بیچاری وزارت اطلاعات اور سیکرٹ فنڈ
جہاں تک میڈیا کے ایک طبقے کی سیکرٹ ’’خوشحالی‘‘ کا تعلق ہے، ایسے فنڈ بہت سے اداروں کے پاس ہوتے ہیں
صحافت' صحافی اور وزارت اطلاعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے' یہ سب ایک ہی گھڑے کی مچھلیاں ہیں' ان کے درمیان کھینچا تانی بھی ہوتی رہتی ہے۔ محبت اور نفرت کا یہ ایسا رشتہ ہے جو ٹوٹ نہیں سکتا۔ حالیہ برسوں میں کئی نئے میڈیا ہائوسز میدان میں آئے، اکثر ناکام ہو گئے اور چند ایک نے اپنا نام بنا لیا۔
نئے نئے اخبارات اور الیکٹرانک چینلز منظر عام پر آنے سے ایڈیٹرز' کالم نگاروں اور اینکرز پرسنز کے دن پھر گئے۔ اینکرز اور کالم نگار چمچماتی مہنگی گاڑیوں میں سفر کرنے لگے' فارم ہائوسز میں رہنے لگے' سال میں ایک بار یورپ اور امریکا کا دورہ بھی لازمی ہو گیا۔کہتے ہیں کہ حسن ہوتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔دولت آئی تو کالم نگار اور اینکر پرسنز صحافتی اقدار اور اپنے پروفیشنلز دائرہ اختیار سے باہر نکل کر حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا کام بھی کرنے لگے۔
وزارت اطلاعات کا چونکہ اخبارات' ٹی وی چینلز اور صحافیوں سے گہرا تعلق ہے، وہ بھی تنقید کی زد میں آگئی۔ وفاقی اور صوبائی وزارت اطلاعات میڈیا ہائوسز کو سرکاری اشتہارات تقسیم کرتی ہیں۔ یہ تقسیم کس طرح ہوتی ہے' اس کا سب کو پتہ ہے، کچھ شکررنجیاں یا غلط فہمیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں لیکن انھیں دور بھی کرلیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصے سے صورتحال میں گہری تبدیلی آ چکی ہے۔
کالم نگار اور اینکر پرسنز کے بارے میں ایسی باتیں گردش کرنے لگیں کہ وہ کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بعض اینکروں اور کالم نگاروں کے بارے میں عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ فلاں ایجنسیوں کے پے رول پر ہے' فلاں کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار ہے اور کسی کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ حکومتی آلہ کار ہے۔
پیپلز پارٹی کی حالیہ حکومت پر بھی تواتر سے یہ الزامات عائد ہوتے رہے کہ وہ کالم نگاروں' اینکروں اور بعض میڈیا ہائوسز کو رقوم فراہم کر رہی ہے۔ پہلے اس قسم کے الزامات کی حیثیت محض افواہ کی سی ہوتی تھی، لیکن پھر گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک رٹ دائر ہوگئی۔
جس میں کہا گیا تھا کہ میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کی کرپشن کی تحقیقات کی جائے، یوں یہ معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا۔ پہلے جنھیں افواہیں کہہ کر نظرانداز کیا جاتا تھا، وہ سنجیدہ شکل اختیار کر گئیں۔اس رٹ پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ اسی دوران مسلم لیگ ن کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اربوں روپے میڈیا ہائوسز اور صحافیوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات میں میڈیا کے لوگوں کو خریدنے کے لیے 4 ارب روپے سیکرٹ فنڈ میں رکھے گئے ہیں۔
انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے پاس ثبوت کے طور پر ٹیلی فونک ریکارڈنگ بھی موجودہے۔اگلے روز وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار کے الزامات کا جواب دیا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ وزارت اطلاعات و نشریات کا کل بجٹ 5 ارب 58 کروڑ روپے ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سیکرٹ فنڈ کے لیے مختص ہیں' جسے باقاعدہ طور پر منظور کرایا جاتا ہے۔
انھوں نے نام لیے بغیر چوہدری نثار علی خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے عدالت اور عوام کو گمراہ کرتے ہوئے غلط بیانی کی لہٰذا جنہوں نے گمراہ کیا' ان کے خلاف عدلیہ ایکشن لے' اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔
انھوں نے ٹیلی فونک ریکارڈنگ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی فون ریکارڈ کرنے کی صلاحیت تو صرف خفیہ ایجنسیوں کے پاس ہے' قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات کا سیکرٹ فنڈ باقاعدہ بجٹ میں منظور ہوتا ہے' یوں اسے سیکرٹ نہیں کہا جا سکتا' گزشتہ برس یہ فنڈ ایک کروڑ روپے تھا' جس میں اضافہ کر کے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کیا گیا ہے' عدالت نے ریکارڈ طلب کیا تو پیش کریں گے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ فنڈ صحافیوں کی مختلف تنظیموں کی سفارش پر مستحق صحافیوں کے علاج و معالجے یا بچیوں کے جہیز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے' اگر کوئی فنڈ لینے والوں کے نام ظاہر کرنے کی بات کرے گا تو میں ایسا نہیں کروں گا۔ انھوںنے کہا کہ میرا صوابدیدی فنڈ 6 لاکھ روپے ہے۔ قمر زمان کائرہ نے تو وضاحت کر دی ہے لیکن جو پنڈورا باکس کھل گیا ہے' اسے بند کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ چوہدری نثار کا الزام بڑا سنگین ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کے پاس کچھ ثبوت بھی ہیں۔
اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو یہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ یہ ثبوت سامنے لائیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے تو یہی سمجھا جائے گا کہ یہ محض ویسا ہی الزام ہے جس طرح کے الزامات پیپلز پارٹی کی حکومت پر شروع سے لگائے جا رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ سیکرٹ فنڈ صرف وزارت اطلاعات کے پاس نہیں ہوتا' کئی اور اداروں کے پاس بھی ہوتا ہے' کئی اداروں کے فنڈز کا تو آڈٹ ہی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے بھی فنڈز ہوتے ہیں اور انڈر ورلڈ کے بھی۔ چوہدری نثار نے وزارت اطلاعات پر جو کیمیائی حملہ کیا ہے' اس کی تابکاری بڑی دور تک پھیلے گی لیکن زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ دورہ حاضر کے ان چند ایک ایسے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن کی اچھی شہرت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ہے جہاں تک میڈیا کے ایک طبقے کی سیکرٹ ''خوشحالی'' کا تعلق ہے، ایسے فنڈ بہت سے اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس بھی اپنے فنڈ ہوتے ہیں۔
وزارت اطلاعات تو بیچاری سب کی ''بھابی'' ہے۔ جس کے سیکریٹ فنڈ کی مالیت ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ہے جو باقاعدہ منظور ہوتا ہے۔ یہ چوہدری نثار علی صاحب کی ''زنبیل''کا کمال ہے جس میں سے ایک کروڑ بیس لاکھ کی رقم نے اربوں انڈے دیے اور وہ میڈیا ہائوسز اور صحافیوں میں تقسیم ہو گئے۔
نئے نئے اخبارات اور الیکٹرانک چینلز منظر عام پر آنے سے ایڈیٹرز' کالم نگاروں اور اینکرز پرسنز کے دن پھر گئے۔ اینکرز اور کالم نگار چمچماتی مہنگی گاڑیوں میں سفر کرنے لگے' فارم ہائوسز میں رہنے لگے' سال میں ایک بار یورپ اور امریکا کا دورہ بھی لازمی ہو گیا۔کہتے ہیں کہ حسن ہوتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔دولت آئی تو کالم نگار اور اینکر پرسنز صحافتی اقدار اور اپنے پروفیشنلز دائرہ اختیار سے باہر نکل کر حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا کام بھی کرنے لگے۔
وزارت اطلاعات کا چونکہ اخبارات' ٹی وی چینلز اور صحافیوں سے گہرا تعلق ہے، وہ بھی تنقید کی زد میں آگئی۔ وفاقی اور صوبائی وزارت اطلاعات میڈیا ہائوسز کو سرکاری اشتہارات تقسیم کرتی ہیں۔ یہ تقسیم کس طرح ہوتی ہے' اس کا سب کو پتہ ہے، کچھ شکررنجیاں یا غلط فہمیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں لیکن انھیں دور بھی کرلیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصے سے صورتحال میں گہری تبدیلی آ چکی ہے۔
کالم نگار اور اینکر پرسنز کے بارے میں ایسی باتیں گردش کرنے لگیں کہ وہ کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بعض اینکروں اور کالم نگاروں کے بارے میں عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ فلاں ایجنسیوں کے پے رول پر ہے' فلاں کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار ہے اور کسی کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ حکومتی آلہ کار ہے۔
پیپلز پارٹی کی حالیہ حکومت پر بھی تواتر سے یہ الزامات عائد ہوتے رہے کہ وہ کالم نگاروں' اینکروں اور بعض میڈیا ہائوسز کو رقوم فراہم کر رہی ہے۔ پہلے اس قسم کے الزامات کی حیثیت محض افواہ کی سی ہوتی تھی، لیکن پھر گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک رٹ دائر ہوگئی۔
جس میں کہا گیا تھا کہ میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کی کرپشن کی تحقیقات کی جائے، یوں یہ معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا۔ پہلے جنھیں افواہیں کہہ کر نظرانداز کیا جاتا تھا، وہ سنجیدہ شکل اختیار کر گئیں۔اس رٹ پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ اسی دوران مسلم لیگ ن کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اربوں روپے میڈیا ہائوسز اور صحافیوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات میں میڈیا کے لوگوں کو خریدنے کے لیے 4 ارب روپے سیکرٹ فنڈ میں رکھے گئے ہیں۔
انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے پاس ثبوت کے طور پر ٹیلی فونک ریکارڈنگ بھی موجودہے۔اگلے روز وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار کے الزامات کا جواب دیا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ وزارت اطلاعات و نشریات کا کل بجٹ 5 ارب 58 کروڑ روپے ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سیکرٹ فنڈ کے لیے مختص ہیں' جسے باقاعدہ طور پر منظور کرایا جاتا ہے۔
انھوں نے نام لیے بغیر چوہدری نثار علی خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے عدالت اور عوام کو گمراہ کرتے ہوئے غلط بیانی کی لہٰذا جنہوں نے گمراہ کیا' ان کے خلاف عدلیہ ایکشن لے' اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔
انھوں نے ٹیلی فونک ریکارڈنگ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی فون ریکارڈ کرنے کی صلاحیت تو صرف خفیہ ایجنسیوں کے پاس ہے' قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات کا سیکرٹ فنڈ باقاعدہ بجٹ میں منظور ہوتا ہے' یوں اسے سیکرٹ نہیں کہا جا سکتا' گزشتہ برس یہ فنڈ ایک کروڑ روپے تھا' جس میں اضافہ کر کے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کیا گیا ہے' عدالت نے ریکارڈ طلب کیا تو پیش کریں گے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ فنڈ صحافیوں کی مختلف تنظیموں کی سفارش پر مستحق صحافیوں کے علاج و معالجے یا بچیوں کے جہیز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے' اگر کوئی فنڈ لینے والوں کے نام ظاہر کرنے کی بات کرے گا تو میں ایسا نہیں کروں گا۔ انھوںنے کہا کہ میرا صوابدیدی فنڈ 6 لاکھ روپے ہے۔ قمر زمان کائرہ نے تو وضاحت کر دی ہے لیکن جو پنڈورا باکس کھل گیا ہے' اسے بند کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ چوہدری نثار کا الزام بڑا سنگین ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کے پاس کچھ ثبوت بھی ہیں۔
اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو یہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ یہ ثبوت سامنے لائیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے تو یہی سمجھا جائے گا کہ یہ محض ویسا ہی الزام ہے جس طرح کے الزامات پیپلز پارٹی کی حکومت پر شروع سے لگائے جا رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ سیکرٹ فنڈ صرف وزارت اطلاعات کے پاس نہیں ہوتا' کئی اور اداروں کے پاس بھی ہوتا ہے' کئی اداروں کے فنڈز کا تو آڈٹ ہی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے بھی فنڈز ہوتے ہیں اور انڈر ورلڈ کے بھی۔ چوہدری نثار نے وزارت اطلاعات پر جو کیمیائی حملہ کیا ہے' اس کی تابکاری بڑی دور تک پھیلے گی لیکن زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ دورہ حاضر کے ان چند ایک ایسے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن کی اچھی شہرت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ہے جہاں تک میڈیا کے ایک طبقے کی سیکرٹ ''خوشحالی'' کا تعلق ہے، ایسے فنڈ بہت سے اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس بھی اپنے فنڈ ہوتے ہیں۔
وزارت اطلاعات تو بیچاری سب کی ''بھابی'' ہے۔ جس کے سیکریٹ فنڈ کی مالیت ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ہے جو باقاعدہ منظور ہوتا ہے۔ یہ چوہدری نثار علی صاحب کی ''زنبیل''کا کمال ہے جس میں سے ایک کروڑ بیس لاکھ کی رقم نے اربوں انڈے دیے اور وہ میڈیا ہائوسز اور صحافیوں میں تقسیم ہو گئے۔