پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کم ہونا چاہیے
ٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹر موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں
حکومت نے دو روز قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کیا ، پٹرول کی قیمت میں تھوڑی کمی جب کہ ڈیزل اورہائی اوکٹین کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پٹرول کی قیمت4.65 روپے کمی کے بعد 99.90 روپے فی لٹر ہو گئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت 3.39 روپے اضافے کے بعد 115.52روپے اور ہائی اوکٹین کی قیمت3.27 روپے اضافے کے بعد 136.46 روپے فی لٹر ہو گئی ہے۔ دریں اثنا سیکریٹری پٹرولیم وقار مسعود نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کو بتایا ہے کہ حکومت پٹرول پر 23.78 روپے جب کہ ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن کے اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو روک سکتی ہے مگر اس نے تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دیا جس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے باعث تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں از خود ہی اضافہ ہو جاتا ہے۔ وزارت پٹرولیم کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پٹرولیم کی درآمدی قیمت 68.21 روپے ہے جس پر 10 روپے پٹرولیم لیوی اور 13.78 روپے جی ایس ٹی کے علاوہ ریٹیلر کمیشن اور دیگر مدات میں 7.80 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
اس طرح ڈیزل کی درآمدی قیمت 79.81 روپے ہے جس پر مختلف ٹیکس ڈال کر اس کی قیمت فروخت 115.52 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے حکام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات پر ان کی قیمت خرید کا صرف 24 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ان کے بقول ان کے دنیا کے دیگر تمام ممالک کی نسبت پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سب سے کم ٹیکس وصول کرنے والا ملک ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے کہ اگر ان کی قیمتوں میں معمولی سا اضافہ بھی ہوتا ہے تو اس کا اثر تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں پڑتا ہے جب کہ دوسری اشیاء میں اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے نہیں ہوتا بلکہ ٹرانسپورٹر موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں جب کہ دیگر کاروباری طبقہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اپنی مرضی کا اضافہ کر دیتا ہے حتیٰ کہ گوداموں میں پڑے مال کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں جن کو یا تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگر کوئی ہے تو غالبا مک مکا ہو جاتا ہو گا۔ اس کا جواز بھی خود حکومت انھیں مہیا کرتی ہے۔
اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرنے کے بجائے کچھ مناسب مدت کے لیے قیمتوں کو منجمد کر دے تو اس طرح دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تاجروں کی طرف سے من مانے اضافے کا جواز نہیں رہے گا۔
پٹرول کی قیمت4.65 روپے کمی کے بعد 99.90 روپے فی لٹر ہو گئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت 3.39 روپے اضافے کے بعد 115.52روپے اور ہائی اوکٹین کی قیمت3.27 روپے اضافے کے بعد 136.46 روپے فی لٹر ہو گئی ہے۔ دریں اثنا سیکریٹری پٹرولیم وقار مسعود نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کو بتایا ہے کہ حکومت پٹرول پر 23.78 روپے جب کہ ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن کے اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو روک سکتی ہے مگر اس نے تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دیا جس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے باعث تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں از خود ہی اضافہ ہو جاتا ہے۔ وزارت پٹرولیم کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پٹرولیم کی درآمدی قیمت 68.21 روپے ہے جس پر 10 روپے پٹرولیم لیوی اور 13.78 روپے جی ایس ٹی کے علاوہ ریٹیلر کمیشن اور دیگر مدات میں 7.80 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
اس طرح ڈیزل کی درآمدی قیمت 79.81 روپے ہے جس پر مختلف ٹیکس ڈال کر اس کی قیمت فروخت 115.52 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے حکام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات پر ان کی قیمت خرید کا صرف 24 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ان کے بقول ان کے دنیا کے دیگر تمام ممالک کی نسبت پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سب سے کم ٹیکس وصول کرنے والا ملک ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے کہ اگر ان کی قیمتوں میں معمولی سا اضافہ بھی ہوتا ہے تو اس کا اثر تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں پڑتا ہے جب کہ دوسری اشیاء میں اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے نہیں ہوتا بلکہ ٹرانسپورٹر موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں جب کہ دیگر کاروباری طبقہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اپنی مرضی کا اضافہ کر دیتا ہے حتیٰ کہ گوداموں میں پڑے مال کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں جن کو یا تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگر کوئی ہے تو غالبا مک مکا ہو جاتا ہو گا۔ اس کا جواز بھی خود حکومت انھیں مہیا کرتی ہے۔
اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرنے کے بجائے کچھ مناسب مدت کے لیے قیمتوں کو منجمد کر دے تو اس طرح دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تاجروں کی طرف سے من مانے اضافے کا جواز نہیں رہے گا۔