غذا میں کیمیائی اجزا اور آلودگی معلوم کرنے والا اسمارٹ فون سینسر
مینٹی اسپیکٹرا اسٹار ٹ اپ نے انفراریڈ سینسر بنایا ہے جو غذائی اشیا کی آلودگی اور زرعی تحقیق میں استعمال ہوسکتا ہے
RAWALPINDI:
سائنسدانوں نے ایک وسیع انفراریڈ سینسر کو اتنا مختصر کردیا ہے جو اسمارٹ فون میں لگاکر صنعتی، غذائی اور زرعی جانچ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نیچرکمیونکیشن میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اسے بنانا بہت آسان ہے جو پلاسٹک اور دودھ وغیرہ میں کیمیائی اجزا کی فوری شناخت کرلیتا ہے۔
ہماری آنکھ کے خلیات ہمیں غذا کے بارے میں خوب احساس دیتےہیں۔ اسٹرابری کا سرخ رنگ بتاتا ہے کہ یہ کھانے کے لیے تیار ہے جبکہ سبز اسٹرابری کچی ہوتی ہے۔ لیکن انسانی آنکھ کی اپنی حدود ہیں اور ہم بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) یا زیریں سرخ (انفراریڈ) نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہم یہ روشنیاں دیکھ سکیں تو ہم بہت سے آلودگیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
آئنڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ کیلی ہیکل اور ان کے ساتھیوں نے یہ جدید سینسر بنایا ہے جو عام فون میں سماسکتا ہے۔ اسے مینٹس شرمپ نامی سمندری جانور کی آنکھ سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا ہے جو فوری طور پر انفراریڈ اور دیگر ایسی روشنیوں کو دکھاتا ہے جو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
یہ سینسر بہت جدید، تیاری میں آسان اور انتہائی کم قیمت کا حامل بھی ہے۔ لیکن اس پر مسلسل کئی برس سے تحقیق جاری تھی۔ اس کی تیاری 'مینٹی اسپیکٹرا' نامی اسٹارٹ اپ نے کی ہے۔ روایتی اسپیکٹرومیٹر کے مقابلے میں یہ بہت مؤثر انداز میں دودھ میں آلودگی اور چکنائیوں کا سراغ لگاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کے پلاسٹک کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔
مینٹی اسپیکٹرا کو زراعت، پروسیس کنٹرول یا پھر دیگر امور میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اس سے پھلوں کے پکنے اور غذائیت کا احساس کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اسے بہت آسانی سے ایک اسمارٹ فون میں رکھا جاسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے ایک وسیع انفراریڈ سینسر کو اتنا مختصر کردیا ہے جو اسمارٹ فون میں لگاکر صنعتی، غذائی اور زرعی جانچ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نیچرکمیونکیشن میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اسے بنانا بہت آسان ہے جو پلاسٹک اور دودھ وغیرہ میں کیمیائی اجزا کی فوری شناخت کرلیتا ہے۔
ہماری آنکھ کے خلیات ہمیں غذا کے بارے میں خوب احساس دیتےہیں۔ اسٹرابری کا سرخ رنگ بتاتا ہے کہ یہ کھانے کے لیے تیار ہے جبکہ سبز اسٹرابری کچی ہوتی ہے۔ لیکن انسانی آنکھ کی اپنی حدود ہیں اور ہم بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) یا زیریں سرخ (انفراریڈ) نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہم یہ روشنیاں دیکھ سکیں تو ہم بہت سے آلودگیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
آئنڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ کیلی ہیکل اور ان کے ساتھیوں نے یہ جدید سینسر بنایا ہے جو عام فون میں سماسکتا ہے۔ اسے مینٹس شرمپ نامی سمندری جانور کی آنکھ سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا ہے جو فوری طور پر انفراریڈ اور دیگر ایسی روشنیوں کو دکھاتا ہے جو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
یہ سینسر بہت جدید، تیاری میں آسان اور انتہائی کم قیمت کا حامل بھی ہے۔ لیکن اس پر مسلسل کئی برس سے تحقیق جاری تھی۔ اس کی تیاری 'مینٹی اسپیکٹرا' نامی اسٹارٹ اپ نے کی ہے۔ روایتی اسپیکٹرومیٹر کے مقابلے میں یہ بہت مؤثر انداز میں دودھ میں آلودگی اور چکنائیوں کا سراغ لگاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کے پلاسٹک کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔
مینٹی اسپیکٹرا کو زراعت، پروسیس کنٹرول یا پھر دیگر امور میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اس سے پھلوں کے پکنے اور غذائیت کا احساس کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اسے بہت آسانی سے ایک اسمارٹ فون میں رکھا جاسکتا ہے۔