اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے مرزا اسد اللہ غالب کا آج 145واں یوم وفات منایا جارہا ہے
غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے فن پر کمال حاصل تھا۔
اپنی شاعری اور نثر نگاری کی بدولت اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج 145واں یوم وفات منایا جارہا ہے۔
27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا اسد اللہ غالب نے دلی میں پرورش پائی۔ مغل بادشاہ کی جانب سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا، جس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، انہوں نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا تاہم ابتدائی زمانے میں ان کی شاعری میں مہمل گوئی اور فارسی زبان و تراکیب کا عنصر بہت نمایاں رہا لیکن دلی کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے غالب کی شاعری میں ایک جدت پیدا کی۔
غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے فن پر کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری رومانیت، واقعیت، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔ غالب کے اشعار اپنے اندر متعدد معنی لئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کسی ایک ہی شعر کو کئی کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔
غالب بلاشبہ ایک عظیم شاعر ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی مکتوب نگاری میں بھی ان کی حیثیت انشاء پرداز کی سی ہے اور ان خطوط میں ایسا کوئی انداز نظر نہیں آتا کہ ہم انہیں نثر اردو میں ایک جداگانہ صنف کے بطور شمار کرسکیں۔ غالب کی اجتہادی طبیعت نے ان انفرادی تحریروں کو اجتماعی تحریر بنادیا۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی جانب واضح اشارے بھی ملتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے خطوط میں جو سادگی و سلاست پیش نظر رکھی وہ اُن کے فارسی خطوط میں بھی موجود نہیں۔ پھر ان کے حسب موقع اور حسبِ مرتبہ مزاح نے پڑھنے والے کے لئے ان کے خطوط میں دوہری کشش پیدا کردی۔
غالب کو جہان فانی سے کوچ کئے ہوئے آج 145 برس ہوگئے لیکن اپنی شاعری اور نثر میں ااختیار کئے گئے اسلوب کے باعث وہ اب تک کئی نسلوں کو متاثر کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا اسد اللہ غالب نے دلی میں پرورش پائی۔ مغل بادشاہ کی جانب سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا، جس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، انہوں نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا تاہم ابتدائی زمانے میں ان کی شاعری میں مہمل گوئی اور فارسی زبان و تراکیب کا عنصر بہت نمایاں رہا لیکن دلی کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے غالب کی شاعری میں ایک جدت پیدا کی۔
غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے فن پر کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری رومانیت، واقعیت، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔ غالب کے اشعار اپنے اندر متعدد معنی لئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کسی ایک ہی شعر کو کئی کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔
غالب بلاشبہ ایک عظیم شاعر ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی مکتوب نگاری میں بھی ان کی حیثیت انشاء پرداز کی سی ہے اور ان خطوط میں ایسا کوئی انداز نظر نہیں آتا کہ ہم انہیں نثر اردو میں ایک جداگانہ صنف کے بطور شمار کرسکیں۔ غالب کی اجتہادی طبیعت نے ان انفرادی تحریروں کو اجتماعی تحریر بنادیا۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی جانب واضح اشارے بھی ملتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے خطوط میں جو سادگی و سلاست پیش نظر رکھی وہ اُن کے فارسی خطوط میں بھی موجود نہیں۔ پھر ان کے حسب موقع اور حسبِ مرتبہ مزاح نے پڑھنے والے کے لئے ان کے خطوط میں دوہری کشش پیدا کردی۔
غالب کو جہان فانی سے کوچ کئے ہوئے آج 145 برس ہوگئے لیکن اپنی شاعری اور نثر میں ااختیار کئے گئے اسلوب کے باعث وہ اب تک کئی نسلوں کو متاثر کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔