سندھ حکومت دھرنوں سے ہوشیار
میئر کراچی کو بے دست و پا کردیا گیا ہے، جو کام میئر کے کرنے کے ہیں وہ سندھ کے وزیر بلدیات کے حوالے کردیے گئے ہیں
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا ، بالکل ویسی ہی کیفیت اس مظلوم شہرکراچی کی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی حکومتی سرشاری میں محوکراچی میں سب اچھا کا راگ الاپ رہی ہے۔ حکومت سندھ کو وفاقی حکومت کی نااہلی تو نظر آتی ہے اور اس کے خاتمے کے لیے بے چین و بے قرار بھی ہے مگر خود اپنی حکومت کی کارکردگی پر ان کی کوئی نظر نہیں ہے۔
کاش کہ وہ کراچی کے گلی کوچوں کا دورہ کرتے تو انھیں اپنے صوبے کے دارالحکومت کے صحیح احوال کا علم ہو جاتا کہ لوگ کس طرح گندگی کے ماحول میں جی رہے ہیں اور قطرہ قطرہ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔
سب اچھا کی رٹ تو وفاقی حکومت بھی لگا رہی ہے کاش کہ اسے ملک کے کروڑوں عوام کی حالت زار اور پریشانیوں کا ادراک ہو جاتا کہ ان کے لیے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے تو شاید وہ بھی سب اچھا کا نعرہ لگانا بھول جاتی۔ سندھ حکومت کو تو اپنا صوبہ دیکھنا چاہیے۔ کراچی کے عوام کی بلدیاتی حقوق سے محرومی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
کراچی وہ غریب پرور شہر ہے جو پورے پاکستان کے کاروبار حکومت کو چلا رہا ہے ، اس نے تین کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں کو جینے کا سہارا دے رکھا ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کی وہ درگت بنا رکھی ہے کہ بس اب کیا کہا جائے۔ کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے پیپلز پارٹی کے ارباب اقتدار سے ایک عرصے سے محو التماس ہیں کہ کچھ نظر کرم ان کی جانب بھی ہو جائے مگر نظر کرم کرنے کے بجائے ان کے بلدیاتی حقوق کو اور زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔
میئر کراچی کو بے دست و پا کردیا گیا ہے، جو کام میئر کے کرنے کے ہیں وہ سندھ کے وزیر بلدیات کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اصل کام تو قانون سازی ہے پھر وہ تو پہلے ہی مختلف معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ کراچی کے کون کون سے مسئلے پر توجہ دیں اور ان کا حل نکالیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان کو ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے وہ تو اس آزمائش سے بچنے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو ہلکا کرانے کے لیے خود ہی بے چین ہوں گے مگر سندھ کے حکمران یا ان سے بھی اوپر کے لوگ ان کی ذمے داریوں کو کم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان سے مطمئن لگتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں بخیر و خوبی نبھا رہے ہیں اور شاید اسی غلط فہمی کے نتیجے میں نئے بلدیاتی نظام کو پاس کرا کے کئی مزید بلدیاتی ادارے ان کے حوالے کردیے گئے ہیں اور یوں ان کے کاندھوں پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت لاکھ ان کے کام سے مطمئن ہو مگر بلدیاتی مسائل تو حل ہونے کے بجائے روز بہ روز گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں اپنے پارٹی ارکان کی اکثریت کے بل پر پیپلز پارٹی نے نیا بلدیاتی بل آسانی سے پاس کرا لیا تھا۔ حکومت نے اپوزیشن کی مخالفت کی پرواہ ہی نہیں کی حالانکہ اس نے سخت احتجاج کیا تھا اور بلدیاتی بل کی کاپیاں پھاڑکر ریزہ ریزہ کردیں اور چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔
افسوس کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جمہوری اقدارکو دیدہ دلیری سے پامال کیا۔ اس سلسلے میں پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جو اب جگہ جگہ دھرنے دے رہی ہے کاش کہ اسمبلی ہال میں ہی دھرنا دے دیتی ، جماعت اسلامی کے اسمبلی سے باہر طویل دھرنے کی طرح نہ سہی صرف چند گھنٹوں کا ہی دھرنا دے دیتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ حکومت نئے بلدیاتی بل کو پاس کرا پاتی اور اگر بل کو پاس کرا بھی لیا تھا تو اس میں ترمیمات کے لیے ضرور تیار ہو جاتی۔
اب حکومت بل میں کسی بھی قسم کی ترمیم سے پہلو تہی کر رہی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ اب بل میں کسی بھی ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری طرف وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کہہ رہے ہیں کہ بل کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
اس وقت کراچی کی ایک کے سوا تمام ہی سیاسی پارٹیاں نئے بلدیاتی بل کے خلاف محو احتجاج ہیں مگر اب پاک سرزمین پارٹی نے بھی اس بل کے خلاف 30 جنوری کو تبت سینٹر سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک ریلی نکالنے اور وہاں حکومت سندھ کی جانب سے نئے بلدیاتی بل کو واپس لینے تک دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے۔ مصطفیٰ کمال نئے بلدیاتی بل کے خلاف پہلے بھی سخت بیانات دیتے رہے ہیں۔
17 جنوری کو انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں سندھ حکومت کی کراچی سے سوتیلی ماں جیسا برتاؤ کرنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی تھی، انھیں کراچی کا ایک کامیاب میئر کہا جاتا ہے ان کے دور میں کراچی کے تمام ہی بلدیاتی مسائل کو کمال حکمت سے حل کر لیا گیا تھا۔ حکومت سندھ کو اس بل کے خلاف پہلے ہی کئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ اب پی ایس پی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دینے کے اعلان سے حکومت سندھ کو ضرور تشویش ہوئی ہوگی کیونکہ وہ سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کے بجائے سیدھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے دروازے پر لامتناہی دھرنا دینے جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کو سابق جسٹس وجیہہ الدین کی نئے بلدیاتی بل کی بابت سندھ حکومت کی ہٹ دھرمی کے تناظر میں اس ٹویٹ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے جس میں انھوں نے کہا ہے ''آئین پاکستان کی شق A-140 کے خلاف حکومت سندھ کا عوام کو بلدیاتی اختیارات سے محروم رکھنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیساکہ سابق مغربی پاکستان کی وڈیرہ شاہی مشرقی پاکستان کی برابری والی معیشت برداشت نہ کرسکی اور ملک دولخت کر ڈالا۔ لگتا ہے کراچی کی ثقافت سے خوف کھا کر وڈیرے اسے بھی الگ کرکے ہی دم لیں گے۔''
کاش کہ وہ کراچی کے گلی کوچوں کا دورہ کرتے تو انھیں اپنے صوبے کے دارالحکومت کے صحیح احوال کا علم ہو جاتا کہ لوگ کس طرح گندگی کے ماحول میں جی رہے ہیں اور قطرہ قطرہ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔
سب اچھا کی رٹ تو وفاقی حکومت بھی لگا رہی ہے کاش کہ اسے ملک کے کروڑوں عوام کی حالت زار اور پریشانیوں کا ادراک ہو جاتا کہ ان کے لیے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے تو شاید وہ بھی سب اچھا کا نعرہ لگانا بھول جاتی۔ سندھ حکومت کو تو اپنا صوبہ دیکھنا چاہیے۔ کراچی کے عوام کی بلدیاتی حقوق سے محرومی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
کراچی وہ غریب پرور شہر ہے جو پورے پاکستان کے کاروبار حکومت کو چلا رہا ہے ، اس نے تین کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں کو جینے کا سہارا دے رکھا ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کی وہ درگت بنا رکھی ہے کہ بس اب کیا کہا جائے۔ کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے پیپلز پارٹی کے ارباب اقتدار سے ایک عرصے سے محو التماس ہیں کہ کچھ نظر کرم ان کی جانب بھی ہو جائے مگر نظر کرم کرنے کے بجائے ان کے بلدیاتی حقوق کو اور زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔
میئر کراچی کو بے دست و پا کردیا گیا ہے، جو کام میئر کے کرنے کے ہیں وہ سندھ کے وزیر بلدیات کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اصل کام تو قانون سازی ہے پھر وہ تو پہلے ہی مختلف معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ کراچی کے کون کون سے مسئلے پر توجہ دیں اور ان کا حل نکالیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان کو ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے وہ تو اس آزمائش سے بچنے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو ہلکا کرانے کے لیے خود ہی بے چین ہوں گے مگر سندھ کے حکمران یا ان سے بھی اوپر کے لوگ ان کی ذمے داریوں کو کم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان سے مطمئن لگتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں بخیر و خوبی نبھا رہے ہیں اور شاید اسی غلط فہمی کے نتیجے میں نئے بلدیاتی نظام کو پاس کرا کے کئی مزید بلدیاتی ادارے ان کے حوالے کردیے گئے ہیں اور یوں ان کے کاندھوں پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت لاکھ ان کے کام سے مطمئن ہو مگر بلدیاتی مسائل تو حل ہونے کے بجائے روز بہ روز گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں اپنے پارٹی ارکان کی اکثریت کے بل پر پیپلز پارٹی نے نیا بلدیاتی بل آسانی سے پاس کرا لیا تھا۔ حکومت نے اپوزیشن کی مخالفت کی پرواہ ہی نہیں کی حالانکہ اس نے سخت احتجاج کیا تھا اور بلدیاتی بل کی کاپیاں پھاڑکر ریزہ ریزہ کردیں اور چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔
افسوس کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جمہوری اقدارکو دیدہ دلیری سے پامال کیا۔ اس سلسلے میں پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جو اب جگہ جگہ دھرنے دے رہی ہے کاش کہ اسمبلی ہال میں ہی دھرنا دے دیتی ، جماعت اسلامی کے اسمبلی سے باہر طویل دھرنے کی طرح نہ سہی صرف چند گھنٹوں کا ہی دھرنا دے دیتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ حکومت نئے بلدیاتی بل کو پاس کرا پاتی اور اگر بل کو پاس کرا بھی لیا تھا تو اس میں ترمیمات کے لیے ضرور تیار ہو جاتی۔
اب حکومت بل میں کسی بھی قسم کی ترمیم سے پہلو تہی کر رہی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ اب بل میں کسی بھی ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری طرف وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کہہ رہے ہیں کہ بل کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
اس وقت کراچی کی ایک کے سوا تمام ہی سیاسی پارٹیاں نئے بلدیاتی بل کے خلاف محو احتجاج ہیں مگر اب پاک سرزمین پارٹی نے بھی اس بل کے خلاف 30 جنوری کو تبت سینٹر سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک ریلی نکالنے اور وہاں حکومت سندھ کی جانب سے نئے بلدیاتی بل کو واپس لینے تک دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے۔ مصطفیٰ کمال نئے بلدیاتی بل کے خلاف پہلے بھی سخت بیانات دیتے رہے ہیں۔
17 جنوری کو انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں سندھ حکومت کی کراچی سے سوتیلی ماں جیسا برتاؤ کرنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی تھی، انھیں کراچی کا ایک کامیاب میئر کہا جاتا ہے ان کے دور میں کراچی کے تمام ہی بلدیاتی مسائل کو کمال حکمت سے حل کر لیا گیا تھا۔ حکومت سندھ کو اس بل کے خلاف پہلے ہی کئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ اب پی ایس پی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دینے کے اعلان سے حکومت سندھ کو ضرور تشویش ہوئی ہوگی کیونکہ وہ سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کے بجائے سیدھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے دروازے پر لامتناہی دھرنا دینے جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کو سابق جسٹس وجیہہ الدین کی نئے بلدیاتی بل کی بابت سندھ حکومت کی ہٹ دھرمی کے تناظر میں اس ٹویٹ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے جس میں انھوں نے کہا ہے ''آئین پاکستان کی شق A-140 کے خلاف حکومت سندھ کا عوام کو بلدیاتی اختیارات سے محروم رکھنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیساکہ سابق مغربی پاکستان کی وڈیرہ شاہی مشرقی پاکستان کی برابری والی معیشت برداشت نہ کرسکی اور ملک دولخت کر ڈالا۔ لگتا ہے کراچی کی ثقافت سے خوف کھا کر وڈیرے اسے بھی الگ کرکے ہی دم لیں گے۔''