کورونا کی نئی لہر
قدرتی مصائب کا مقابلہ تنظیم، نظم و ضبط کے ساتھ نہیں کیا جاتا بلکہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کیا جاتا ہے
PESHAWAR:
کورونا ایسی خطرناک بیماری ہے جس سے عام آدمی دہشت زدہ ہو جاتا ہے، ہماری بڑی کمزوری یہ ہے کہ نہ صرف اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے نہ پوری تیاری کی گئی ہے نہ ممکنہ متاثرین کو وہ سہولتیں فراہم کی گئیں جو اس وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اس سے قبل عوام کو جب کورونا کا سامنا ہوا تو نظم و ضبط کا فقدان تھا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف متاثرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ نقصان ضرورت سے زیادہ ہوا۔
قدرتی مصائب کا مقابلہ تنظیم، نظم و ضبط کے ساتھ نہیں کیا جاتا بلکہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نقصان اندازے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ، کم ازکم اس بار ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایسی پالیسی بنائی جائے کہ متاثرین کو کم سے کم نقصان ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ اس حوالے سے نظم و ضبط کا قائم رکھنا ہے۔ کراچی تین کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کا ایک سمندر ہے اور اتنی بڑی آبادی والے شہر میں اس قسم کی آفتوں سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ماضی کے تجربات اس حوالے سے بڑے تلخ ہیں حکومت کوئی مرکزی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک واضح پلان پالیسی بنائی جائے، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عام آدمی ان مصائب سے خوف زدہ تو ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کی منظم کوشش نہیں کرتا، وجہ یہ ہے کہ عوام میں اجتماعی شعور بیدار نہیں کیا جاتا یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کئی مواقعوں پر ایسی افراتفری کے مظاہرے کیے گئے جس سے بہت نقصان ہوا۔
اس حوالے سے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مہنگائی کے حالات میں وہ ڈسپلن کام نہیں کرتا بلکہ عموماً افراتفری بڑھ جاتی ہے۔ بے چارہ غریب آدمی جو ان بیماریوں کے نقصانات سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا زیادہ نقصان اٹھاتا ہے۔ کراچی شہر کو لے لیں یہ کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے اور وہ حصے جو نسبتاً بہتر پوزیشن میں ہے ان مصائب سے زیادہ اعتماد کے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اہل سیاست دو ذمے داریاں پوری نہیں کر پاتے اور ذاتی مفادات کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جس کا نتیجہ افراتفری کی شکل میں نکلتا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق ملک خصوصاً کراچی شہر میں تیزی سے کورونا ڈیرے جما رہا ہے اگر اسی موقع پر کورونا کی موثر روک تھام نہ کی جائے تو یہ بلا انسانی جانوں کے لیے غیر معمولی نقصان دے ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر کوئی کام منظم اور منصوبہ بند طریقے سے نہیں کیے جاتے جس کا نتیجہ افرا تفریح اور بے فائدہ دوڑ بھاگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کراچی میں ویسے تو ایک سے زیادہ ادارے ایسے ہیں جو اس قسم کے مسائل سے نمٹتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں مرکزیت نہیں ہوتی جس کا نتیجہ افرا تفری کی شکل میں نکلتا ہے۔ ان کمزوریوں پر جب تک قابو نہیں پایا جائے گا۔ عوام کو کورونا جیسی بیماریوں کے نقصانات سے بچایا نہیں جاسکتا یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اس حوالے سے گائیڈ لائن فراہم کریں۔
کورونا ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جس کا شکار مشکل سے بچ پاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں اس قسم کی بیماریوں سے لوگ بہت محتاط رہتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ طبقوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر طبقہ اپنی کوششوں سے اپنے بچاؤ کے لیے راستہ تلاش کرتا ہے۔ تیز طرار لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے متعلقین کو کورونا کی مشکلات سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس قسم کے کام اصول کے تحت نہیں ہوتے ، اگر ایسا ہوتا تو عام آدمی کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو وہ عرصے سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ ماضی میں کورونا کے حوالے سے جس غفلت کا مظاہرہ دیکھا گیا وہ انتہائی شرم ناک تھا،کورونا ایک قاتل اور دہشت ناک بیماری ہے۔
اس کا نام سن کر ہی عام آدمی نروس ہو جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ غریب بستیوں میں پہلے تو کورونا کا خوف عوام کے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ عوام کو اس سے نجات دلائیں چونکہ خوف انسانوں کی کارکردگی کو متاثر کر دیتا ہے۔ پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے ، جہاں 80 فیصد سے زیادہ عوام اس قسم کی بیماریوں سے واقف ہی نہیں حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر علاقے میں عوام کی آگاہی کے لیے منظم کوشش کرے اور سرکاری ادارے ان کوششوں کی حمایت کریں۔
کورونا ایسی خطرناک بیماری ہے جس سے عام آدمی دہشت زدہ ہو جاتا ہے، ہماری بڑی کمزوری یہ ہے کہ نہ صرف اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے نہ پوری تیاری کی گئی ہے نہ ممکنہ متاثرین کو وہ سہولتیں فراہم کی گئیں جو اس وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اس سے قبل عوام کو جب کورونا کا سامنا ہوا تو نظم و ضبط کا فقدان تھا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف متاثرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ نقصان ضرورت سے زیادہ ہوا۔
قدرتی مصائب کا مقابلہ تنظیم، نظم و ضبط کے ساتھ نہیں کیا جاتا بلکہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نقصان اندازے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ، کم ازکم اس بار ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایسی پالیسی بنائی جائے کہ متاثرین کو کم سے کم نقصان ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ اس حوالے سے نظم و ضبط کا قائم رکھنا ہے۔ کراچی تین کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کا ایک سمندر ہے اور اتنی بڑی آبادی والے شہر میں اس قسم کی آفتوں سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ماضی کے تجربات اس حوالے سے بڑے تلخ ہیں حکومت کوئی مرکزی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک واضح پلان پالیسی بنائی جائے، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عام آدمی ان مصائب سے خوف زدہ تو ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کی منظم کوشش نہیں کرتا، وجہ یہ ہے کہ عوام میں اجتماعی شعور بیدار نہیں کیا جاتا یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کئی مواقعوں پر ایسی افراتفری کے مظاہرے کیے گئے جس سے بہت نقصان ہوا۔
اس حوالے سے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مہنگائی کے حالات میں وہ ڈسپلن کام نہیں کرتا بلکہ عموماً افراتفری بڑھ جاتی ہے۔ بے چارہ غریب آدمی جو ان بیماریوں کے نقصانات سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا زیادہ نقصان اٹھاتا ہے۔ کراچی شہر کو لے لیں یہ کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے اور وہ حصے جو نسبتاً بہتر پوزیشن میں ہے ان مصائب سے زیادہ اعتماد کے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اہل سیاست دو ذمے داریاں پوری نہیں کر پاتے اور ذاتی مفادات کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جس کا نتیجہ افراتفری کی شکل میں نکلتا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق ملک خصوصاً کراچی شہر میں تیزی سے کورونا ڈیرے جما رہا ہے اگر اسی موقع پر کورونا کی موثر روک تھام نہ کی جائے تو یہ بلا انسانی جانوں کے لیے غیر معمولی نقصان دے ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر کوئی کام منظم اور منصوبہ بند طریقے سے نہیں کیے جاتے جس کا نتیجہ افرا تفریح اور بے فائدہ دوڑ بھاگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کراچی میں ویسے تو ایک سے زیادہ ادارے ایسے ہیں جو اس قسم کے مسائل سے نمٹتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں مرکزیت نہیں ہوتی جس کا نتیجہ افرا تفری کی شکل میں نکلتا ہے۔ ان کمزوریوں پر جب تک قابو نہیں پایا جائے گا۔ عوام کو کورونا جیسی بیماریوں کے نقصانات سے بچایا نہیں جاسکتا یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اس حوالے سے گائیڈ لائن فراہم کریں۔
کورونا ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جس کا شکار مشکل سے بچ پاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں اس قسم کی بیماریوں سے لوگ بہت محتاط رہتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ طبقوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر طبقہ اپنی کوششوں سے اپنے بچاؤ کے لیے راستہ تلاش کرتا ہے۔ تیز طرار لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے متعلقین کو کورونا کی مشکلات سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس قسم کے کام اصول کے تحت نہیں ہوتے ، اگر ایسا ہوتا تو عام آدمی کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو وہ عرصے سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ ماضی میں کورونا کے حوالے سے جس غفلت کا مظاہرہ دیکھا گیا وہ انتہائی شرم ناک تھا،کورونا ایک قاتل اور دہشت ناک بیماری ہے۔
اس کا نام سن کر ہی عام آدمی نروس ہو جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ غریب بستیوں میں پہلے تو کورونا کا خوف عوام کے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ عوام کو اس سے نجات دلائیں چونکہ خوف انسانوں کی کارکردگی کو متاثر کر دیتا ہے۔ پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے ، جہاں 80 فیصد سے زیادہ عوام اس قسم کی بیماریوں سے واقف ہی نہیں حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر علاقے میں عوام کی آگاہی کے لیے منظم کوشش کرے اور سرکاری ادارے ان کوششوں کی حمایت کریں۔