جائز حقوق کے لیے دھرنے کی مجبوری
ہم پرانے لوگ ہیں۔ ابھی پرانی عادتیں گئی نہیں۔ اسی لیے یہ ٹکڑا میں زمین پر پھینکتے پھینکتے رہ گیا
LONDON:
عبد الستار افغانی مرحوم کہا کرتے تھے، کراچی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ یہ بات انھوں نے کوئی تیس پینتیس برس پہلے کہی ہوگی۔ اتنا زمانہ بیت جانے کے بعد یہ کچی آبادی کم از کم گاؤں کی شکل تو اختیار کر جاتی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔
سبب کیا تھا؟ سبب یہ تھا کہ اس شہر میں شہری حکومت کا وجود رفتہ رفتہ سکڑتا چلا گیا۔ جیسے جیسے شہری حکومت المعروف بلدیہ کے ہاتھ پاؤں ناکارہ کیے جاتے رہے، یہ شہر؛ شہر سے کچرے کے ڈھیر میں بدلتا چلا گیا۔
عبداللہ ہارون روڈ اس شہر کی اہم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ہاؤس بھی اسی کے کنارے واقعہ ہے۔ اس علاقے کو ریڈ زون بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں چونکہ اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی آمد و رفت بھی رہتی ہے، اس لیے اس کی صفائی ستھرائی پر بھی توجہ رہتی ہے۔
ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن جیسے جیسے آپ دائیں بائیں، آگے پیچھے رہائشی اور کاروباری علاقوں کی گہرائی میں اترتے چلے جائیں، آپ کے حواس خمسہ آلودگی سے متاثر ہوتے چلے جائیں گے۔استنبول یاد آ گیا۔ ہوٹل کونریڈ بحر مرمرہ سے ذرا سے ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اس نامی گرامی ہوٹل کی لش پش اپنی جگہ لیکن اس کا معمار کوئی خوش ذوق آدمی تھا۔ اس نے ہوٹل کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب ایک دلچسپ سی جگہ خالی رکھی اور وہاں بینچ ڈلوا دیے۔ یوں یہ کچھ ایسی جگہ بن گئی جیسی آوارہ گردوں اور تمباکو کے کش لگانے والوں کو درکار ہوتی ہے۔
کش لگانے سے دلچسپی تو زمانہ بیتا ختم ہو چکی ہے لیکن ایسی جگہیں مجھے خوش آتی ہیں۔ یہی سبب تھا کہ اس روز صدر ممنون حسین کا طیارہ اسلام آباد کے لیے اڑا اور میں انھیں الوداع کہہ کر واپس لوٹا تو سوچا کہ اب کچھ آوارہ گردی کرنی چاہیے۔ یوں وہ بینچ میری اس روز کی آوارہ گردی کا پہلا پڑاؤ بنے۔
مجھے وہاں بیٹھے کچھ زیادہ دیر نہیں گزری ہوگی کہ ایک صاحب میرے ہی بینچ پر آ بیٹھے۔ لمبے سفید بال، یوں سمجھئے زلفِ پریشاں۔ بابائے ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہانیمن کا بنا بنایا نمونہ تھے۔بیٹھتے ہی انھوں نے جیب سے سگار نکالا، کٹر سے اسے کاٹا اور دائیں بائیں دیکھا۔ بینچ کے ارد گرد چپس اور سیمنٹ سے بنے دو دو ڈھائی ڈھائی فٹ اونچے پلر سے کھڑے تھے۔ یہ پلر سائیڈ ٹیبل کا کام بھی دیتے تھے اور ایش ٹرے کا بھی۔ ہوٹل والوں نے بڑے سلیقے سے ان میں چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال کر تمباکو نوشوں کے لیے آسانی پیدا کر رکھی تھی۔ اپنے پڑوسی کی سرگرمیوں کو میں نے دلچسپی سے دیکھا۔ مجھے متوجہ پا کر انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور مجھے مخاطب کیا: ''افندم''۔اس کے ساتھ ہی بات شروع ہوگئی۔ کہنے لگے۔
ہم پرانے لوگ ہیں۔ ابھی پرانی عادتیں گئی نہیں۔ اسی لیے یہ ٹکڑا میں زمین پر پھینکتے پھینکتے رہ گیا۔ انھوں نے سگار کے ٹکڑے کو میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ پہلے تو جو گندگی بھی ہوتی، ہم سڑک پر، گلی میں جہاں موقع ملتا، پھینک دیتے۔ اب بھی میں یہی کرنے والا تھا کہ بدلے ہوئے حالات کا خیال آ گیا۔ ''اب یہ شہر ایسا نہیں''۔ انھوں نے سرور کے ساتھ کش لیتے ہوئے کہا۔ پھر میں تمھیں بتاؤں، یہ شہر کیسا تھا۔ یہ کہتے ہوئے وہ لحظہ رکے پھر کہا کہ کوئی سفید قمیص پہن کر گھر سے نکلتا تو گھر لوٹتے ہوئے وہ سفید نہ رہتی، سرمئی ہو جاتی۔
کپڑا جب ایسی شکل اختیار کر لے تو تمہاری زبان میں اسے کیا کہتے ہیں؟ خوشی ہوئی کہ کچھ بات کرنے کا موقع انھوں نے مجھے بھی دیا۔ یہ سوچا پھر میں نے انھیں بتایا کہ اردو میں کیا کہتے ہوں گے، اس وقت ذہن میں نہیں لیکن میری مادری زبان پنجابی میں اسے تند میل کہتے ہیں۔
ایسی میل جو کپڑے کے تانے بانے میں جا کر بیٹھ جائے اور نکالے سے نہ نکلے۔ یہ وضاحت انھوں نے دلچسپی سے سنی اور اپنے باکمال شہر کی دلچسپ کہانیاں مجھے سنانے لگے۔ اپنی دلچسپ گفتگو میں جیسے ہی انھوں نے وقفہ لیا، میں نے ان سے پوچھا کہ پھر یہ شہر کیسے بدلا؟''کیسے بدلا؟''۔ انھوں نے سوالیہ انداز میں میری بات دہرائی پھر بتایا کہ بیلے دیسی افندم بیلے دیسی۔ یعنی یہ کارنامہ اور کسی کا نہیں صرف اور صرف بلدیہ کا ہے اور وہ بھی اس زمانے کی بلدیہ جب رجب طیب ایردوآن اس کے میئر تھے۔رجب طیب ایردوآن کی میئر شپ میں اور کیا کیا چمتکار ہوئے، ''ڈاکٹر ہانیمن''اس کی تفصیل سنانے میں مصروف ہو گئے اور میرے ذہن میں کراچی کے گلی کوچوں کا نقشہ ابھرنے لگا۔
یہ شہر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ایک زمانہ اس شہر پر ایسا بھی گزرا ہے جب سرشام بلدیہ کے ٹینکر شہر کے گلی کوچوں میں نمودار ہوتے اور سڑکوں کے دائیں بائیں چھڑکاؤ کیا کرتے۔ یوں گرد و غبار بیٹھ جاتا اور راستے ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہو جاتے۔ یہ چھڑکاو ٔبھی خوب تھا۔ دو وقت کے چھڑکاؤ کے بعد اس شہر کے گلی کوچے کیوڑے کی خوشبو سے مہک اٹھتے۔ جانے وہ کون خوش مزاج میئر ہو گا جس نے اتنا خوشبودار فیصلہ کیا ہوگا۔ کیوڑے کی خوشبو کا معاملہ تو یقیناً اس میئر کی خوش ذوقی کا نتیجہ ہو گا لیکن ایسی خوش ذوقی بھی اس وقت تک کسی کام کی نہیں ہوتی جب تک اس کے پاس اختیار نہ ہو۔
اس شہر کے میئروں کے پاس جب تک اختیار رہا، اس شہر سے خوشبوئیں بھی اٹھیں اور گلی کوچے آئینہ خانہ بھی بنے۔ شاعر نے کہا تھا دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے ،کراچی بھی کچھ ایسا ہی تھا، ان دنوں۔ لیکن جیسے جیسے صوبائی حکومت بلدیہ کے اختیارات سلب کرتی گئی، یہ شہر بگڑتا چلا گیا۔ اب یہ شہر شہر نہیں کچرے کا ڈھیر ہے۔
یہ شہر ہیضے، آنکھوں کے امراض اور یرقان جیسے عوارض کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ سبب یہی بلدیہ کی بے دست و پائی۔ اب جو سندھ حکومت نے نیا بلدیاتی نظام بنایا ہے، یہ تو کراچی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی بدترین مثال ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ جو یونین کونسل اندرون سندھ بیس ہزار کی آبادی پر بنتی ہے، کراچی میں 65 ہزار پر بنے؟ اس اسکیم کے تحت کراچی میں دو سوا دو سو یونین کونسلیں بنتی ہیں۔
اگر کراچی کو اپنا سمجھ کر حکومت انصاف سے کام لیتی تو یہ تعداد چھ سو بنتی۔ یونین کونسلیں کم بنیں یا زیادہ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق ترقیاتی فنڈ کی مقدار سے پڑتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ یونین کونسلیں کم ہوں گی تو فنڈ بھی کم ہو گا، زیادہ ہوں گی تو فنڈ بھی زیادہ ہو گا۔ سندھ کی حکومت نے کراچی کو ترقی کی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے رکھا ہے۔
اس کے پیچھے وہی شہری اور دیہی سندھ والی سوچ ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جس سے لسانی عصبیتیں پروان چڑھتی ہیں اور نفرتیں بڑھتی ہیں۔ سندھ کی حکومت ایک بار پھر اسی راستے پر چل نکلی ہے۔ یہی نا انصافی بلکہ ظلم ہے جس کے خلاف جماعت اسلامی نے دھرنا دے کر قوم کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ دیگر قومی سیاسی جماعتیں بھی اس جدوجہد کا حصہ بنتیں۔ جماعت کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس نے کراچی کے لیے جوآواز بلند کی ہے، اس کی آواز میں آواز ملانا ضروری ہی نہیں حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن بڑی جرات کے ساتھ کراچی کی آواز بنے ہیں، سیاسی تقسیم اور مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر ان کی آواز میں آواز ملانی چاہیے۔
عبد الستار افغانی مرحوم کہا کرتے تھے، کراچی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ یہ بات انھوں نے کوئی تیس پینتیس برس پہلے کہی ہوگی۔ اتنا زمانہ بیت جانے کے بعد یہ کچی آبادی کم از کم گاؤں کی شکل تو اختیار کر جاتی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔
سبب کیا تھا؟ سبب یہ تھا کہ اس شہر میں شہری حکومت کا وجود رفتہ رفتہ سکڑتا چلا گیا۔ جیسے جیسے شہری حکومت المعروف بلدیہ کے ہاتھ پاؤں ناکارہ کیے جاتے رہے، یہ شہر؛ شہر سے کچرے کے ڈھیر میں بدلتا چلا گیا۔
عبداللہ ہارون روڈ اس شہر کی اہم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ہاؤس بھی اسی کے کنارے واقعہ ہے۔ اس علاقے کو ریڈ زون بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں چونکہ اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی آمد و رفت بھی رہتی ہے، اس لیے اس کی صفائی ستھرائی پر بھی توجہ رہتی ہے۔
ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن جیسے جیسے آپ دائیں بائیں، آگے پیچھے رہائشی اور کاروباری علاقوں کی گہرائی میں اترتے چلے جائیں، آپ کے حواس خمسہ آلودگی سے متاثر ہوتے چلے جائیں گے۔استنبول یاد آ گیا۔ ہوٹل کونریڈ بحر مرمرہ سے ذرا سے ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اس نامی گرامی ہوٹل کی لش پش اپنی جگہ لیکن اس کا معمار کوئی خوش ذوق آدمی تھا۔ اس نے ہوٹل کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب ایک دلچسپ سی جگہ خالی رکھی اور وہاں بینچ ڈلوا دیے۔ یوں یہ کچھ ایسی جگہ بن گئی جیسی آوارہ گردوں اور تمباکو کے کش لگانے والوں کو درکار ہوتی ہے۔
کش لگانے سے دلچسپی تو زمانہ بیتا ختم ہو چکی ہے لیکن ایسی جگہیں مجھے خوش آتی ہیں۔ یہی سبب تھا کہ اس روز صدر ممنون حسین کا طیارہ اسلام آباد کے لیے اڑا اور میں انھیں الوداع کہہ کر واپس لوٹا تو سوچا کہ اب کچھ آوارہ گردی کرنی چاہیے۔ یوں وہ بینچ میری اس روز کی آوارہ گردی کا پہلا پڑاؤ بنے۔
مجھے وہاں بیٹھے کچھ زیادہ دیر نہیں گزری ہوگی کہ ایک صاحب میرے ہی بینچ پر آ بیٹھے۔ لمبے سفید بال، یوں سمجھئے زلفِ پریشاں۔ بابائے ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہانیمن کا بنا بنایا نمونہ تھے۔بیٹھتے ہی انھوں نے جیب سے سگار نکالا، کٹر سے اسے کاٹا اور دائیں بائیں دیکھا۔ بینچ کے ارد گرد چپس اور سیمنٹ سے بنے دو دو ڈھائی ڈھائی فٹ اونچے پلر سے کھڑے تھے۔ یہ پلر سائیڈ ٹیبل کا کام بھی دیتے تھے اور ایش ٹرے کا بھی۔ ہوٹل والوں نے بڑے سلیقے سے ان میں چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال کر تمباکو نوشوں کے لیے آسانی پیدا کر رکھی تھی۔ اپنے پڑوسی کی سرگرمیوں کو میں نے دلچسپی سے دیکھا۔ مجھے متوجہ پا کر انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور مجھے مخاطب کیا: ''افندم''۔اس کے ساتھ ہی بات شروع ہوگئی۔ کہنے لگے۔
ہم پرانے لوگ ہیں۔ ابھی پرانی عادتیں گئی نہیں۔ اسی لیے یہ ٹکڑا میں زمین پر پھینکتے پھینکتے رہ گیا۔ انھوں نے سگار کے ٹکڑے کو میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ پہلے تو جو گندگی بھی ہوتی، ہم سڑک پر، گلی میں جہاں موقع ملتا، پھینک دیتے۔ اب بھی میں یہی کرنے والا تھا کہ بدلے ہوئے حالات کا خیال آ گیا۔ ''اب یہ شہر ایسا نہیں''۔ انھوں نے سرور کے ساتھ کش لیتے ہوئے کہا۔ پھر میں تمھیں بتاؤں، یہ شہر کیسا تھا۔ یہ کہتے ہوئے وہ لحظہ رکے پھر کہا کہ کوئی سفید قمیص پہن کر گھر سے نکلتا تو گھر لوٹتے ہوئے وہ سفید نہ رہتی، سرمئی ہو جاتی۔
کپڑا جب ایسی شکل اختیار کر لے تو تمہاری زبان میں اسے کیا کہتے ہیں؟ خوشی ہوئی کہ کچھ بات کرنے کا موقع انھوں نے مجھے بھی دیا۔ یہ سوچا پھر میں نے انھیں بتایا کہ اردو میں کیا کہتے ہوں گے، اس وقت ذہن میں نہیں لیکن میری مادری زبان پنجابی میں اسے تند میل کہتے ہیں۔
ایسی میل جو کپڑے کے تانے بانے میں جا کر بیٹھ جائے اور نکالے سے نہ نکلے۔ یہ وضاحت انھوں نے دلچسپی سے سنی اور اپنے باکمال شہر کی دلچسپ کہانیاں مجھے سنانے لگے۔ اپنی دلچسپ گفتگو میں جیسے ہی انھوں نے وقفہ لیا، میں نے ان سے پوچھا کہ پھر یہ شہر کیسے بدلا؟''کیسے بدلا؟''۔ انھوں نے سوالیہ انداز میں میری بات دہرائی پھر بتایا کہ بیلے دیسی افندم بیلے دیسی۔ یعنی یہ کارنامہ اور کسی کا نہیں صرف اور صرف بلدیہ کا ہے اور وہ بھی اس زمانے کی بلدیہ جب رجب طیب ایردوآن اس کے میئر تھے۔رجب طیب ایردوآن کی میئر شپ میں اور کیا کیا چمتکار ہوئے، ''ڈاکٹر ہانیمن''اس کی تفصیل سنانے میں مصروف ہو گئے اور میرے ذہن میں کراچی کے گلی کوچوں کا نقشہ ابھرنے لگا۔
یہ شہر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ایک زمانہ اس شہر پر ایسا بھی گزرا ہے جب سرشام بلدیہ کے ٹینکر شہر کے گلی کوچوں میں نمودار ہوتے اور سڑکوں کے دائیں بائیں چھڑکاؤ کیا کرتے۔ یوں گرد و غبار بیٹھ جاتا اور راستے ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہو جاتے۔ یہ چھڑکاو ٔبھی خوب تھا۔ دو وقت کے چھڑکاؤ کے بعد اس شہر کے گلی کوچے کیوڑے کی خوشبو سے مہک اٹھتے۔ جانے وہ کون خوش مزاج میئر ہو گا جس نے اتنا خوشبودار فیصلہ کیا ہوگا۔ کیوڑے کی خوشبو کا معاملہ تو یقیناً اس میئر کی خوش ذوقی کا نتیجہ ہو گا لیکن ایسی خوش ذوقی بھی اس وقت تک کسی کام کی نہیں ہوتی جب تک اس کے پاس اختیار نہ ہو۔
اس شہر کے میئروں کے پاس جب تک اختیار رہا، اس شہر سے خوشبوئیں بھی اٹھیں اور گلی کوچے آئینہ خانہ بھی بنے۔ شاعر نے کہا تھا دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے ،کراچی بھی کچھ ایسا ہی تھا، ان دنوں۔ لیکن جیسے جیسے صوبائی حکومت بلدیہ کے اختیارات سلب کرتی گئی، یہ شہر بگڑتا چلا گیا۔ اب یہ شہر شہر نہیں کچرے کا ڈھیر ہے۔
یہ شہر ہیضے، آنکھوں کے امراض اور یرقان جیسے عوارض کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ سبب یہی بلدیہ کی بے دست و پائی۔ اب جو سندھ حکومت نے نیا بلدیاتی نظام بنایا ہے، یہ تو کراچی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی بدترین مثال ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ جو یونین کونسل اندرون سندھ بیس ہزار کی آبادی پر بنتی ہے، کراچی میں 65 ہزار پر بنے؟ اس اسکیم کے تحت کراچی میں دو سوا دو سو یونین کونسلیں بنتی ہیں۔
اگر کراچی کو اپنا سمجھ کر حکومت انصاف سے کام لیتی تو یہ تعداد چھ سو بنتی۔ یونین کونسلیں کم بنیں یا زیادہ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق ترقیاتی فنڈ کی مقدار سے پڑتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ یونین کونسلیں کم ہوں گی تو فنڈ بھی کم ہو گا، زیادہ ہوں گی تو فنڈ بھی زیادہ ہو گا۔ سندھ کی حکومت نے کراچی کو ترقی کی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے رکھا ہے۔
اس کے پیچھے وہی شہری اور دیہی سندھ والی سوچ ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جس سے لسانی عصبیتیں پروان چڑھتی ہیں اور نفرتیں بڑھتی ہیں۔ سندھ کی حکومت ایک بار پھر اسی راستے پر چل نکلی ہے۔ یہی نا انصافی بلکہ ظلم ہے جس کے خلاف جماعت اسلامی نے دھرنا دے کر قوم کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ دیگر قومی سیاسی جماعتیں بھی اس جدوجہد کا حصہ بنتیں۔ جماعت کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس نے کراچی کے لیے جوآواز بلند کی ہے، اس کی آواز میں آواز ملانا ضروری ہی نہیں حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن بڑی جرات کے ساتھ کراچی کی آواز بنے ہیں، سیاسی تقسیم اور مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر ان کی آواز میں آواز ملانی چاہیے۔