ریاکاری کی مذمت
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں
VATICAN CITY:
انسان کی عبادت اور اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیّت خالص ہے تو اعمال اﷲ کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیّت میں کھوٹ ہے یا ریاکاری یا نام و نمود مقصود ہے تو ایسے اعمال بہ جائے قبولیت کے انسان کے لیے موجب وبال بنیں گے۔
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص اﷲ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنّت کے مطابق ہو، ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل قبول نہیں ہوگا۔ ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اﷲ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹا سا عمل بھی اﷲ کے ہاں پہاڑ کے برابر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اﷲ رب العزت نے ریاکاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔'' (سورۃ الکہف) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اﷲ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے۔'' (النساء) ایک اور مقام پر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔'' ( البقرہ)
ان دونوں آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اﷲ سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہوگی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بہ جائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔
احادیث مبارکہ میں بھی ریاکاری کی نبی اکرم ﷺ نے ریاکاری کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم: ''کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں کیوں نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شرک خفی ہے کہ آدمی کھڑا نماز پڑھے تو کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔'' ( سنن ابن ماجہ) دوسری حدیث میں ہے، جب اﷲ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: جس نے اﷲ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اﷲ سے طلب کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔
(سنن الترمذی) ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا: جو شخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا۔ (بخاری)
اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔
انسان کی عبادت اور اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیّت خالص ہے تو اعمال اﷲ کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیّت میں کھوٹ ہے یا ریاکاری یا نام و نمود مقصود ہے تو ایسے اعمال بہ جائے قبولیت کے انسان کے لیے موجب وبال بنیں گے۔
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص اﷲ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنّت کے مطابق ہو، ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل قبول نہیں ہوگا۔ ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اﷲ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹا سا عمل بھی اﷲ کے ہاں پہاڑ کے برابر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اﷲ رب العزت نے ریاکاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔'' (سورۃ الکہف) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اﷲ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے۔'' (النساء) ایک اور مقام پر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔'' ( البقرہ)
ان دونوں آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اﷲ سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہوگی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بہ جائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔
احادیث مبارکہ میں بھی ریاکاری کی نبی اکرم ﷺ نے ریاکاری کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم: ''کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں کیوں نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شرک خفی ہے کہ آدمی کھڑا نماز پڑھے تو کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔'' ( سنن ابن ماجہ) دوسری حدیث میں ہے، جب اﷲ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: جس نے اﷲ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اﷲ سے طلب کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔
(سنن الترمذی) ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا: جو شخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا۔ (بخاری)
اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔