علمی نشاۃ ثانیہ کی ضرورت
علمی شفافیت، دانشورانہ اہلیت اور سنجیدگی کی نئی صبح بھی طلوع ہو، ملک ایک نئے علمی اور تدریسی انقلاب سے آشنا ہو جائے
اومیکرون ویرینٹ کے پھیلاؤ کی وجہ سے پاکستان بھر میں پانچویں لہر کے دوران کورونا وبا خوفناک شکل اختیار کرنے لگی ہے۔ گزشتہ روز مزید23 شہری زندگی کی بازی ہار گئے۔ مثبت کیسز کی یومیہ شرح12.93 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے زیادہ کورونا شرح والے تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے، مساجد اور عبادت گاہوں سے متعلق نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔ این سی اوسی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں طلبا میں پھیلنے والی اومیکرون بیماری کا پتہ لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اومیکرون سے متاثرہ زیادہ بیماری والے شہروں میں اگلے دو ہفتوں کے لیے تعلیمی اداروں میں جارحانہ ٹیسٹنگ کی جائے گی۔
بظاہر ملک میں ایک موسمیاتی لہر کے خطرات نے نظام تعلیم اور معمولات زندگی کو شدید متاثر کر دیا ہے، گزشتہ کئی روز سے وفاقی وزارت تعلیم میں کورونا اور اومیکرون کے باعث ایک سراسیمگی پھیل چکی تھی، محسوس یہ ہونے لگا تھا کہ ملکی نظام تعلیم کو شدید انقلاب اور بنیادی امتحانی تبدیلیوں سے گزارا جائے گا، اہم اجلاس کے اشارے دیے جا رہے تھے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے ساتھ وزارت تعلیم کے رابطوں اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتوں میں کورونا کے باعث اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ملکی تعلیمی ڈھانچہ کو غیر معمولی خدشات نے گھیر لیا ہے، پرائمری، ثانوی، اعلیٰ تعلیمی امتحانات اور نصاب میں نہ صرف تبدیلیوں کے فیصلے کیے جائیں گے لیکن ملک کے فہمیدہ حلقوں نے کورونا کی پانچویں لہر کے نتیجہ میں ہونیوالے فیصلوں اور اقدامات کو ایک ناقابل بیان پالیسی ''بلاسٹ'' سے تعبیر کیا ہے۔
علمی و تدریسی حلقوں نے نظام تعلیم اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ تعلیمی اداروں سے وابستہ لاکھوں ناپختہ عمر بچے ایک بے منزل تعلیم صنم کدہ میں محبوس قیدیوں کی صورت اختیار کرگئے ہیں جنھیں پتا نہیں ہے کہ انھیں کب، کس وقت کن اقدامات کے باعث نئے تعلیمی قوانین کے سپرد کیا جائے گا۔
حقیقت میں کورونا اور اومیکرون نے تعلیمی اداروں، درسگاہوں یا مادر علمی کی تدریسی مرکزیت کو مختلف اقدامات کے ساتھ اپنے نصب العین سے دور ہٹا دیا ہے، ملک میں بے ہنگم سیاسی ماحول اور ادارہ جاتی زوال کے باعث کوئی بھی حکمت عملی عوام کی فہم سے بالاتر ہے، لوگ سمجھ نہیں پا رہے کہ ان کے بچے کس قسم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا مستقبل کیا؟
امتحانات کی معقولیت اور سچائی نقل مافیا، پرچے آوٹ کرانے اور پرچوں پر زائد نمبر لگوانے والے بااثر مافیا کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، سرکاری ملازمتیں قابل فروخت بنا دی گئی ہیں، اب تو اشرفیہ کے نالائق بچے سرکاری ملازمتوں پر بھی اپنا حق منوا چکے ہیں جب کہ اہل اور لائق بچوں کو نہ ملازمتیں ملتی ہیں اور نہ ان کی اہلیت کی پذیرائی ممکن ہے، ملک کے معروف ماہرین تعلیم اس المیہ کا اپنے تحقیقی مضامین میں شکوہ کر چکے ہیں کہ ہماری جامعات میں پی ایچ ڈی کی سطح کے لوگ چوری چکاری اور سرقہ نویسی سے سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں، ملک میں ایک اور یکساں نصاب کے تحت تعلیم دینے کی نظریاتی باتیں ہو رہی ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ روشن ضمیری اور خرد افروزی پر مبنی یک نصابی تدریس و تعلیم کو یقینی بنائے بغیر سرقہ، چیٹنگ، دروغ گوئی ، نقل نویسی اور اقربا پروری پورے ریاستی نظام کو ملیا میٹ کر سکتی ہے کیونکہ امتحانی نظام بھی بااثر اور متمول طبقات کے دسترس میں آگیا ہے جس کی وجہ سے امتحانی نظام پہلے ہی بے اعتبار کر چکا ہے، کوئی سسٹم اب تعلیمی نظام کو بے آبروئی سے نہیں بچا سکتا، با اثر طبقات فراڈ، جعلسازی اور غیر شفاف ذرایع سے سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں اور لائق و ذہین نوجوانوں کا حق مارتے ہیں، اپنے اثر و رسوخ سے ملازمتیں حاصل کرنے کی انھیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔
علمی ماحول میں دھونس، دھمکی اور دھاندلی کا سکہ چلتا ہے، بعض سیاسی افراد کسی سنجیدہ سرگرمی کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ اپنی موروثی طاقت، عہدہ اور منصب کے باعث کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، اعلیٰ ملازمتوں کے لیے جو مقابلہ کا مسابقتی معیار ہے اس پر بھی امرا، مفاد پرستوں اور با اثر افراد کی اجارہ داری ہے، عملاً تعلیمی ڈھانچہ اس نالائق لیکن بااثر طبقے کے قبضے میں ہے جو درس و تدریس کے فیصلے کرنے میں خود مختار ہے، یہی لوگ یونیورسٹییز کے وائس چانسلروں، پروفیسروں اور قانون وضوابط اور اصول کے پابند افسروں کو دھمکاتے اور پرکشش مراعات کا لالچ دیتے ہیں، امیر طالب علم اپنے با اثر والدین کو استعمال کرتے ہیں۔
کوئی تعلیمی ڈھانچہ معیار، محنت، علمی لیاقت اور سنجیدگی کی کمٹمنٹ کے ساتھ ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرتا، مالی ، جامعات اور اس سے باہر نجی درسگاہوں میں ایسے گروپس موجود ہیں جو کام ڈیمانڈ پر مکمل کر کے دیتے ہیں، پرچے پورے کرانے ہوں وہ کام بھی گھر پر مل جاتا ہے، یہ کیسا نظام تدریس و تعلیم ہے؟ ذرایع کے مطابق بعض سرکاری اداروں اور شعبوں نے خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے جو طریقہ کار بنا رکھا ہے، اس میں جوابدہی اور شفافیت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
شفافیت کے بغیر کوئی سسٹم نتائج نہیں دے سکتا، تدریس سے وابستہ شخصیات نے اپنے مضامین میں ایجوکیشن کی عملی حقیقت، معروضیت اور معقولیت پر اعتراضات اٹھائے ہیں، ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا کو ان کی ذہانت کے بل بوتے پر جاب نہیں ملتی، سفیدپوش طبقات سے تعلق رکھنے طلبا اور طالبات ڈگریاں لے کر ملازمتوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، ملک کی ترقی میرٹ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔
ماہرین تعلیم نے موجودہ نظام تعلیم کو ملکی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن اس جانب موجودہ حکومت نے بھی جو کچھ کیا ہے یا کرنا چاہتی ہے ، اس دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود نصاب تعلیم میں رجعت پسند سوچ اور نظریات کو پروان چڑھایا جارہا ہے ۔دوسری جانب جو تبدیلیاں آئے روز کورونا کے باعث ہو رہی ہیں ان سے تعلیمی ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہوگیا ہے، بچوں کی محویت متاثر ہوگئی ہے، ان کی تعلیم میں مرکزیت نام کی کوئی چیز نہیں رہی، وہ فکری تشنگی اور علمی طور پر دولے شاہ کے چوہے بن کر رہ گئے ہیں۔
جو تعلیم ہمارے ارباب اختیار غریب اور محنتی بچوں کو اس خیال اور امید کے ساتھ دلوا رہے ہیں کہ انھیں یہ علمی میراث میرٹ، علم دوستی، فکری اور نظری وسعت کے ذریعے مل رہی ہے تو وہ مغالطے پر مبنی ہے، پہلے حکومت اپنا قبلہ درست کرے، انتظامی فیصلوں میں حقیقت پسندی کو ملحوظ رکھے، ان ہاتھوں کو روکے جو تعلیمی تقدس کو نیلام کر رہے ہیں، طالب علموں کو سکون قلب کے ساتھ علمی و تفریحی مشاغل میں مصروف رکھے، سرکاری ملازمتوں کے لیے اہل امیدواروں سے امتحان اور انٹرویو کے نام پر مذاق بند کیا جائے، اگر ملازمتیں میرٹ پر نہیں ملیں گی تو سول سروس کا پہلے ہی زوال پذیر ڈھانچہ زمین بوس ہوجائے گا۔
یہ المیہ ہے کہ کورونا اور امیکرون کے شور میں، ایک بار پھر پاکستان معاشی و اقتصادی طور پر قرون اولیٰ کے دور میں پہنچنے کے سفر پر رواں دواں ہے، دنیا پاکستانی عوام کی استقامت کے گیت گاتی رہی اور کورونا نے چپکے سے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے، سب چہرے پر ماسک لگا کر ''بے چہرہ'' ہو گئے ہیں، لاک ڈاؤن کا زمانہ آگیا ہے، کہاں گئیں وہ کوششیں، وہ انفرا اسٹرکچر، تعلیم اور صحت سسٹم کی کامیابیاں؟
حکومت نظام تعلیم پر ناقدین اور نکتہ وروں کے اعتراضات پر سنجیدگی سے غور وفکر کرے، یہ قوم کی تعلیم، اخلاقی ورثہ اور فکر ونظر کے مستقبل کا معاملہ ہے، کوشش کریں کہ کم از کم نظام تعلیم کو دلدل سے نکالیں، علمی سرگرمی ایک تقدس مآب سرگرمی ہے، اسے رسوا ہونے سے بچائیں۔ نئی نسل کو ذہنی خلفشار سے دور رکھیں، پاکستان کے معصوم بچے اور نوجوان اچھی تعلیم سے تو محروم نہ رہیں۔
حکام کے مطابق زیادہ شرح کے حامل تعلیمی ادارے، سیکشنزکے ساتھ مخصوص کلاسیں ایک ہفتے کے لیے بند رہیں گی۔ صوبائی حکومتیں محکمہ تعلیم و صحت کے حکام کے ساتھ مشاورت سے بندشوں کا فیصلہ کرنے کے لیے حد مقرر کریں گی، اسی طرح این سی او سی نے مساجد اور عبادت گاہوں میں داخلے کے لیے مکمل ویکسینیشن لازمی قرار دیا ہے۔
اہل وطن تو چاہتے ہیں کہ تعلیمی نشاۃ ثانیہ کا عہد جلد شروع ہو، اسی کے ساتھ علمی شفافیت، دانشورانہ اہلیت اور سنجیدگی کی نئی صبح بھی طلوع ہو، ملک ایک نئے علمی اور تدریسی انقلاب سے آشنا ہو جائے۔ ماحول پر سے پراگندگی و پژمردگی کا خاتمہ ہو جائے، علمیت سے محبت و وابستگی کے نئے دور کا آغاز ہو۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے زیادہ کورونا شرح والے تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے، مساجد اور عبادت گاہوں سے متعلق نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔ این سی اوسی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں طلبا میں پھیلنے والی اومیکرون بیماری کا پتہ لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اومیکرون سے متاثرہ زیادہ بیماری والے شہروں میں اگلے دو ہفتوں کے لیے تعلیمی اداروں میں جارحانہ ٹیسٹنگ کی جائے گی۔
بظاہر ملک میں ایک موسمیاتی لہر کے خطرات نے نظام تعلیم اور معمولات زندگی کو شدید متاثر کر دیا ہے، گزشتہ کئی روز سے وفاقی وزارت تعلیم میں کورونا اور اومیکرون کے باعث ایک سراسیمگی پھیل چکی تھی، محسوس یہ ہونے لگا تھا کہ ملکی نظام تعلیم کو شدید انقلاب اور بنیادی امتحانی تبدیلیوں سے گزارا جائے گا، اہم اجلاس کے اشارے دیے جا رہے تھے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے ساتھ وزارت تعلیم کے رابطوں اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتوں میں کورونا کے باعث اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ملکی تعلیمی ڈھانچہ کو غیر معمولی خدشات نے گھیر لیا ہے، پرائمری، ثانوی، اعلیٰ تعلیمی امتحانات اور نصاب میں نہ صرف تبدیلیوں کے فیصلے کیے جائیں گے لیکن ملک کے فہمیدہ حلقوں نے کورونا کی پانچویں لہر کے نتیجہ میں ہونیوالے فیصلوں اور اقدامات کو ایک ناقابل بیان پالیسی ''بلاسٹ'' سے تعبیر کیا ہے۔
علمی و تدریسی حلقوں نے نظام تعلیم اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ تعلیمی اداروں سے وابستہ لاکھوں ناپختہ عمر بچے ایک بے منزل تعلیم صنم کدہ میں محبوس قیدیوں کی صورت اختیار کرگئے ہیں جنھیں پتا نہیں ہے کہ انھیں کب، کس وقت کن اقدامات کے باعث نئے تعلیمی قوانین کے سپرد کیا جائے گا۔
حقیقت میں کورونا اور اومیکرون نے تعلیمی اداروں، درسگاہوں یا مادر علمی کی تدریسی مرکزیت کو مختلف اقدامات کے ساتھ اپنے نصب العین سے دور ہٹا دیا ہے، ملک میں بے ہنگم سیاسی ماحول اور ادارہ جاتی زوال کے باعث کوئی بھی حکمت عملی عوام کی فہم سے بالاتر ہے، لوگ سمجھ نہیں پا رہے کہ ان کے بچے کس قسم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا مستقبل کیا؟
امتحانات کی معقولیت اور سچائی نقل مافیا، پرچے آوٹ کرانے اور پرچوں پر زائد نمبر لگوانے والے بااثر مافیا کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، سرکاری ملازمتیں قابل فروخت بنا دی گئی ہیں، اب تو اشرفیہ کے نالائق بچے سرکاری ملازمتوں پر بھی اپنا حق منوا چکے ہیں جب کہ اہل اور لائق بچوں کو نہ ملازمتیں ملتی ہیں اور نہ ان کی اہلیت کی پذیرائی ممکن ہے، ملک کے معروف ماہرین تعلیم اس المیہ کا اپنے تحقیقی مضامین میں شکوہ کر چکے ہیں کہ ہماری جامعات میں پی ایچ ڈی کی سطح کے لوگ چوری چکاری اور سرقہ نویسی سے سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں، ملک میں ایک اور یکساں نصاب کے تحت تعلیم دینے کی نظریاتی باتیں ہو رہی ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ روشن ضمیری اور خرد افروزی پر مبنی یک نصابی تدریس و تعلیم کو یقینی بنائے بغیر سرقہ، چیٹنگ، دروغ گوئی ، نقل نویسی اور اقربا پروری پورے ریاستی نظام کو ملیا میٹ کر سکتی ہے کیونکہ امتحانی نظام بھی بااثر اور متمول طبقات کے دسترس میں آگیا ہے جس کی وجہ سے امتحانی نظام پہلے ہی بے اعتبار کر چکا ہے، کوئی سسٹم اب تعلیمی نظام کو بے آبروئی سے نہیں بچا سکتا، با اثر طبقات فراڈ، جعلسازی اور غیر شفاف ذرایع سے سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں اور لائق و ذہین نوجوانوں کا حق مارتے ہیں، اپنے اثر و رسوخ سے ملازمتیں حاصل کرنے کی انھیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔
علمی ماحول میں دھونس، دھمکی اور دھاندلی کا سکہ چلتا ہے، بعض سیاسی افراد کسی سنجیدہ سرگرمی کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ اپنی موروثی طاقت، عہدہ اور منصب کے باعث کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، اعلیٰ ملازمتوں کے لیے جو مقابلہ کا مسابقتی معیار ہے اس پر بھی امرا، مفاد پرستوں اور با اثر افراد کی اجارہ داری ہے، عملاً تعلیمی ڈھانچہ اس نالائق لیکن بااثر طبقے کے قبضے میں ہے جو درس و تدریس کے فیصلے کرنے میں خود مختار ہے، یہی لوگ یونیورسٹییز کے وائس چانسلروں، پروفیسروں اور قانون وضوابط اور اصول کے پابند افسروں کو دھمکاتے اور پرکشش مراعات کا لالچ دیتے ہیں، امیر طالب علم اپنے با اثر والدین کو استعمال کرتے ہیں۔
کوئی تعلیمی ڈھانچہ معیار، محنت، علمی لیاقت اور سنجیدگی کی کمٹمنٹ کے ساتھ ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرتا، مالی ، جامعات اور اس سے باہر نجی درسگاہوں میں ایسے گروپس موجود ہیں جو کام ڈیمانڈ پر مکمل کر کے دیتے ہیں، پرچے پورے کرانے ہوں وہ کام بھی گھر پر مل جاتا ہے، یہ کیسا نظام تدریس و تعلیم ہے؟ ذرایع کے مطابق بعض سرکاری اداروں اور شعبوں نے خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے جو طریقہ کار بنا رکھا ہے، اس میں جوابدہی اور شفافیت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
شفافیت کے بغیر کوئی سسٹم نتائج نہیں دے سکتا، تدریس سے وابستہ شخصیات نے اپنے مضامین میں ایجوکیشن کی عملی حقیقت، معروضیت اور معقولیت پر اعتراضات اٹھائے ہیں، ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا کو ان کی ذہانت کے بل بوتے پر جاب نہیں ملتی، سفیدپوش طبقات سے تعلق رکھنے طلبا اور طالبات ڈگریاں لے کر ملازمتوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، ملک کی ترقی میرٹ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔
ماہرین تعلیم نے موجودہ نظام تعلیم کو ملکی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن اس جانب موجودہ حکومت نے بھی جو کچھ کیا ہے یا کرنا چاہتی ہے ، اس دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود نصاب تعلیم میں رجعت پسند سوچ اور نظریات کو پروان چڑھایا جارہا ہے ۔دوسری جانب جو تبدیلیاں آئے روز کورونا کے باعث ہو رہی ہیں ان سے تعلیمی ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہوگیا ہے، بچوں کی محویت متاثر ہوگئی ہے، ان کی تعلیم میں مرکزیت نام کی کوئی چیز نہیں رہی، وہ فکری تشنگی اور علمی طور پر دولے شاہ کے چوہے بن کر رہ گئے ہیں۔
جو تعلیم ہمارے ارباب اختیار غریب اور محنتی بچوں کو اس خیال اور امید کے ساتھ دلوا رہے ہیں کہ انھیں یہ علمی میراث میرٹ، علم دوستی، فکری اور نظری وسعت کے ذریعے مل رہی ہے تو وہ مغالطے پر مبنی ہے، پہلے حکومت اپنا قبلہ درست کرے، انتظامی فیصلوں میں حقیقت پسندی کو ملحوظ رکھے، ان ہاتھوں کو روکے جو تعلیمی تقدس کو نیلام کر رہے ہیں، طالب علموں کو سکون قلب کے ساتھ علمی و تفریحی مشاغل میں مصروف رکھے، سرکاری ملازمتوں کے لیے اہل امیدواروں سے امتحان اور انٹرویو کے نام پر مذاق بند کیا جائے، اگر ملازمتیں میرٹ پر نہیں ملیں گی تو سول سروس کا پہلے ہی زوال پذیر ڈھانچہ زمین بوس ہوجائے گا۔
یہ المیہ ہے کہ کورونا اور امیکرون کے شور میں، ایک بار پھر پاکستان معاشی و اقتصادی طور پر قرون اولیٰ کے دور میں پہنچنے کے سفر پر رواں دواں ہے، دنیا پاکستانی عوام کی استقامت کے گیت گاتی رہی اور کورونا نے چپکے سے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے، سب چہرے پر ماسک لگا کر ''بے چہرہ'' ہو گئے ہیں، لاک ڈاؤن کا زمانہ آگیا ہے، کہاں گئیں وہ کوششیں، وہ انفرا اسٹرکچر، تعلیم اور صحت سسٹم کی کامیابیاں؟
حکومت نظام تعلیم پر ناقدین اور نکتہ وروں کے اعتراضات پر سنجیدگی سے غور وفکر کرے، یہ قوم کی تعلیم، اخلاقی ورثہ اور فکر ونظر کے مستقبل کا معاملہ ہے، کوشش کریں کہ کم از کم نظام تعلیم کو دلدل سے نکالیں، علمی سرگرمی ایک تقدس مآب سرگرمی ہے، اسے رسوا ہونے سے بچائیں۔ نئی نسل کو ذہنی خلفشار سے دور رکھیں، پاکستان کے معصوم بچے اور نوجوان اچھی تعلیم سے تو محروم نہ رہیں۔
حکام کے مطابق زیادہ شرح کے حامل تعلیمی ادارے، سیکشنزکے ساتھ مخصوص کلاسیں ایک ہفتے کے لیے بند رہیں گی۔ صوبائی حکومتیں محکمہ تعلیم و صحت کے حکام کے ساتھ مشاورت سے بندشوں کا فیصلہ کرنے کے لیے حد مقرر کریں گی، اسی طرح این سی او سی نے مساجد اور عبادت گاہوں میں داخلے کے لیے مکمل ویکسینیشن لازمی قرار دیا ہے۔
اہل وطن تو چاہتے ہیں کہ تعلیمی نشاۃ ثانیہ کا عہد جلد شروع ہو، اسی کے ساتھ علمی شفافیت، دانشورانہ اہلیت اور سنجیدگی کی نئی صبح بھی طلوع ہو، ملک ایک نئے علمی اور تدریسی انقلاب سے آشنا ہو جائے۔ ماحول پر سے پراگندگی و پژمردگی کا خاتمہ ہو جائے، علمیت سے محبت و وابستگی کے نئے دور کا آغاز ہو۔