لانگ مارچ‘نتیجہ کیا نکلے گا
سیاسی اختلاف اور دونوں پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات انھیں کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر آنے نہیں دیتے
لاہور:
اپوزیشن گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی کوششیں کرتی رہی ہے لیکن اُسے اس میں اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ خود متحد و منظم ہی نہیں ہے۔
مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی میں پایا جانے والا سیاسی اختلاف اور دونوں پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات انھیں کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر آنے نہیں دیتے، اُن کے اپنے اندر ایک دوسرے کے خلاف اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے۔
جس طرح JUI اور مسلم لیگ نون تو ایک دوسرے پر بھروسہ بھی کرسکتے ہیں اور شاید آیندہ آنے والے الیکشن میں متحد ہوکر حصہ بھی لے سکتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے ساتھ دونوں جماعتیں یقین اور اعتماد کی ایسی فضاء کبھی بھی قائم نہیں کرسکتیں۔
پیپلزپارٹی کے اپنے مفادات ہیں۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ سندھ صوبے کی بادشاہی کوئی اس سے چھین نہیں سکتا اور آصف علی زرداری کی دوستی اور مفاہمتی پالیسی کی بدولت مسلم لیگ ( ق) ، اے این پی اور ایم کیوایم 2023 میں ضرورت پڑنے پر حکومت بنانے میں اس کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں اور یہ تعاون اسے وفاق میں حکومت بنانے کے قابل بھی بنا سکتا ہے، لہٰذا وہ ایسی کسی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہے گی جس میں اسے تو کچھ حاصل نہ ہو اور مسلم لیگ نون وصول کنندہ بن جائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ نون بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ لمبے عرصے تک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اُسے معلوم ہے کہ زرداری صاحب کی شاطرانہ پالیسیوں کا توڑ اس کے پاس نہیں ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور مفاہمتی پالیسی کے ماہر زرداری صاحب جب چاہیں کسی بھی حکومت کا گھیرا تنگ کرسکتے ہیں۔
PTI کے خلاف وہ شاید اس لیے زیادہ متحرک اور فعال ہونا نہیں چاہتے کیونکہ پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی کو اپنا سیاسی حریف سمجھا ہی نہیں اور سب سے بڑھ کر جس نادیدہ ہاتھ کا ذکر ہمارے پنڈی والے شیخ صاحب اکثر کیا کرتے ہیں وہ ہاتھ بھی یقیناً ابھی تک موجودہ حکومت کے سرپر موجود ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ ایم کیوایم اور مسلم لیگ (ق) والے اِن کٹھن معاشی حالات میں بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے۔
اس ساڑھے تین سالہ دور میں اپوزیشن صرف شور مچاتی رہی ہے لیکن کچھ کر نہیں پائی ہے۔ وہ تحریک چلانے اور لانگ مارچ شروع کرنے کی پلاننگ تو ضرور کرتی رہی ہے لیکن عملاً کوئی بھر پور قدم اُٹھا نہیں پائی ہے۔ پی ڈی ایم کا مجوزہ لانگ مارچ بھی ہمیں ہوتا دکھائی نہیں دیتا ، کیونکہ اپوزیشن اگر مارچ شروع کرنے میں واقعی سیریس اور سنجیدہ ہوتی تو چار مہینے کی تاریخ ہرگز نہیں دیتی۔ لوہا جب گرم ہوتو ہتھوڑا بھی اُسی وقت مارنا چاہیے۔ یہ تین چار مہینے بعد کی تاریخیں دینا اپوزیشن کی اپنی کمزوریوں کو نمایاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔
23مارچ کو اگر یہ لانگ مارچ شروع کر بھی دیا گیا تو دو ہفتوں کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجائے گا اور رمضان جیسے مقدس مہینے میں کوئی بھی شخص ایسی کسی احتجاجی مہم میں شامل ہونا پسند نہیں کرے گا۔ یوں اپوزیشن رمضان کا بہانہ بناکر اس مجوزہ لانگ مارچ کو عید کے بعد رکھنے کا اعلان کردے گی۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی نے بھی 27فروری سے اپنے مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ PDM کے لانگ مارچ سے پہلے پیپلزپارٹی تنہا لانگ مارچ شروع کرکے دراصل اپنی قوت بازو کو آزمانا چاہتی ہے۔
اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لانگ مارچ ملتان سے آگے نہیں بڑھ پائے گا اور کوئی عذر یا بہانہ تراش کے اُسے ملتوی یا موخر کر دیا جائے گا۔ ہمارے اندازے کے مطابق یہ دونوں لانگ مارچ حقیقی شکل اختیار نہیں کر پائیں گے اور صرف زبانی جمع خرچ کے ساتھ شروع ہونے سے بہت پہلے ہی لپیٹ دیے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو ، زرداری نے اپنی والدہ محترمہ کی برسی کے موقع پر 5 جنوری سے جس تحریک کے شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا وہ کیا ہوا۔ وہ بھی شاید ایک ایسا سیاسی بیان تھا جو صرف سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کے لیے دیا گیا تھا۔
اس ملک میں حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک نادیدہ قوتوں کی مرضی ومنشاء شامل نہ ہو۔ مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف بھی پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے 2014 ء میں جو احتجاجی لانگ مارچ اور دھرنا دیا تھا وہ اگر 126 دن چل پایا تو بھی اس لیے کہ اس کے پیچھے کچھ خفیہ عوامل کارفرما تھے ، وہ اگر ساتھ نہ ہوتے تو یہ دھرنا دو ہفتوں سے زیادہ چل نہیں پاتا۔
126دنوں تک اُسے زبردستی گھسیٹا گیا اور بالآخر آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کو جواز بنا کر لپیٹا گیا ، جس تاریخی لمبے دھرنے کا کریڈٹ خان صاحب اپنے نام کرتے ہیں وہ کریڈٹ دراصل کسی اور کو جانا چاہیے۔ آج بھی اگر موجودہ حکومت صرف چند نشستوں کی برتری کے ساتھ قائم و دائم ہے تو اس میں بھی وہی فیکٹر کار فرما ہے جس کا ذکر شیخ رشید اکثر ببانگ دہل کیا کرتے ہیں۔
اپوزیشن خواہ کچھ بھی کر لے اور یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلیاں دیتی رہے کہ ایک پیج والی کہانی ختم ہوچکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت سے مایوس ہوچکی ہے لیکن وہ حکومت گرانے کی اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جون ، جولائی کے بعد صرف ایک سال باقی رہ جائے گا۔ اس وقت حکومت خود کمزور ہوچکی ہوگی۔
پھر ایسے میں حکومت گرا کے کریڈٹ لینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ قابلیت و اہلیت تو یہ ہوتی کہ اُسے وقت سے پہلے چلتا کیا جاتا۔ یہ غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے اختیار نہ کرنے کے بہانے تراش کرنا خود اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرتاہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اپوزیشن کو کھلا موقعہ ملے اور حالات بھی اس کے لیے سازگار ہوں اور وہ حکومت کو ہٹانے میں صرف اس لیے ہچکچاہٹ اور انکار سے کام لیتی رہے کہ ایسا کرنا غیرآئینی اور غیر دستوری ہوگا۔ کوئی بھی اپوزیشن ایسے موقع گنوا نہیں سکتی ، وہ تو ایسے سنہری موقعوں کی تلاش میں رہتی ہے۔
آج اگر ہماری اپوزیشن اس حکومت کے خلاف کوئی منظم تحریک چلانے میں اب تک کامیاب نہ ہوسکی ہے تو اس کی واحد وجہ حکومت کے سر پر موجود سرپرستی کا وہ مضبوط ہاتھ ہے جو جسے باوجود تمام انکار اور تردد کے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پچھلے دنوں 350ارب کے نئے ٹیکس لگانے کا منی بجٹ کبھی بھی اتنی آسانی سے پاس نہیں ہوسکتا تھا۔ عوام پر مہنگائی کے بم برسانا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری یہ حکومت یہ کام بھی بڑی آسانی سے کر جاتی ہے اور اپوزیشن صرف خود اپنا منہ چڑاتی رہ جاتی ہے۔
اپوزیشن گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی کوششیں کرتی رہی ہے لیکن اُسے اس میں اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ خود متحد و منظم ہی نہیں ہے۔
مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی میں پایا جانے والا سیاسی اختلاف اور دونوں پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات انھیں کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر آنے نہیں دیتے، اُن کے اپنے اندر ایک دوسرے کے خلاف اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے۔
جس طرح JUI اور مسلم لیگ نون تو ایک دوسرے پر بھروسہ بھی کرسکتے ہیں اور شاید آیندہ آنے والے الیکشن میں متحد ہوکر حصہ بھی لے سکتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے ساتھ دونوں جماعتیں یقین اور اعتماد کی ایسی فضاء کبھی بھی قائم نہیں کرسکتیں۔
پیپلزپارٹی کے اپنے مفادات ہیں۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ سندھ صوبے کی بادشاہی کوئی اس سے چھین نہیں سکتا اور آصف علی زرداری کی دوستی اور مفاہمتی پالیسی کی بدولت مسلم لیگ ( ق) ، اے این پی اور ایم کیوایم 2023 میں ضرورت پڑنے پر حکومت بنانے میں اس کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں اور یہ تعاون اسے وفاق میں حکومت بنانے کے قابل بھی بنا سکتا ہے، لہٰذا وہ ایسی کسی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہے گی جس میں اسے تو کچھ حاصل نہ ہو اور مسلم لیگ نون وصول کنندہ بن جائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ نون بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ لمبے عرصے تک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اُسے معلوم ہے کہ زرداری صاحب کی شاطرانہ پالیسیوں کا توڑ اس کے پاس نہیں ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور مفاہمتی پالیسی کے ماہر زرداری صاحب جب چاہیں کسی بھی حکومت کا گھیرا تنگ کرسکتے ہیں۔
PTI کے خلاف وہ شاید اس لیے زیادہ متحرک اور فعال ہونا نہیں چاہتے کیونکہ پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی کو اپنا سیاسی حریف سمجھا ہی نہیں اور سب سے بڑھ کر جس نادیدہ ہاتھ کا ذکر ہمارے پنڈی والے شیخ صاحب اکثر کیا کرتے ہیں وہ ہاتھ بھی یقیناً ابھی تک موجودہ حکومت کے سرپر موجود ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ ایم کیوایم اور مسلم لیگ (ق) والے اِن کٹھن معاشی حالات میں بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے۔
اس ساڑھے تین سالہ دور میں اپوزیشن صرف شور مچاتی رہی ہے لیکن کچھ کر نہیں پائی ہے۔ وہ تحریک چلانے اور لانگ مارچ شروع کرنے کی پلاننگ تو ضرور کرتی رہی ہے لیکن عملاً کوئی بھر پور قدم اُٹھا نہیں پائی ہے۔ پی ڈی ایم کا مجوزہ لانگ مارچ بھی ہمیں ہوتا دکھائی نہیں دیتا ، کیونکہ اپوزیشن اگر مارچ شروع کرنے میں واقعی سیریس اور سنجیدہ ہوتی تو چار مہینے کی تاریخ ہرگز نہیں دیتی۔ لوہا جب گرم ہوتو ہتھوڑا بھی اُسی وقت مارنا چاہیے۔ یہ تین چار مہینے بعد کی تاریخیں دینا اپوزیشن کی اپنی کمزوریوں کو نمایاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔
23مارچ کو اگر یہ لانگ مارچ شروع کر بھی دیا گیا تو دو ہفتوں کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجائے گا اور رمضان جیسے مقدس مہینے میں کوئی بھی شخص ایسی کسی احتجاجی مہم میں شامل ہونا پسند نہیں کرے گا۔ یوں اپوزیشن رمضان کا بہانہ بناکر اس مجوزہ لانگ مارچ کو عید کے بعد رکھنے کا اعلان کردے گی۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی نے بھی 27فروری سے اپنے مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ PDM کے لانگ مارچ سے پہلے پیپلزپارٹی تنہا لانگ مارچ شروع کرکے دراصل اپنی قوت بازو کو آزمانا چاہتی ہے۔
اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لانگ مارچ ملتان سے آگے نہیں بڑھ پائے گا اور کوئی عذر یا بہانہ تراش کے اُسے ملتوی یا موخر کر دیا جائے گا۔ ہمارے اندازے کے مطابق یہ دونوں لانگ مارچ حقیقی شکل اختیار نہیں کر پائیں گے اور صرف زبانی جمع خرچ کے ساتھ شروع ہونے سے بہت پہلے ہی لپیٹ دیے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو ، زرداری نے اپنی والدہ محترمہ کی برسی کے موقع پر 5 جنوری سے جس تحریک کے شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا وہ کیا ہوا۔ وہ بھی شاید ایک ایسا سیاسی بیان تھا جو صرف سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کے لیے دیا گیا تھا۔
اس ملک میں حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک نادیدہ قوتوں کی مرضی ومنشاء شامل نہ ہو۔ مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف بھی پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے 2014 ء میں جو احتجاجی لانگ مارچ اور دھرنا دیا تھا وہ اگر 126 دن چل پایا تو بھی اس لیے کہ اس کے پیچھے کچھ خفیہ عوامل کارفرما تھے ، وہ اگر ساتھ نہ ہوتے تو یہ دھرنا دو ہفتوں سے زیادہ چل نہیں پاتا۔
126دنوں تک اُسے زبردستی گھسیٹا گیا اور بالآخر آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کو جواز بنا کر لپیٹا گیا ، جس تاریخی لمبے دھرنے کا کریڈٹ خان صاحب اپنے نام کرتے ہیں وہ کریڈٹ دراصل کسی اور کو جانا چاہیے۔ آج بھی اگر موجودہ حکومت صرف چند نشستوں کی برتری کے ساتھ قائم و دائم ہے تو اس میں بھی وہی فیکٹر کار فرما ہے جس کا ذکر شیخ رشید اکثر ببانگ دہل کیا کرتے ہیں۔
اپوزیشن خواہ کچھ بھی کر لے اور یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلیاں دیتی رہے کہ ایک پیج والی کہانی ختم ہوچکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت سے مایوس ہوچکی ہے لیکن وہ حکومت گرانے کی اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جون ، جولائی کے بعد صرف ایک سال باقی رہ جائے گا۔ اس وقت حکومت خود کمزور ہوچکی ہوگی۔
پھر ایسے میں حکومت گرا کے کریڈٹ لینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ قابلیت و اہلیت تو یہ ہوتی کہ اُسے وقت سے پہلے چلتا کیا جاتا۔ یہ غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے اختیار نہ کرنے کے بہانے تراش کرنا خود اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرتاہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اپوزیشن کو کھلا موقعہ ملے اور حالات بھی اس کے لیے سازگار ہوں اور وہ حکومت کو ہٹانے میں صرف اس لیے ہچکچاہٹ اور انکار سے کام لیتی رہے کہ ایسا کرنا غیرآئینی اور غیر دستوری ہوگا۔ کوئی بھی اپوزیشن ایسے موقع گنوا نہیں سکتی ، وہ تو ایسے سنہری موقعوں کی تلاش میں رہتی ہے۔
آج اگر ہماری اپوزیشن اس حکومت کے خلاف کوئی منظم تحریک چلانے میں اب تک کامیاب نہ ہوسکی ہے تو اس کی واحد وجہ حکومت کے سر پر موجود سرپرستی کا وہ مضبوط ہاتھ ہے جو جسے باوجود تمام انکار اور تردد کے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پچھلے دنوں 350ارب کے نئے ٹیکس لگانے کا منی بجٹ کبھی بھی اتنی آسانی سے پاس نہیں ہوسکتا تھا۔ عوام پر مہنگائی کے بم برسانا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری یہ حکومت یہ کام بھی بڑی آسانی سے کر جاتی ہے اور اپوزیشن صرف خود اپنا منہ چڑاتی رہ جاتی ہے۔