشتعل ہوئے اور کہا کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہوئی ہے جس پر عمران خان بھی تکلیف میں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کے پی بلدیاتی شکست کی وجہ مہنگائی کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا مگر کارکنوں نے کنونشن میں مہنگائی کے خلاف نعرے لگا کر حقیقت کا اظہار کیا کہ شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور پارٹی کے باہمی اختلافات نہیں بلکہ مہنگائی ہے۔ وزیر اعظم اور پرویز خٹک بھی اصل حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کر رہے اور حقیقت ماننے کو اب بھی تیار نہیں۔
عمران خان نے انتخابی شکست کے بعد مہنگائی کم کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مزید بڑھوا دیا۔ وفاقی وزیر بھی اپنے وزیر اعظم سے ہی متفق ہیں اور مہنگائی کو عوام کا سب سے اہم مسئلہ تسلیم نہیں کر رہے اور موسمی سبزیوں کی قیمتوں میں روایتی کمی کو مہنگائی میں واضح کمی قرار دے رہے ہیں جو غیر حقیقی منطق ہے حالانکہ ملک میں سبزیاں اور پھل پیداوار بڑھنے پر نرخ ویسے ہی کم ہو جاتے ہیں مگر حکومت یہ حقیقت تسلیم نہیں کر رہی۔
عمران خان کے تقریباً تمام وزرا حقائق مسخ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور وہ حکومتی فرض بے سروپا ، گمراہ کن بیانات دینے کو سمجھ رہے ہیں اور حقائق کے بالکل برعکس ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے عوام کو گمراہ کیا جاسکے۔ وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ عوام ان کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں اور وزیر اعظم خوش ہو جاتے ہیں مگر اب وہ عوام نہیں ہیں جو حقائق اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے حکومتی بیانات پر یقین کر لیں۔
سوشل میڈیا اب مین اسٹریم میڈیا کے مقابلے میں زیادہ دیکھا اور سنا جاتا ہے جو عوام کو حکومت کی اندرونی باتیں اور چھپائے گئے حکومتی حقائق اور وزیروں کی ناقص کارکردگی اور آمرانہ رویوں سے آگاہ کر رہا ہے اور عوام جھوٹ اور سچ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور فیصلہ کرکے اب حکومتی امیدواروں کو مسترد کر رہے ہیں جس کا واضح ثبوت کے پی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات اور پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں جہاں وفاق سمیت پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں ہیں اور حکومتی امیدوار مسلس شکست کھا رہے ہیں۔
حکومت نے میڈیا پر ٹاک شوز میں اپنے زبان دراز رہنماؤں کو مقرر کر رکھا ہے جن کا کام اپوزیشن رہنماؤں کو بولنے نہ دینا اور عوام کو گمراہ کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ان کے جھوٹ چھپائے نہیں چھپتے مگر وہ حقائق کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
پی ٹی آئی نے اپنے جن وزیروں کو صوبائی قیادت دی ہے یا عہدوں پر برقرار رکھا ہے اور مرکزی و صوبائی ایڈوائزری کمیٹیوں میں شامل کیا ہے ،وہ حکومتی عہدوں پر رعونت اور سرکاری پروٹوکول کی وجہ سے عوام سے کیا اپنے پارٹی ورکروں اور چھوٹے عہدیداروں سے بھی دور رہتے آئے ہیں تو وہ اپنی پارٹی کے لیے کیسے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں جن کا کام جھوٹ بولنا حقائق کے برعکس بولنا ہی رہ گیا ہو۔ ایسے نئے ذمے دار برسر اقتدار اپنی پارٹی کو کیسے منظم کریں گے، یہ وزیر اعظم کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔