’’دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے‘‘
محدثین کرامؒ نے اس کا شمار ان احادیث میں کیا ہے جن پر فقہ اسلامی کا مدار ہے
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا فرمایا ہے وہ سراسر نصیحت ہے۔
حضرت ابُو رقیہ تمیم بن اوس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، مفہوم: ''دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے۔ اس پر ہم (صحابہ کرامؓؓ) نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کس کے ساتھ خیر خواہی کرنا دین ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اﷲ، اس کی کتاب (قرآن کریم) اس کے رسول (حضرت محمد ﷺ) مسلم حکم رانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا دین ہے۔ (صحیح مسلم)
حدیث مبارک جامعیت و معنویت کے اعتبار سے بہت اہم ہے اور محدثین کرامؒ نے اس کا شمار ان احادیث میں کیا ہے جن پر فقہ اسلامی کا مدار ہے۔
٭ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خیر خواہی:
حدیث مبارک میں سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بارے یہ بنیادی عقائد رکھے جائیں کہ وہ ذات بغیر ابتداء کے ہمیشہ سے موجود اور بغیر انتہاء کے ہمیشہ فنا سے محفوظ ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات خاصہ میں اکیلی ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ذات صمد ہے یعنی جس کا ہر کام مخلوق کے بغیر ہوجائے اور مخلوق کا کوئی کام اس کے بغیر نہ ہو۔
وہ ذات ایسی ہے کہ جو نہ خود کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے۔ وہ ذات ہر چیز پر قدرت اور مکمل اختیارات رکھنے والی ہے۔ وہ ذات عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ (غیب سے مراد وہ باتیں ہیں جو مخلوق کو بغیر اطلاع کے معلوم نہ ہوں اور شہادۃ سے مراد وہ باتیں جو مخلوق کو اطلاع کے ساتھ معلوم ہوجائیں) وہ ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ وہ ذات تمام مخلوقات کی خالق اور مالک ہے۔ وہ ذات جسم اور جسمانی اعضاء سے پاک ہے۔
وہ ذات ہی ہماری عبادت کے لائق ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ وہ ذات چاہے تو اولاد دے دے اور چاہے تو نہ دے۔ وہ ذات زندگی، موت، عزت، ذلت، خوشی، غمی، سکھ اور دکھ دینے والی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ذمے جتنے احکام لگائے ہیں ان کو اخلاص کے ساتھ ادا کیا جائے اور جن کاموں سے روکا ہے ان سے رکنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی ہے۔
ہمارے عرف میں خیر خواہی کا معنیٰ ہوتا ہے دوسرے کا بھلا چاہنا اور اسے نقصان سے بچانے کے لیے مخلصانہ کوشش کرنا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لی جائے کہ یہاں ''خیر خواہی'' کا لفظ اپنے اس عرفی معنی میں نہیں ہے کیوں کہ اس اعتبار سے خالق کے ساتھ خیر خواہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں البتہ خالق کے اوامر (احکامات) اور منہیات (جن باتوں سے روکا گیا ہے) پر عمل کرنے سے خود مخلوق کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی طرف سے تمام خیر و شر اور ان کے فوائد و نقصانات ملنے سے پاک ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ سے خیر خواہی (اوامر و نواہی پر عمل کرنا) اس وقت ہوگی جب انسان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت رچ بس جائے اور ہر وقت محض اﷲ تعالیٰ کی رضا اس کے پیش نظر ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر چلاتی اور منہیات سے بچاتی ہے۔
حضرت حسن بصریؒ سے (مرسلاً) روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے فرمایا، مفہوم: اگر آپ میں سے کسی کے پاس دو غلام ہوں ان میں سے ایک تو اپنے مالک کی بات ماننے والا ہو۔
اس کی امانت میں خیانت نہ کرتا ہو اور اپنے مالک کی غیر موجودی میں اس کے لیے خیر خواہی کرتا ہو جب کہ دوسرا غلام اپنے مالک کی بات نہ مانتا ہو، اس کی امانت میں خیانت کرتا ہو اور اپنے مالک کی عدم موجودی میں اس کا بد خواہ ہو۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ دونوں (اپنے مالک کی نظر میں) برابر ہو سکتے ہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: بالکل نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہی معاملہ اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ بھی ہے۔ (جامع العلوم و الحکم لابن رجب، الحدیث السابع)
٭ قرآن کریم سے خیر خواہی:
حدیث مبارک میں دوسرے نمبر پر اﷲ کی کتاب یعنی قرآن کریم کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کے معنی یہ ہے کہ قرآن کریم کے حقوق ادا کیے جائیں۔ صحابی رسول حضرت عبیدہ مُلیکیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قرآن کو ماننے والو! قرآن پر سہارا کر کے بیٹھ نہ جاؤ (کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم قرآن والے ہیں) بل کہ دن رات اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔
اس کو پھیلاؤ۔ اس کو مزے لے لے کر پڑھو۔ اس میں غور و فکر کرو۔ کام یابی کے لیے پُرامید رہو۔ اور اس کی تلاوت میں جلدی نہ مچاؤ اس کا عظیم ثواب ملنے والا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
مزید چند حقوق: اﷲ احکم الحاکمین کا برحق کلام مانے۔ تحریف اور تبدیلی سے پاک مانے۔ ذریعہ ہدایت اور باعث نجات مانے۔ اﷲ کی آخری کتاب مانے۔ اس کی تعظیم اور قدر و منزلت کو پہچانے اور مانے۔ اس کو مستند قراء اور علماء سے سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔ اس میں ذکر کیے گئے آدابِ زندگی اور اخلاقِ حسنہ کو اپنائے۔ اس کے قصص اور واقعات سے عبرت حاصل کرے۔
جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہے ان سے پناہ مانگے اور جن میں ثواب کا تذکرہ ہے ان کے حصول کی دعا کرے۔ کفار کی طرف سے اس پر ہونے والے تمام شکوک و شبہات کا مدلل جواب دے اور اس کی صحیح تعبیر و تفسیر امت کے سامنے پیش کرے۔
٭ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خیر خواہی:
حدیث مبارک میں تیسرے نمبر پر اﷲ کے رسول حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کا برحق رسول اور نبی مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی اور رسول مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ذات کے اعتبار سے انسان اور بشر مانے جب کہ صفت کے اعتبار سے نور ہدایت مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہر قسم کے گناہ سے معصوم مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام انبیاء و رسل علیہم السلام سے افضل مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے روضہ مبارکہ میں زندہ مانے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کثرت کے ساتھ تحفہ درود و سلام بھیجے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کو کامل و مکمل مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پر عمل کرے بل کہ آج کے دور میں تو سنتوں کو زندہ کرے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوستوں سے محبت اور دشمنوں سے دشمنی رکھے۔ علوم نبوت کو حاصل کرے اور انہیں پھیلانے کی کوشش کرے۔ روز محشر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کی امید رکھے اور وہ اعمال کرے جن سے آپ کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔
٭ مسلم حکم رانوں کے ساتھ خیر خواہی:
حدیث مبارک میں چوتھے نمبر پر مسلم حکم رانوں کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے عدل و انصاف بل کہ تمام انتظامی امور میں مسلم حکم رانوں کا ساتھ دے۔ حکمت و مصلحت کے ساتھ غیر شرعی کاموں سے دور رکھنے کی کوشش کرے۔ ان کے غلط فیصلوں پر متنبہ کرنے کے لیے وقت کے تقاضے کے مطابق مناسب وقت اور نرم لہجے کا انتخاب کرے۔ مسلم حکم ران ہماری اور ہم ان کی خیر خواہی کے محتاج ہیں۔
٭ عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی:
حدیث مبارک میں پانچویں نمبر پر عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ان کے دینی و دنیاوی فوائد کی جانب صحیح راہ نمائی کرے۔ دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرے۔ عیوب اور نقائص کو چھپائے۔ ان کے لیے دعائیں کرے۔ ان سے حسن سلوک کرے۔ انہیں لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل نہ کرے۔ ان سے دھوکا، کینہ حسد اور بغض نہ رکھے۔ ان کے بارے غیبت، چغلی، تہمت اور بہتان نہ لگائے۔ زبان اور دیگر اعضاء سے تکلیف نہ پہنچائے۔ انہیں نیکی کی باتوں کی ترغیب اور حکم جب کہ برائی کی باتوں سے روکے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق دیں۔ آمین
حضرت ابُو رقیہ تمیم بن اوس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، مفہوم: ''دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے۔ اس پر ہم (صحابہ کرامؓؓ) نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کس کے ساتھ خیر خواہی کرنا دین ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اﷲ، اس کی کتاب (قرآن کریم) اس کے رسول (حضرت محمد ﷺ) مسلم حکم رانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا دین ہے۔ (صحیح مسلم)
حدیث مبارک جامعیت و معنویت کے اعتبار سے بہت اہم ہے اور محدثین کرامؒ نے اس کا شمار ان احادیث میں کیا ہے جن پر فقہ اسلامی کا مدار ہے۔
٭ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خیر خواہی:
حدیث مبارک میں سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بارے یہ بنیادی عقائد رکھے جائیں کہ وہ ذات بغیر ابتداء کے ہمیشہ سے موجود اور بغیر انتہاء کے ہمیشہ فنا سے محفوظ ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات خاصہ میں اکیلی ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ذات صمد ہے یعنی جس کا ہر کام مخلوق کے بغیر ہوجائے اور مخلوق کا کوئی کام اس کے بغیر نہ ہو۔
وہ ذات ایسی ہے کہ جو نہ خود کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے۔ وہ ذات ہر چیز پر قدرت اور مکمل اختیارات رکھنے والی ہے۔ وہ ذات عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ (غیب سے مراد وہ باتیں ہیں جو مخلوق کو بغیر اطلاع کے معلوم نہ ہوں اور شہادۃ سے مراد وہ باتیں جو مخلوق کو اطلاع کے ساتھ معلوم ہوجائیں) وہ ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ وہ ذات تمام مخلوقات کی خالق اور مالک ہے۔ وہ ذات جسم اور جسمانی اعضاء سے پاک ہے۔
وہ ذات ہی ہماری عبادت کے لائق ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ وہ ذات چاہے تو اولاد دے دے اور چاہے تو نہ دے۔ وہ ذات زندگی، موت، عزت، ذلت، خوشی، غمی، سکھ اور دکھ دینے والی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ذمے جتنے احکام لگائے ہیں ان کو اخلاص کے ساتھ ادا کیا جائے اور جن کاموں سے روکا ہے ان سے رکنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی ہے۔
ہمارے عرف میں خیر خواہی کا معنیٰ ہوتا ہے دوسرے کا بھلا چاہنا اور اسے نقصان سے بچانے کے لیے مخلصانہ کوشش کرنا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لی جائے کہ یہاں ''خیر خواہی'' کا لفظ اپنے اس عرفی معنی میں نہیں ہے کیوں کہ اس اعتبار سے خالق کے ساتھ خیر خواہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں البتہ خالق کے اوامر (احکامات) اور منہیات (جن باتوں سے روکا گیا ہے) پر عمل کرنے سے خود مخلوق کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی طرف سے تمام خیر و شر اور ان کے فوائد و نقصانات ملنے سے پاک ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ سے خیر خواہی (اوامر و نواہی پر عمل کرنا) اس وقت ہوگی جب انسان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت رچ بس جائے اور ہر وقت محض اﷲ تعالیٰ کی رضا اس کے پیش نظر ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر چلاتی اور منہیات سے بچاتی ہے۔
حضرت حسن بصریؒ سے (مرسلاً) روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے فرمایا، مفہوم: اگر آپ میں سے کسی کے پاس دو غلام ہوں ان میں سے ایک تو اپنے مالک کی بات ماننے والا ہو۔
اس کی امانت میں خیانت نہ کرتا ہو اور اپنے مالک کی غیر موجودی میں اس کے لیے خیر خواہی کرتا ہو جب کہ دوسرا غلام اپنے مالک کی بات نہ مانتا ہو، اس کی امانت میں خیانت کرتا ہو اور اپنے مالک کی عدم موجودی میں اس کا بد خواہ ہو۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ دونوں (اپنے مالک کی نظر میں) برابر ہو سکتے ہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: بالکل نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہی معاملہ اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ بھی ہے۔ (جامع العلوم و الحکم لابن رجب، الحدیث السابع)
٭ قرآن کریم سے خیر خواہی:
حدیث مبارک میں دوسرے نمبر پر اﷲ کی کتاب یعنی قرآن کریم کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کے معنی یہ ہے کہ قرآن کریم کے حقوق ادا کیے جائیں۔ صحابی رسول حضرت عبیدہ مُلیکیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قرآن کو ماننے والو! قرآن پر سہارا کر کے بیٹھ نہ جاؤ (کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم قرآن والے ہیں) بل کہ دن رات اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔
اس کو پھیلاؤ۔ اس کو مزے لے لے کر پڑھو۔ اس میں غور و فکر کرو۔ کام یابی کے لیے پُرامید رہو۔ اور اس کی تلاوت میں جلدی نہ مچاؤ اس کا عظیم ثواب ملنے والا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
مزید چند حقوق: اﷲ احکم الحاکمین کا برحق کلام مانے۔ تحریف اور تبدیلی سے پاک مانے۔ ذریعہ ہدایت اور باعث نجات مانے۔ اﷲ کی آخری کتاب مانے۔ اس کی تعظیم اور قدر و منزلت کو پہچانے اور مانے۔ اس کو مستند قراء اور علماء سے سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔ اس میں ذکر کیے گئے آدابِ زندگی اور اخلاقِ حسنہ کو اپنائے۔ اس کے قصص اور واقعات سے عبرت حاصل کرے۔
جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہے ان سے پناہ مانگے اور جن میں ثواب کا تذکرہ ہے ان کے حصول کی دعا کرے۔ کفار کی طرف سے اس پر ہونے والے تمام شکوک و شبہات کا مدلل جواب دے اور اس کی صحیح تعبیر و تفسیر امت کے سامنے پیش کرے۔
٭ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خیر خواہی:
حدیث مبارک میں تیسرے نمبر پر اﷲ کے رسول حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کا برحق رسول اور نبی مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی اور رسول مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ذات کے اعتبار سے انسان اور بشر مانے جب کہ صفت کے اعتبار سے نور ہدایت مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہر قسم کے گناہ سے معصوم مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام انبیاء و رسل علیہم السلام سے افضل مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے روضہ مبارکہ میں زندہ مانے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کثرت کے ساتھ تحفہ درود و سلام بھیجے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کو کامل و مکمل مانے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پر عمل کرے بل کہ آج کے دور میں تو سنتوں کو زندہ کرے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوستوں سے محبت اور دشمنوں سے دشمنی رکھے۔ علوم نبوت کو حاصل کرے اور انہیں پھیلانے کی کوشش کرے۔ روز محشر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کی امید رکھے اور وہ اعمال کرے جن سے آپ کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔
٭ مسلم حکم رانوں کے ساتھ خیر خواہی:
حدیث مبارک میں چوتھے نمبر پر مسلم حکم رانوں کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے عدل و انصاف بل کہ تمام انتظامی امور میں مسلم حکم رانوں کا ساتھ دے۔ حکمت و مصلحت کے ساتھ غیر شرعی کاموں سے دور رکھنے کی کوشش کرے۔ ان کے غلط فیصلوں پر متنبہ کرنے کے لیے وقت کے تقاضے کے مطابق مناسب وقت اور نرم لہجے کا انتخاب کرے۔ مسلم حکم ران ہماری اور ہم ان کی خیر خواہی کے محتاج ہیں۔
٭ عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی:
حدیث مبارک میں پانچویں نمبر پر عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا ذکر ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ان کے دینی و دنیاوی فوائد کی جانب صحیح راہ نمائی کرے۔ دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرے۔ عیوب اور نقائص کو چھپائے۔ ان کے لیے دعائیں کرے۔ ان سے حسن سلوک کرے۔ انہیں لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل نہ کرے۔ ان سے دھوکا، کینہ حسد اور بغض نہ رکھے۔ ان کے بارے غیبت، چغلی، تہمت اور بہتان نہ لگائے۔ زبان اور دیگر اعضاء سے تکلیف نہ پہنچائے۔ انہیں نیکی کی باتوں کی ترغیب اور حکم جب کہ برائی کی باتوں سے روکے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق دیں۔ آمین