ایک عہد ساز شخصیت حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ
آپؒ کی وفات تبلیغی سفر کے دوران ساؤتھ افریقا میں ہوئی
ISLAMABAD:
عالم اسلام کی عظیم علمی و روحانی شخصیت اور انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے سابق مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ حضرت اقدس مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
آپؒ بہ یک وقت، محدث، فقیہہ، عالم با عمل شیخ طریقت، تصوّف و سلوک کے مقتداء و پیشوا، کام یاب مدرّس، محافظِ ختم نبوتؐ، زہد و تقویٰ، اخلاص و للہیت اور علم و عمل کے پیکر اور زاہد شب بیدار، فیاض و سخی، حلیم و بردبار، شیخ و مربی اور مرشد کامل تھے۔
اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو ہزاروں لوگوں کی ہدایت اور تزکیۂ نفس کا ذریعہ بنایا اور پاکستان اور سعودی عرب سمیت پوری دنیا میں آپ کو یکساں محبوبیت و مقبولیت عطا فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو امت مسلمہ کے لیے تڑپنے والا دل اور برسنے والی آنکھیں عطا فرمائی تھیں۔ آپؒ مستجاب الدعوات تھے۔
جامعۂ اشرفیہ لاہور کے ساتھ بھی آپؒ کا خصوصی تعلق تھا، جب بھی خانقاہی و اصلاحی دورے پر سعودی عرب سے پاکستان تشریف لاتے تو جامعۂ اشرفیہ لاہور میں مہتمم حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی مدظلہ اور دیگر اساتذہ و علماء سے خصوصی ملاقات کے علاوہ دورۂ حدیث کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ان کو اجازت حدیث اور خصوصی دعاؤں سے نوازتے۔
آپؒ کی تمام زندگی عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ، تحریر و تصنیف، دعوت و تبلیغ، دینی مدارس و مساجد اور خانقاہوں کے قیام، دینی و مذہبی جماعتوں کی سرپرستی، اشاعت اسلام اور قادیانیت سمیت دیگر فتنوں کے خلاف آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد میں گزری۔ آپؒ 1946ء میں امرت سر ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
آپؒ کا خاندان نصف صدی قبل کشمیر سے آکر یہاں آباد ہُوا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد آپؒ کا خاندان (لائل پور) فیصل آباد منتقل ہوگیا۔ 1953ء میں آپؒ کے والد ملک عبدالحق مکیؒ کو سعودی عرب کی شہریت مل گئی، جس کے بعد آپؒ اپنے والد کے ہم راہ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہوگئے۔
جہاں کچھ عرصے کے بعد آپؒ کو بھی سعودی عرب کی شہریت مل گئی۔ سعودی عرب میں آپؒ نے ابتدائی عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ میں قائم عالم اسلام کے عظیم دینی ادارے مدرسہ صولتیہ اور دیگر دینی مدارس میں اپنی دینی تعلیم حاصل کی اور پھر مکہ مکرمہ سے سہارن پور (ہندوستان) مدرسہ مظاہر العلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور دیگر نام ور علمی شخصیات سے موقوف علیہ اور دورہ حدیث کی کتب پڑھ کر امتیازی نمبروں اور نمایاں پوزیشن کے ساتھ سند فراغت حاصل کرتے ہوئے عالم دین کے منصب پر فائز ہوگئے۔
اس سے قبل آپؒ کے والد ملک عبدالحق مکیؒ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے بیعت و خلیفۂ مجاز اور سعودی عرب میں ان کے مستقل میزبان بھی تھے۔ آپؒ کے والد ملک عبدالحق مکیؒ کا شمار مکہ مکرمہ کے ممتاز صنعت کاروں اور فیکٹری مالکان میں ہوتا تھا، انہوں نے23 سال تک مکہ مکرمہ میں رہنے کے دوران ہر سال باقاعدگی سے یورپ و امریکا میں جاکر چار ماہ ''دعوت و تبلیغ'' کے کام میں لگائے۔
دورانِ تعلیم ہی مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کو بھی حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ساتھ ایک قلبی محبت اور تعلق تھا، جس کی وجہ سے آپؒ دوران تعلیم ان کے خادم خاص اور مرید تھے، بعد میں حضرت مولانا محمد زکریاؒ نے آپؒ کے اخلاص و للہیت، زہد و عبادت اور تقویٰ کو دیکھتے ہوئے نوجوانی میں ہی آپؒ کو اپنی خلافت سے نوازا۔ اس دوران آپؒ نے اپنے شیخ و مربّی حضرت مولانا محمد زکریا ؒ کی ہدایت پر امریکا، جاپان، افریقا، بنگلا دیش اور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی و خانقاہی سفر کیے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپؒ نے واپس مکہ مکرمہ میں آکر مدرسہ صولتیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہو کر حدیث کے اسباق پڑھانا شروع کر دیے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے خلافت ملنے کے بعد آپؒ اپنے شیخ کے رنگ میں ایسے رنگے کہ پھر آپؒ بھی لوگوں کا تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن کر کے لاکھوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔ آپؒ اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ساتھ سفر و حضر میں ساتھ رہتے اور رمضان المبارک میں اعتکاف ان کا ساتھ ہوتا۔
آپؒ نے اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی تصنیف کردہ کتب کو بڑے اہتمام کے ساتھ شایع اور عام کرتے رہے بالخصوص کنزالمتواری شرح بخاری جو کہ 24 جلدوں اور عربی زبان میں ہے اس کو بھی حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ نے اپنی نگرانی میں حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی خواہش و منشاء کے مطابق انتہائی خُوب صورت انداز میں شایع کروایا۔ اس کتاب کو بھی عرب ممالک سمیت پوری دنیا میں مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی ہے اور اہل علم کے زیر مطالعہ ہے۔
مولانا عبدالحفیظ مکیؒ فرماتے تھے کہ میرے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اپنے متعلقین سے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اب ہمتیں کم زور ہو گئی ہیں، ہر شعبہ میں کوئی شخص کمال تک نہیں پہنچ سکتا، لہٰذا اپنے لیے طبیعت و مزاج اور ضرورت و حالات کے لحاظ سے دین کا ایک شعبہ متعین کر لے اور بقیہ شعبوں کے اکابرین اور مخصوصین سے تعلق و محبت کو باقی رکھے اس سے ان شاء اﷲ ''الرجل مع من احب'' کے تحت سب ہی شعبوں کی برکات اور آخرت میں ان کا ساتھ نصیب ہوگا۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ ایسے آفتاب و مہتاب تھے جس کو اﷲ تعالیٰ نے مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اﷲ، سفیر ختم نبوتؐ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج جیسے روشن ستارے عطاء فرمائے جنہوں نے عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت اور فتنۂ قادیانیت کو پوری دنیا میں بے نقاب کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ آپؒ انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے بانی اور پہلے امیر تھے۔
جس کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ نے دی۔ انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے پہلے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا محمد خیر مکی حجازی، امیر مرکزیہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ، مشیر امیر مرکزیہ فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اﷲ حفظہ اﷲ، نائب امیر اوّل خطیب یورپ و ایشیاء حضرت مولانا ضیاء القاسمی، نائب امیر دوم ڈاکٹر احمد علی سراج، مرکزی سیکرٹری جنرل سفیر ختم نبوتؐ مولانا منظور احمد چنیوٹی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قاری محمد طیّب عباسی جب کہ انٹرنیشنل ختم نبوت یورپ کے امیر مولانا محمد امداد اﷲ قاسمی اور علامہ ڈاکٹر خالد محمود شعبہ تالیفات و تصنیفات کے ذمہ دار و نگران اعلیٰ کے منصب پر فائر ہوئے۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ نے 1985ء میں لندن میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس کی کام یابی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے لندن اور پاکستان میں اس کی تیاری میں بھرپور حصہ لیا اور لندن کانفرنس میں تاریخی خطاب کیا۔ آپؒ نے عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ کے لیے سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید عنایت اﷲ مدظلہ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی اور علامہ خالد محمود کے ہم راہ ملک و بیرون ملک کئی اسفار کیے۔
وفات سے قبل آپؒ نے راقم الحروف کا شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی شخصیت و خدمات پر اخبارات کے لیے لکھے گئے ایک مضمون کا باالاستعاب مطالعہ کرتے ہوئے اس کی تصحیح و اضافہ فرمایا اور اس کی اشاعت کے بعد خوب دُعاؤں سے نوازا۔ آخر کار ساؤتھ افریقا کے ایک تبلیغی و اصلاحی سفر کے دوران ڈربن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں طبیعت خراب ہونے کے بعد اسپتال میں انجیوگرافی کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے16جنوری 2017ء کو انتقال کرگئے۔ انتقال کے وقت آپ کی زبان پر قرآن کی آیت ''سلام قولاً من رب الرحیم'' اور کلمۂ طیبہ کا ورد تھا۔
آپؒ کی پہلی نماز جنازہ ساؤتھ افریقا میں ادا کی گئی اور دوسری نماز جنازہ مدینہ منورہ مسجد نبویؐ شریف میں امام فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہ اﷲ نے پڑھائی، جس میں حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کے بیٹوں، بھائیوں، عزیز و اقارب اور انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے مرکزی امیر مولانا ڈاکٹر سعید عنایت اﷲ حفظہ اﷲ، مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج مدظلہ، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا قاری محمد رفیق وجھوی اور دیگر قائدین سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
بعد میں آپؒ کو جنّت البقیع میں جہاں صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ مدفون ہیں وہاں آپؒ کو اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے قریب دفن کر دیا گیا۔ آپؒ کی وفات سے رشد و ہدایت اور تصوف و سلوک کا ایک روشن سورج غروب ہوگیا۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِِ پاک طینت را
عالم اسلام کی عظیم علمی و روحانی شخصیت اور انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے سابق مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ حضرت اقدس مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
آپؒ بہ یک وقت، محدث، فقیہہ، عالم با عمل شیخ طریقت، تصوّف و سلوک کے مقتداء و پیشوا، کام یاب مدرّس، محافظِ ختم نبوتؐ، زہد و تقویٰ، اخلاص و للہیت اور علم و عمل کے پیکر اور زاہد شب بیدار، فیاض و سخی، حلیم و بردبار، شیخ و مربی اور مرشد کامل تھے۔
اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو ہزاروں لوگوں کی ہدایت اور تزکیۂ نفس کا ذریعہ بنایا اور پاکستان اور سعودی عرب سمیت پوری دنیا میں آپ کو یکساں محبوبیت و مقبولیت عطا فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو امت مسلمہ کے لیے تڑپنے والا دل اور برسنے والی آنکھیں عطا فرمائی تھیں۔ آپؒ مستجاب الدعوات تھے۔
جامعۂ اشرفیہ لاہور کے ساتھ بھی آپؒ کا خصوصی تعلق تھا، جب بھی خانقاہی و اصلاحی دورے پر سعودی عرب سے پاکستان تشریف لاتے تو جامعۂ اشرفیہ لاہور میں مہتمم حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی مدظلہ اور دیگر اساتذہ و علماء سے خصوصی ملاقات کے علاوہ دورۂ حدیث کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ان کو اجازت حدیث اور خصوصی دعاؤں سے نوازتے۔
آپؒ کی تمام زندگی عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ، تحریر و تصنیف، دعوت و تبلیغ، دینی مدارس و مساجد اور خانقاہوں کے قیام، دینی و مذہبی جماعتوں کی سرپرستی، اشاعت اسلام اور قادیانیت سمیت دیگر فتنوں کے خلاف آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد میں گزری۔ آپؒ 1946ء میں امرت سر ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
آپؒ کا خاندان نصف صدی قبل کشمیر سے آکر یہاں آباد ہُوا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد آپؒ کا خاندان (لائل پور) فیصل آباد منتقل ہوگیا۔ 1953ء میں آپؒ کے والد ملک عبدالحق مکیؒ کو سعودی عرب کی شہریت مل گئی، جس کے بعد آپؒ اپنے والد کے ہم راہ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہوگئے۔
جہاں کچھ عرصے کے بعد آپؒ کو بھی سعودی عرب کی شہریت مل گئی۔ سعودی عرب میں آپؒ نے ابتدائی عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ میں قائم عالم اسلام کے عظیم دینی ادارے مدرسہ صولتیہ اور دیگر دینی مدارس میں اپنی دینی تعلیم حاصل کی اور پھر مکہ مکرمہ سے سہارن پور (ہندوستان) مدرسہ مظاہر العلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور دیگر نام ور علمی شخصیات سے موقوف علیہ اور دورہ حدیث کی کتب پڑھ کر امتیازی نمبروں اور نمایاں پوزیشن کے ساتھ سند فراغت حاصل کرتے ہوئے عالم دین کے منصب پر فائز ہوگئے۔
اس سے قبل آپؒ کے والد ملک عبدالحق مکیؒ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے بیعت و خلیفۂ مجاز اور سعودی عرب میں ان کے مستقل میزبان بھی تھے۔ آپؒ کے والد ملک عبدالحق مکیؒ کا شمار مکہ مکرمہ کے ممتاز صنعت کاروں اور فیکٹری مالکان میں ہوتا تھا، انہوں نے23 سال تک مکہ مکرمہ میں رہنے کے دوران ہر سال باقاعدگی سے یورپ و امریکا میں جاکر چار ماہ ''دعوت و تبلیغ'' کے کام میں لگائے۔
دورانِ تعلیم ہی مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کو بھی حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ساتھ ایک قلبی محبت اور تعلق تھا، جس کی وجہ سے آپؒ دوران تعلیم ان کے خادم خاص اور مرید تھے، بعد میں حضرت مولانا محمد زکریاؒ نے آپؒ کے اخلاص و للہیت، زہد و عبادت اور تقویٰ کو دیکھتے ہوئے نوجوانی میں ہی آپؒ کو اپنی خلافت سے نوازا۔ اس دوران آپؒ نے اپنے شیخ و مربّی حضرت مولانا محمد زکریا ؒ کی ہدایت پر امریکا، جاپان، افریقا، بنگلا دیش اور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی و خانقاہی سفر کیے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپؒ نے واپس مکہ مکرمہ میں آکر مدرسہ صولتیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہو کر حدیث کے اسباق پڑھانا شروع کر دیے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے خلافت ملنے کے بعد آپؒ اپنے شیخ کے رنگ میں ایسے رنگے کہ پھر آپؒ بھی لوگوں کا تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن کر کے لاکھوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔ آپؒ اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ساتھ سفر و حضر میں ساتھ رہتے اور رمضان المبارک میں اعتکاف ان کا ساتھ ہوتا۔
آپؒ نے اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی تصنیف کردہ کتب کو بڑے اہتمام کے ساتھ شایع اور عام کرتے رہے بالخصوص کنزالمتواری شرح بخاری جو کہ 24 جلدوں اور عربی زبان میں ہے اس کو بھی حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ نے اپنی نگرانی میں حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی خواہش و منشاء کے مطابق انتہائی خُوب صورت انداز میں شایع کروایا۔ اس کتاب کو بھی عرب ممالک سمیت پوری دنیا میں مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی ہے اور اہل علم کے زیر مطالعہ ہے۔
مولانا عبدالحفیظ مکیؒ فرماتے تھے کہ میرے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اپنے متعلقین سے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اب ہمتیں کم زور ہو گئی ہیں، ہر شعبہ میں کوئی شخص کمال تک نہیں پہنچ سکتا، لہٰذا اپنے لیے طبیعت و مزاج اور ضرورت و حالات کے لحاظ سے دین کا ایک شعبہ متعین کر لے اور بقیہ شعبوں کے اکابرین اور مخصوصین سے تعلق و محبت کو باقی رکھے اس سے ان شاء اﷲ ''الرجل مع من احب'' کے تحت سب ہی شعبوں کی برکات اور آخرت میں ان کا ساتھ نصیب ہوگا۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ ایسے آفتاب و مہتاب تھے جس کو اﷲ تعالیٰ نے مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اﷲ، سفیر ختم نبوتؐ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج جیسے روشن ستارے عطاء فرمائے جنہوں نے عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت اور فتنۂ قادیانیت کو پوری دنیا میں بے نقاب کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ آپؒ انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے بانی اور پہلے امیر تھے۔
جس کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ نے دی۔ انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے پہلے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا محمد خیر مکی حجازی، امیر مرکزیہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ، مشیر امیر مرکزیہ فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اﷲ حفظہ اﷲ، نائب امیر اوّل خطیب یورپ و ایشیاء حضرت مولانا ضیاء القاسمی، نائب امیر دوم ڈاکٹر احمد علی سراج، مرکزی سیکرٹری جنرل سفیر ختم نبوتؐ مولانا منظور احمد چنیوٹی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قاری محمد طیّب عباسی جب کہ انٹرنیشنل ختم نبوت یورپ کے امیر مولانا محمد امداد اﷲ قاسمی اور علامہ ڈاکٹر خالد محمود شعبہ تالیفات و تصنیفات کے ذمہ دار و نگران اعلیٰ کے منصب پر فائر ہوئے۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ نے 1985ء میں لندن میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس کی کام یابی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے لندن اور پاکستان میں اس کی تیاری میں بھرپور حصہ لیا اور لندن کانفرنس میں تاریخی خطاب کیا۔ آپؒ نے عقیدۂ ختم نبوتؐ کے تحفظ کے لیے سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید عنایت اﷲ مدظلہ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی اور علامہ خالد محمود کے ہم راہ ملک و بیرون ملک کئی اسفار کیے۔
وفات سے قبل آپؒ نے راقم الحروف کا شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی شخصیت و خدمات پر اخبارات کے لیے لکھے گئے ایک مضمون کا باالاستعاب مطالعہ کرتے ہوئے اس کی تصحیح و اضافہ فرمایا اور اس کی اشاعت کے بعد خوب دُعاؤں سے نوازا۔ آخر کار ساؤتھ افریقا کے ایک تبلیغی و اصلاحی سفر کے دوران ڈربن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں طبیعت خراب ہونے کے بعد اسپتال میں انجیوگرافی کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے16جنوری 2017ء کو انتقال کرگئے۔ انتقال کے وقت آپ کی زبان پر قرآن کی آیت ''سلام قولاً من رب الرحیم'' اور کلمۂ طیبہ کا ورد تھا۔
آپؒ کی پہلی نماز جنازہ ساؤتھ افریقا میں ادا کی گئی اور دوسری نماز جنازہ مدینہ منورہ مسجد نبویؐ شریف میں امام فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہ اﷲ نے پڑھائی، جس میں حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کے بیٹوں، بھائیوں، عزیز و اقارب اور انٹرنیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے مرکزی امیر مولانا ڈاکٹر سعید عنایت اﷲ حفظہ اﷲ، مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج مدظلہ، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا قاری محمد رفیق وجھوی اور دیگر قائدین سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
بعد میں آپؒ کو جنّت البقیع میں جہاں صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ مدفون ہیں وہاں آپؒ کو اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے قریب دفن کر دیا گیا۔ آپؒ کی وفات سے رشد و ہدایت اور تصوف و سلوک کا ایک روشن سورج غروب ہوگیا۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِِ پاک طینت را