مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال

یو اے ای میں ڈرون حملے میں ایک پاکستانی سمیت 3 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہوئے ہیں

یو اے ای میں ڈرون حملے میں ایک پاکستانی سمیت 3 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہوئے ہیں۔ فوٹو: فائل

یو اے ای میں ڈرون حملے میں ایک پاکستانی سمیت 3 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہوئے ہیں، دوسری جانب یمن کے حوثی باغیوں نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے ، جب کہ جوابی کارروائی میں صنعا کے شمالی علاقے میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر عرب اتحاد کے طیاروں کی بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

عرب اتحاد کے ترجمان کے مطابق یمن حوثی باغیوں نے 8 ڈرونز کے ذریعے سعودی عرب کے مختلف علاقوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش جنھیں ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا۔

متحدہ عرب امارات انتہائی پرامن اور خوشحال ملک ہے،اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا کا ایک اہم کاروباری اور سیاحتی ملک ہے۔ یہاں اس قسم کا حملہ پہلی بار سننے میں آیا ہے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ایک اہم ترین واقعہ اور خبر ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جو مشرق وسطیٰ اور اس کے گرد و نواح کے حالات سے جڑی ہے۔

ایک طویل عرصے سے عراق، شام، لبنان اور یمن میں خانہ جنگی جاری ہے، مسلکی بنیادوں پر تقسیم مختلف مسلح گروہ آپس میں برسرپیکار ہیں اور یہاں کی حکومتیں بھی اپنا اقتدار اعلیٰ تقریباً کھو چکی ہیں۔مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ پراکسی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے، یہاں امریکا، روس، یورپ، یورپی یونین، ترکی ، خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک اپنی اپنی بالادستی کے لیے جنگجو دھڑوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔

عرب اور عجم کی تفریق بھی گہری ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں متحدہ عرب امارات پر ڈرون حملہ عرب اور عجم کے مابین موجود کشیدگی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جاسکتی ہے، جو کسی بہت بڑے سانحہ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اسلامی عسکری اتحاد میں 2015 میں شمولیت حاصل کی تھی ، تاہم 2019 میں اپنی سرگرمیاں کم کردی تھیں۔ یمن کی حالیہ خانہ جنگی ستمبر 2014 میں شروع ہوئی، یہ تنازعہ 2015 میں اس وقت بڑھ گیا جب یمن کے معزول صدر ہادی کو اقتدار میں واپس لانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اس مسئلے پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات جو پہلے ہی ناخوشگوار تھے، مزید تنازعات کا شکار ہوگئے بلکہ کشیدگی کا شکار ہوگئے۔ متحدہ عرب امارات پر یمنی حوثیوں کا ڈرون حملہ جلتی پر تیل کا کام کرسکتا ہے۔

بعض ماہرین اسے ''مشرق وسطیٰ کی سرد جنگ'' سے تشبیہ دیتے ہیں۔ عراق، یمن ، لبنان اور شام میں ایران کا اثر ونفوذ بڑھنے سے مشرق وسطی کے عرب ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ اگرچہ یمن 1990کی دہائی سے داخلی خلفشار کا شکار چلا آرہا ہے لیکن حالیہ صورت حال یمن کے دارالحکومت صنعاء پر حوثی جنگجوؤں کے قبضے کے بعد پیدا ہوئی۔

یمن کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ سوویت یونین کے دور میں یہ دو حصوں میں تقسیم ہوا، جسے شمالی اور جنوبی یمن کہا جاتا تھا۔سوویت یونین کے زوال کے بعد یہاں بھی تبدیلی آیا اور یمن کو متحد کیا گیا لیکن یمنی قبائل کی باہمی عصبیت اور مسلکی اختلاف ابھر کر سامنے آگئے ۔

جب تیونس جنم لینے والی عرب بہار کی تحریک یمن پہنچی تو یہاں بھی شدید ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا شکار تھا، اس پر عرب بہار نے صدر عبد اللہ صالح کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔


اس کے بعد عبدالرب منصور ہادی نے اقتدار سنبھالا لیکن یمن کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے اور بلآخر ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا، نسلی اور مسلکی بنیادوں پر قائم مسلح گروپ آپس میں جنگ کرنے لگے۔

اسی دوران حوثیوں نے طاقت پکڑی جس کی وجہ سے ایران فیکٹر یمن میں داخل ہوا جب کہ دوسری جانب سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ یمن میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مسلح گروہوں کے زیر قبضہ علاقے بازیاب کرائے جائیں اور مسلح گروہوں سے ہتھیار ڈلوائے جائیں اور منصور ہادی کی حکومت کی رٹ بحال کرائی جائے تا کہ یمن میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔لیکن حوثی اور ایران اس پر راضی نہیں ہیں۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اب صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ 2015کے بعد سے سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی اور یمن کے حوثی حالت جنگ میں ہیں ۔اب متحدہ عرب امارات میں حملے کے بعد اس لڑائی کا پھیلاؤ مزید بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ادھر ستم ظریفی یہ کہ شمالی افریقہ سے لے کر مشرقی وسطی تک اور ایرسان سے لے کر افغانستان تک لگ بھگ تمام مسلم ممالک نسلی، مذہبی، قبائلی اور سیاسی تنازعات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔سارا خطہ خانہ جنگی اور بدحالی کا شکار ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن مشرق وسطیٰ میں جنگ نہیں چاہتے ہیں، ان کی فوری ترجیحات میں دوسرے خطے فی الحال اہم ہیں مگر مشرق وسطیٰ کے حالات مزید بگڑ ے تو امریکا اور اس کے اتحادی مغربی یورپ کے ممالک اور نیٹو مداخلت کر سکتے ہیں۔مسلم ممالک کی قیادت کو یہ پہلو ضرور زیر غور لانا چاہیے۔یمن کے متحارب دھڑوں کی قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے ، انھیں سوچنا چاہیے کہ یمن کے عوام ناقابل بیان مصائب کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آیندہ کئی نسلوں پر مرتب ہوں گے۔

حالیہ لڑائی میں مرنے والوں کی اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکار ہے اور انھیں مدد کی ضرورت ہے۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنھیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت یمن میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انھوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انھیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔

المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی تک اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اس خطے کے انسانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ عالمی طاقتوں کی سجائی ہوئی بساط ہے یا ان کے اپنے تعصبات اور مفادات کی۔ خطے کے عوام اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اور ان فیکٹریوں کے مالکان کی عیاشیوں کی قیمت اپنے لہو سے ادا کررہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اپنے دورہ سعودی عرب کے بعد اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اگر چاہے تو پاکستان یمن کے تنازعے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

ہرچند کہ مسلم ممالک میں ایمانی قوت بہت زیادہ ہے۔ اگر مسلم اُمہ مسلک، رنگ، نسل ، زبان اور گروہی مفادات پر لچکدار رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے معاملات کو طے کر سکے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ عرب اور عجم کے قدامت پسند مفروضات اور نظریات پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یوں بھی رنگ، نسل، زبان کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی واضح ہدایات موجود ہیں۔

اس تمام تناظر میں اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عراق، شام اور یمن میں پراکسی وار کی وجہ سے تمام مسلم ممالک پریشان ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا بڑا حصہ انارکی، خانہ جنگی اور مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جھلس رہا ہے جب کہ علاقہ مسلمانوں کا، جنگ بھی مسلمانوں کے درمیان، ہلاکتیں اور تباہی بھی مسلمانوں کی مگر مسلم قیادت فکر سے آزاد ہے۔

مسلم دُنیا جو پہلے ہی بڑے عصری مسائل، علاقائی معاملات اور سیاسی عدم استحکام سے نبرد آزما ہے وہاں فقہی اور مسلکی اختلاف کو بڑھاوا دے کر مفادات کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ یہاں یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ پچاس سے زائد ممالک کی اسلامی تنظیم ان حساس معاملات میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ادھر پوری اسلامی دُنیا میں کوئی ایسا قد آور رہنما نظر نہیں آتا جو مسلم دُنیا کے مسائل پر دو ٹوک رائے دے سکے اور تنازعات کو حل کرا سکے۔
Load Next Story