پلاسٹک کی آلودگی ساری دنیا کیلیے ’نئی ایمرجنسی‘ ہے ماہرین
تھائی لینڈ میں پلاسٹک خوری سے 20 ہاتھی مرنے کے بعد اقوامِ متحدہ سے مدد اور مداخلت کی اپیل کی گئی ہے
ISLAMABAD:
پلاسٹک کا کچرا پوری دنیا کے لیے ایک خوفناک خطرہ بن چکا ہے۔ اب سائنسدانوں کی طرف سے جاری ایک نئی رپورٹ میں اسے 'سیارہ زمین کی نئی ایمرجنسی' قرار دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے مداخلت اور قانون سازی کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
ماحولیاتی تحقیقی ایجنسی (ای آئی اے) نے پلاسٹک کے ہولناک خطرات کو عین آب و ہوا میں تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب ہم جو سانس لے رہے ہیں اس میں بھی پلاسٹک ہے۔ سمندری غذا میں پلاسٹک کے باریک ذرات شامل ہورہے ہیں اورسمندروں میں پھینکا گیا ہمارا پلاسٹک انٹارکٹک کے ویرانے اور سمندروں کے گہرائیوں تک پہنچ رہا ہے۔
حال ہی میں تھائی لینڈ میں بھوک سے بے تاب 20 ہاتھیوں نے کوڑے دان سے کھانے کے بعد شامل پلاسٹک سے ہلاک ہوئے ہیں۔ افریقہ سے خبر یہ ہے کہ زرخیز مٹی میں باریک پلاسٹک کھیتی باڑی کو تباہ کررہے ہیں۔ اسی بنا پر ای آئی اے سے وابستہ ٹام گیمج کہتے ہیں کہ پلاسٹک کا ٹک ٹک کرتا بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اسی بنا پر عالمی اقوام کو پلاسٹک کی تیاری اور استعمال ترک کرنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن بھی پلاسٹک کی تیاری اور استعمال کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کانگریس اسے مانے گی یا نہیں کیونکہ پلاسٹک کی اکثریت تیل اور گیس سےبنائی جاتی ہے۔ دوسری جانب چین اور خلیجی ممالک بھی اس پر خاموش ہیں۔
ای آئی اے کی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب بھی پلاسٹک کے تباہ کن اثرات پرمزید تحقیق کرنا باقی ہے۔ پلاسٹک کی ایک تھیلی پانچ منٹ استعمال ہوتی ہے اور ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتی۔ سمندروں میں جاکر یہ حساس مخلوق کی خوراک بنتی ہے اور موت کی وجہ بھی بن رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک سازی تمام حدود پار کرچکی ہے اور صارفین پلاسٹک سے جان نہیں چھڑانا چاہتے ۔ پھر پلاسٹک کی بازیافت (ری سائیکل) کی شرح بھی کم ہے جو مزید تشیویش ناک ہے۔
پلاسٹک کا کچرا پوری دنیا کے لیے ایک خوفناک خطرہ بن چکا ہے۔ اب سائنسدانوں کی طرف سے جاری ایک نئی رپورٹ میں اسے 'سیارہ زمین کی نئی ایمرجنسی' قرار دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے مداخلت اور قانون سازی کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
ماحولیاتی تحقیقی ایجنسی (ای آئی اے) نے پلاسٹک کے ہولناک خطرات کو عین آب و ہوا میں تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب ہم جو سانس لے رہے ہیں اس میں بھی پلاسٹک ہے۔ سمندری غذا میں پلاسٹک کے باریک ذرات شامل ہورہے ہیں اورسمندروں میں پھینکا گیا ہمارا پلاسٹک انٹارکٹک کے ویرانے اور سمندروں کے گہرائیوں تک پہنچ رہا ہے۔
حال ہی میں تھائی لینڈ میں بھوک سے بے تاب 20 ہاتھیوں نے کوڑے دان سے کھانے کے بعد شامل پلاسٹک سے ہلاک ہوئے ہیں۔ افریقہ سے خبر یہ ہے کہ زرخیز مٹی میں باریک پلاسٹک کھیتی باڑی کو تباہ کررہے ہیں۔ اسی بنا پر ای آئی اے سے وابستہ ٹام گیمج کہتے ہیں کہ پلاسٹک کا ٹک ٹک کرتا بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اسی بنا پر عالمی اقوام کو پلاسٹک کی تیاری اور استعمال ترک کرنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن بھی پلاسٹک کی تیاری اور استعمال کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کانگریس اسے مانے گی یا نہیں کیونکہ پلاسٹک کی اکثریت تیل اور گیس سےبنائی جاتی ہے۔ دوسری جانب چین اور خلیجی ممالک بھی اس پر خاموش ہیں۔
ای آئی اے کی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب بھی پلاسٹک کے تباہ کن اثرات پرمزید تحقیق کرنا باقی ہے۔ پلاسٹک کی ایک تھیلی پانچ منٹ استعمال ہوتی ہے اور ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتی۔ سمندروں میں جاکر یہ حساس مخلوق کی خوراک بنتی ہے اور موت کی وجہ بھی بن رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک سازی تمام حدود پار کرچکی ہے اور صارفین پلاسٹک سے جان نہیں چھڑانا چاہتے ۔ پھر پلاسٹک کی بازیافت (ری سائیکل) کی شرح بھی کم ہے جو مزید تشیویش ناک ہے۔