تشدد کے عمل کا تاریخی تناظر پہلا حصہ

سر کے گرد فولادی پٹیاں لپیٹی جاتیں پھر انھیں آہستہ آہستہ اتنا کسا جاتا کہ کھوپڑی چٹخ جاتی

zahedahina@gmail.com

تشدد کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ماضی میں بہت دور جانے کے بجائے ہم صرف ڈیڑھ ہزار سال کی انسانی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں تو ہمیں وہ فاتح حکمران نظر آتے ہیں جو مفتوح شہروں کو آگ لگاتے، ان شہروں کے باشندوں کو اس آگ میں زندہ جلنے پر مجبور کرتے، مخالفوں اور غداروں کو گھوڑے کی دم سے باندھ کر پہاڑی علاقوں میں میلوں تک گھسیٹتے اور بے گناہ شہریوں کو قتل کرکے ان کے سروں کے مینار تعمیر کراتے تاکہ مخالفوں، دشمنوں اور منحرفوں پر ان کی ریاست ان کی طاقت کی دھاک بیٹھی رہے اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرات نہ کرے۔

ایذا دہی اور عقوبت ہمیں اموی، عباسی اور سلجوقی دور حکومت میں ہر سطح پر کار فرما نظر آتی ہے۔ سیاسی یا مذہبی مخالفین کو دیوار میں زندہ چنوا دینا۔ گدھے کی کھال میں زندہ انسان کو سی کر چونے میں ڈبونا ، سنگسار کرنا ، سو، دو سو یا تین سو کی تعداد میں درے مارنا ، مسلا کرنا یعنی پہلے پیروں اور ہاتھوں کی انگلیوں کو کاٹنا، اس کے بعد بازو اور ٹانگیں الگ کرنا ، گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندنا ، تنور میں زندہ جلانا، بدن کے مختلف حصوں کو دہکتی سلاخوں سے داغنا ، زندہ انسان کی کھال کھنچوا لینا ، یہ تھیں وہ سزائیں اور اذیتیں جو کسی بھی منحرف یا کسی بھی سیاسی مخالف کا حتمی مقدر تھیں۔

سلطنت عباسیہ کا ایک مشہور واقعہ وہ دعوت ہے جب اپنے سیاسی حریفوں کے ایک خاص گروہ کو خلیفہ وقت نے اپنے محل میں ایک ضیافت کے سلسلے میں مدعو کیا۔ مطلوبہ افراد جب ایوان میں جمع ہوئے تو ایوان کے دروازے بند کر دیے گئے اور اس گروہ کے افراد کو چن چن کر قتل کردیا گیا۔

قتل کرنے کا یہ عمل سلطنت عباسیہ کے عمائدین کے لیے کوئی نیا کھیل نہیں تھا لیکن اس قتل عام کے بعد مقتولین کی لاشوں پر بیش قیمت کاشانی اور اصفہانی قالین بچھائے گئے اور پھر ان بدقسمت اور بے گناہ افراد کی لاشوں کے فرش پر ایک شاندار ضیافت کا اہتمام ہوا جن میں بغداد کے عمائدین نے شرکت کی۔یہ پوری صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خلیفہ وقت کا مقصد اپنے مخالفین اور ان کے لواحقین کو ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا کرنا اور ہراساں کرنا تھا۔

مغل اور ایرانی حکمرانوں پر نظر ڈالیے تو وہ اپنے مخالفین اور ذاتی دشمنوں کی آنکھوں میں لوہے کی دہکتی ہوئی سلائیاں پھرواتے ، مہیب قلعوں کی تنگ و تاریک زمین دوز کوٹھریوں میں سیاسی مخالفین کو تاحیات پا بہ زنجیر رکھتے۔ فولادی آنکڑا گردن کے پچھلے حصے میں داخل کرکے گدی سے زبان کھنچواتے۔ زندہ انسانوں کو بھوکے شیروں کے سامنے پھنکواتے۔ صرف اپنے مخالفین کو ہی نہیں اس کے بیوی بچوں کو بھی کولہو میں پلواتے۔ تانت سے آنکھ کے پپوٹے اور ہونٹ سلواتے ، نچلا دھڑ زمین میں گاڑ کر اوپری دھڑ پر شکاری کتے چھڑواتے، گھر جلواتے،ہاتھی کے پیروں سے کچلواتے، مخالف دانشوروں اور عالموں کے کتب خانوں میں آگ لگواتے اور حد تو یہ ہے کہ ان کی اپنی لکھی ہوئی کتابیں جلواتے نظر آئیں گے۔

تاریخ میں حکمرانوں نے سیاسی مخالفین کو نہ صرف شدید اذیتوں سے دوچار کیا بلکہ ان کی لاشوں کی اس طور بے حرمتی اور تذلیل کی کہ اہل خانہ زیادہ سے زیادہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوسکیں۔ بہن، بیوی، بیٹی اور بیٹے اور دوسرے عزیزوں کی نگاہوں کے سامنے حسین ابن علیؓ کے سربریدہ بدن کو گھوڑوں کے ٹاپوں سے پامال کرنا اور پھر ان کے سر کو نیزے پر بلند کرکے ان کے قیدی اہل خانہ کی نگاہوں کے سامنے مسلسل رکھنا اور اس کی ہر شہر ہر قریے میں تشہیر کرنا ، اہل خاندان کے لیے جس ذہنی عذاب و اذیت کا سبب ہوگا اسے قلم بند نہیں کیا جاسکتا۔ جعفر برمکی کے سر کا بغداد کے پل جر اوسط پر مسلسل لٹکتے رہنا، حسین بن منصور حلاج کا سرعام مسلا کیا جانا۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل کے ساتھ خلفائے وقت کا شرمناک سلوک، قرۃ العین طاہرہ کو اذیتیں دے کر ہلاک کرنا۔ غرض محض خواص کو دی جانے والی اذیتوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں۔

اردو ادب میں اکثر گوشت کا ناخن سے جدا ہونا بیان کیا جاتا ہے ۔ یہ دراصل مغلوں اور ایرانی حکمرانوں کی ایک محبوب سزا تھی۔ جس میں زنبور سے ناخن کھینچ لیے جاتے تھے۔ اسی طرح فارسی اور اردو شاعری میں رقص بسمل تڑپنے اور پھڑکنے کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید یہ بات آپ کو حیران کردے کہ رقص بسمل درحقیقت ایرانی سلاطین کی ایجاد کردہ سزا تھی۔ یہ سزا وہ اپنے بدترین مخالفوں کو دیتے تھے۔


اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ باغی یا منحرف کا سر قلم کرنے سے پہلے الاؤ میں لوہے کے بڑے بڑے توے دہکائے جاتے تھے۔ پھر جب سلطان کے حکم سے ملزم کا سر اڑایا جاتا تو گردن کٹتے ہی عقوبت خانے کے نگراں بڑے بڑے چمٹوں کی مدد سے دہکتا ہوا توا مقتول کی کٹی ہوئی گردن پر رکھ دیتے تھے جس کے سبب گردن سے چھوٹتے ہوئے خون کے فوارے بند ہوجاتے اور لاش پھڑکنے لگتی اور چکرانے لگتی تھی۔ جسے حیوانی ذہن رکھنے والے یہ سلاطین بسمل کا رقص قرار دیتے تھے۔

اسی طرح گدی سے زبان کھنچوا لینا، زن بچہ کولہو میں پلوانا ، کھال اتروانا ، آنکھوں میں مرچیں بھروانا ، منہ کالا کرکے بستی میں پھروانا، محض محاورے نہیں حقیقی سزائیں ہیں جو اس قدر عام تھیں کہ ان کا ذکر روز مرہ گفتگو کا حصہ بن گیا اور ہم دورکیوں جائیں ، انیسویں صدی کے ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاچار کا ذکر کیوں نہ کریں جس نے ایک رات یورپی سفرا کی ضیافت کی۔ اس ضیافت کے لیے اعلیٰ پیمانے پر روشنی کا انتظام ضروری تھا۔

چنانچہ شاہ کے سیکڑوں سیاسی مخالفین بندی خانے سے لائے گئے، ان کے جسموں پر چربی ملی گئی اور پھر انھیں الٹا کرکے ستونوں سے باندھ دیا گیا۔ شام ڈھلے جب ضیافت شروع ہوئی تو ان بدبختوں کے پیروں کو آگ دکھائی گئی اور ان کے بدن مشعلوں کی طرح جل اٹھے۔ ان جلنے والوں کی آہ و بکا اور ان کے جلتے ہوئے گوشت کی چراند کے درمیان یورپی سفرا کھانا کھانے کا فرض ادا کرتے رہے اور دہشت سے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح لرزتے اور کانپتے رہے۔

ایذا دہی اور تشدد کی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک یورپ کا ذکر نہ کیا جائے۔ بارہویں اور تیرہویں صدی سے یورپ میں عقوبتوں اور اذیتوں کا وہ دور شروع ہوا۔ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ سہرا پوپ انوسٹنٹ چہارم کے سر ہے جس کے عہد سے اذیت دہی ایک عمومی رویہ بن گئی۔

کلیسا اور حکمرانوں کے سیاسی حریفوں، تخت و تاج کے دعویداروں، ذاتی دشمنوں، مذہبی مخالفوں ، غیر مذہب کے ماننے والوں ، دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والوں اور سائنسی اور علمی تحقیق میں مصروف دانشوروں کو بدعتی، جادو گر، چڑیل، خون آشام، کیمیا گر اور زندیق قرار دے کر زندہ جلایا گیا، ان کے بدن آرے سے چیرے گئے۔ شکنجے میں ڈال کر ان کی ہڈیاں توڑی گئیں۔ بدن تیزاب میں گھلوائے گئے، سر بازار تازیانے مارے گئے اور تنگ و تاریک تہہ خانوں میں زندگی کا ایک ایک لمحہ ان پر جہنم کے در کھولتا رہا۔

اسپین، فرانس، اٹلی ، نیدر لینڈ ، پرتگال، جرمنی اور انگلستان میں بارہویں سے سترہویں صدی تک سیاسی اور مذہبی مخالفین پر جس قدر زیادہ اور جس بڑے پیمانے پر تشدد کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس زمانے میں ایذا دہی کے نئے آلات ایجاد ہوئے۔ ایسے جھولے تیار کیے گئے جن میں فولادی میخوں کا نوکیلا بستر ہوتا تھا۔ مخالفین کو اس جھولے میں لٹا کر باندھ دیا جاتا اور پھر جھولے کو تیزی سے حرکت دی جاتی اور فولادی میخیں انسانی جسم کو چھید دیتیں۔ سر کے گرد فولادی پٹیاں لپیٹی جاتیں پھر انھیں آہستہ آہستہ اتنا کسا جاتا کہ کھوپڑی چٹخ جاتی۔ باغی شخص کے پیروں پر بھاری وزن باندھ کر اور اس کی کلائیوں کو فولادی کڑوں میں پھنسا کر لٹکا دیا جاتا ۔ کلائیوں کا جوڑ اتنے وزن کو برداشت نہ کرپاتا آخر کار کلائیوں کا جوڑ ٹوٹ جاتا۔

(جاری ہے)
Load Next Story