11 ہزار بند اسکولوں کے فعال ہونے تک نئے اسکول کھولنے پر پابندی ہوگی نثار کھوڑو
کراچی میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں ہے،اساتذہ کی بھرتی پر پابندی نہیں، طلبا کی انرولمنٹ کو کمپیوٹرائز کررہے ہیں
سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے کہا ہے کہ سندھ میں تقریباً 49ہزار اسکولز ہیں ، ان میں سے 38ہزار اسکولز چل رہے ہیں ،باقی 11ہزار اسکولز بند یا غیر فعال ہیں ،بند یا غیر فعال اسکولز کو فعال بنانے تک نئے اسکول کھولنے پر پابندی رہے گی۔
یہ بات انھوں نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران متعدد ارکان کے تحریری اور ضمی سوالوں کے جواب میں بتائی ،وزیر تعلیم نے بتایا کہ 49ہزار میں سے 90فیصد یعنی 43ہزار اسکولز پرائمری ہیں ،ان میں سے تقریباً ساڑھے 5ہزار اسکول بند یا غیر فعال ہیں ،ایک گاؤں میں 54پرائمری اسکول ہیں جبکہ ایک رکن نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ ایک گاؤں میں 84اسکول ہیں ، وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ کوئی اسکول غیر فعال نہ ہو، ہم اسکول میں تعینات اساتذہ کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ، اس سے پتہ چلے گا کس اسکول میں کتنے ٹیچرزہیں اور ٹیچرز کی موجودگی میں اسکولز بند کیوں ہیں،ایسے ٹیچرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی،جن کی وجہ سے اسکولز بند ہیں اور انھیں سزا دی جائے گی،ہم طلباکی انرولمنٹ کو بھی کمپیوٹرائز کررہے ہیں ،اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ کس اسکول میں مختلف کلاسز میں کتنے کتنے بچے ہیں ،وہاں کتنے اساتذہ کی ضرورت ہے اورکتنے بچے اسکول چھوڑ کر جارہے ہیں۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ورلڈ بینک کے پروگرام کے تحت ہم بھرتیاں کررہے ہیں ،این ٹی ایس کا امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو آفر لیٹر جاری کردیے ہیں،ان امیدواروں کی بھرتی پر پابندی نہیں ہے،نئی بھرتیوں سے ہم تین ہزار بند اور غیر فعال اسکولز کو کھول سکیں گے،انھوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132 ارب روپے ہے ،ان میں سے 110ارب روپے تنخواہوںکی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں ، باقی 22ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے،جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی) اور غیر ملکی امداد میںچلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں،ترقیاتی بجٹ میں سے زیادہ تر رقم جاری اسکیموں کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ یہ اسکیمیں مکمل ہوں ،اسکول اورکالجز کی عمارتوں کی مینٹی ننس اور مرمت کا کام ہورہا ہے ،انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ کے کل 15لاکھ ملازمین ہیںجن میں سے ڈھائی لاکھ یعنی 50فیصد ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں ،وزیر تعلیم نے بتایا کہ کراچی میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں ہے ،2008سے 2013 تک پورے صوبے میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ 2011-12اور 2012-13میں کراچی میں 35نئے مڈل اسکول قائم کیے گئے یا انہیں اپ گریڈ کیا گیا ،اسی طرح حیدر آباد ریجن میں 107،میر پورخاص ریجن میں 74،سکھر ریجن میں 73اور لاڑکانہ ریجن میں 69نئے مڈل اسکول کھولے گئے ہیں ،وزیر تعلیم نے بتایا کہ 2009سے 2013تک کراچی ریجن میں کوئی نیا اسکول قائم نہیں کیا گیا جبکہ حیدر آباد ریجن میں 83،سکھر ریجن میں 40،میرپور خاص ریجن میں 76 اور لاڑکانہ ریجن میں 39نئے اسکول قائم کیے گئے،اس عرصے کے دوران صوبے بھر میں 39نئے کالج قائم کیے گئے،وزیر تعلیم نے بتایا کہ ارکان سندھ اسمبلی میرے ساتھ تعاون کریں اور بند یا غیر فعال اسکولوں کی نشاندہی کریں تاکہ انہیں فعال بنایا جاسکے،ارکان اسمبلی ان منصوبوں کی بھی نشاندہی کریں،جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں،انھوں نے کہا کہ سندھ میں 659 اسکولز ایسے ہیں ، جہاں انرولمنٹ نہیں ہے اور 137 اسکول ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
یہ بات انھوں نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران متعدد ارکان کے تحریری اور ضمی سوالوں کے جواب میں بتائی ،وزیر تعلیم نے بتایا کہ 49ہزار میں سے 90فیصد یعنی 43ہزار اسکولز پرائمری ہیں ،ان میں سے تقریباً ساڑھے 5ہزار اسکول بند یا غیر فعال ہیں ،ایک گاؤں میں 54پرائمری اسکول ہیں جبکہ ایک رکن نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ ایک گاؤں میں 84اسکول ہیں ، وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ کوئی اسکول غیر فعال نہ ہو، ہم اسکول میں تعینات اساتذہ کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ، اس سے پتہ چلے گا کس اسکول میں کتنے ٹیچرزہیں اور ٹیچرز کی موجودگی میں اسکولز بند کیوں ہیں،ایسے ٹیچرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی،جن کی وجہ سے اسکولز بند ہیں اور انھیں سزا دی جائے گی،ہم طلباکی انرولمنٹ کو بھی کمپیوٹرائز کررہے ہیں ،اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ کس اسکول میں مختلف کلاسز میں کتنے کتنے بچے ہیں ،وہاں کتنے اساتذہ کی ضرورت ہے اورکتنے بچے اسکول چھوڑ کر جارہے ہیں۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ورلڈ بینک کے پروگرام کے تحت ہم بھرتیاں کررہے ہیں ،این ٹی ایس کا امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو آفر لیٹر جاری کردیے ہیں،ان امیدواروں کی بھرتی پر پابندی نہیں ہے،نئی بھرتیوں سے ہم تین ہزار بند اور غیر فعال اسکولز کو کھول سکیں گے،انھوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132 ارب روپے ہے ،ان میں سے 110ارب روپے تنخواہوںکی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں ، باقی 22ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے،جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی) اور غیر ملکی امداد میںچلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں،ترقیاتی بجٹ میں سے زیادہ تر رقم جاری اسکیموں کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ یہ اسکیمیں مکمل ہوں ،اسکول اورکالجز کی عمارتوں کی مینٹی ننس اور مرمت کا کام ہورہا ہے ،انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ کے کل 15لاکھ ملازمین ہیںجن میں سے ڈھائی لاکھ یعنی 50فیصد ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں ،وزیر تعلیم نے بتایا کہ کراچی میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں ہے ،2008سے 2013 تک پورے صوبے میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ 2011-12اور 2012-13میں کراچی میں 35نئے مڈل اسکول قائم کیے گئے یا انہیں اپ گریڈ کیا گیا ،اسی طرح حیدر آباد ریجن میں 107،میر پورخاص ریجن میں 74،سکھر ریجن میں 73اور لاڑکانہ ریجن میں 69نئے مڈل اسکول کھولے گئے ہیں ،وزیر تعلیم نے بتایا کہ 2009سے 2013تک کراچی ریجن میں کوئی نیا اسکول قائم نہیں کیا گیا جبکہ حیدر آباد ریجن میں 83،سکھر ریجن میں 40،میرپور خاص ریجن میں 76 اور لاڑکانہ ریجن میں 39نئے اسکول قائم کیے گئے،اس عرصے کے دوران صوبے بھر میں 39نئے کالج قائم کیے گئے،وزیر تعلیم نے بتایا کہ ارکان سندھ اسمبلی میرے ساتھ تعاون کریں اور بند یا غیر فعال اسکولوں کی نشاندہی کریں تاکہ انہیں فعال بنایا جاسکے،ارکان اسمبلی ان منصوبوں کی بھی نشاندہی کریں،جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں،انھوں نے کہا کہ سندھ میں 659 اسکولز ایسے ہیں ، جہاں انرولمنٹ نہیں ہے اور 137 اسکول ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔