یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
ہمارے لیڈر حضرات کی شہ پر ان کے وفادار بلا دریغ غیر شائستہ زبان کا استعمال کر رہے ہیں ‘تو تڑاخ کا کلچر فروغ پذیر ہے
ISLAMABAD:
کیا ہم اخلاقی زوال کا شکار ہیں، اس سوال کا جواب تو شاید ہاں میں ہے، کیونکہ زوال کا یہ عمل ہم نے بڑی محنت اور کوشش سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم وضع دار لوگ تھے جن کے رہن سہن کے آداب ' سلیقے او ر گفتگو کے اطوار اپنی مثال آپ تھے ۔
بچوں کو رہن سہن اور آداب ِ زندگی سکھانے کے لیے اتالیق مقرر کیے جاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اخلاقی تربیت پر حد سے زیادہ توجہ دی جاتی تھی'گھر سے ہی اخلاقی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور کسی بچے کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی بڑے بزرگ کے سامنے کسی گستاخی کی جرات بھی کر سکے اور اگر بڑوں کی کوئی بات یا عمل ناگوار بھی گزرتا تھا تو یہ سمجھ کر در گزر کر لیا جاتا تھا کہ ان کے اس عمل میں بھی ضرور کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی۔
بزرگ دانائی کے سرٹیفکیٹ کے حامل ہوتے تھے اور ان کی بات حرف آخر سمجھی جاتی تھی۔ ایک زمانے میں بڑے بڑے رؤسا اپنے بچوں کو تربیت کے لیے طوائفوں کے ہاں بجھوایا کرتے تھے تا کہ وہ ان کو اٹھنے بیٹھنے کے انداز ا ور بول چال کے اطوار سکھا دیں کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ جتنی سلیقہ شعاری طوائف کے کو ٹھے پر پائی جاتی ہے وہ بڑے بڑے رؤسا اور امراء کے ہاں ناپید تھی۔ دوسری طرف آج کا جدید اور تیز رفتار زمانہ ہے ۔
دنیا تیزی سے ترقی کی جانب سفر کر رہی ہے، پرانے وقتوں کی صرف یادیں رہ گئی ہیں جو ہماری تہذیب کو اپنی اس تیز رفتاری میں ساتھ بہا کر لے گئی ہیں۔ بزرگ اب صرف ان وقتوں کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں اور بڑی حسرت کے ساتھ اس وقت کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ آہیں آج کی نسل کے انداز گفتگو جسے بد تمیزی کہنا زیادہ مناسب ہو گا ، کی وجہ سے بھری جاتی ہیں۔
کسی قوم کی شناخت اس کی تہذیب و تمدن ہوتے ہیں جن اوصاف سے کوئی قوم بنتی ہے اور جنھیں کسی قوم کی علامت اور روایت سمجھا جاتا ہے، اگر ان اوصاف کو نقصان ہو تو یوں سمجھیے کہ وہ قومی نقصان ہے جو بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے بلکہ پورا نہیں ہوتا ہے، اور آج کل ہم اپنا یہ قومی نقصان شدو مد کے ساتھ کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کی کیا بات کریں، ہمارے سیاستدان جن کو ہم لیڈر کا درجہ دیتے ہیں ، ان کے انداز گفتگو نے حیران اور پریشان کر رکھا ہے۔
ٹیلی ویژن پر براہ راست جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی قوم میں ڈھل چکے ہیں جس کے اندر احساس اور ندامت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ٹیلی ویژن کے لائیو پروگرامز میں ہاتھا پائی کے مناظر ابھی کل کی بات ہے۔ سیاسی بحث کے دوران فریقین کی لڑائی اور اخلاقی سے گہری ہوئی گفتگو سن کربعض اوقات پروگرام کرنے والا بھی شرمندہ ہوکر پروگرام بند کر دیتا ہے۔
حکومتی اور اپوزیشن کے ترجمانوں کا انداز گفتگو سن کر یہ نہیں لگتا کہ ہم کسی معزز ملک کے شہری ہیں۔ سیاسی قیادت نے گزشتہ چند برس سے سیاست میں بد تمیزانہ انداز گفتگو کو متعارف کر ادیا ہے جس کے مظاہرے ہم آئے روز دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ہوں، وزراء ہوں یا پارلیمنٹیرینز اور اپوزیشن لیڈر اور ان کے ہم نوا ، سب کی گفتگو میں ذہانت ناپید اور علم و حکمت کی کمی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
والد صاحب بتایا کرتے تھے مرحوم ملک غلام نبی جن کا شمار لاہور کے چند بڑے رؤسا میں ہوتا تھا ان کا کسی الیکشن میں مخدوم جاوید ہاشمی سے مقابلہ تھا۔ انتخابی مہم کے دوران جاوید ہاشمی نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ فلاں گلی میں ہر گز نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں ملک صاحب کی بیٹی کا گھر ہے اور انتخابی مہم میں کوئی غیر شائستہ بات نہ ہوجائے ۔
یہی سیاستدانوں کا وہ اجتماعی کردار تھا جس پر ہم زندہ تھے۔ ایک قوم تھے اور ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھیں۔ یہ ہمارے ابتدائی پاکستانی سیاسی آداب اور کلچر کا ایک نمونہ تھا، آج کیا ہے بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ آج ایسی کوئی بات ہو تو مخالف کی بیٹی بہن کا گھر ڈھونڈ کر اس کے سامنے نعرہ بازی کریں گے اور یہ ہم آج کل کر رہے ہیں، ہمارے لیڈر حضرات کی شہ پر ان کے وفادار بلا دریغ غیر شائستہ زبان کا استعمال کر رہے ہیں 'تو تڑاخ کا کلچر فروغ پذیر ہے۔
قومی اخلاق اور اعلیٰ روایات کی جو دھجیاں آج اڑائی جارہی ہیں، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیڈر حضرات جو کسی قوم کی نمایندگی کرتے ہیں، ان کے گماشتے اگر قوم کے سامنے ناشائستہ زبان استعمال کریں گے، چاہے وہ ان کے کسی سیاسی مخالف اور ناپسندیدہ شخصیت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، قومی کی اخلاقی بربادی کا باعث ہوگی۔
انھوں نے کبھی غورو فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ قوم اپنے لیڈروں کے نقش قدم پر چلتی ہے اور ان پیروکاروں کے لیڈر پیغام رسانی کے لیے مناسب زبان کا استعمال نہیں کریں گے تو لامحالہ ان کے پیرو کار بھی اسی طرز تکلم کو اپنا لیں گے اور آج یہ کلچر بن چکا ہے کہ مخالف کو منطق سے جواب دینے کے بجائے گالم گلوچ کی جاتی ہے ۔
قوم کی اس اخلاقی گراوٹ کے ذمے داربلاشبہ قوم کے لیڈران ہیں۔ خدارا اس ملک اور قوم پر رحم کریں۔ مہذہب انداز گفتگو اپنائیں' مخالفین کی توہین اور تضحیک آمیز سے پرہیز کریں کیونکہ طرز گفتگو ہمارے اپنے خاندانی پس منظر کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ مرزاغالب اگر آج زندہ ہوتے توبڑے خوش ہوتے کہ ان کی غزل کا ایک شعر آج کے سیاستدانوں پر فٹ بیٹھتا ہے۔
ہر بات پر کہتے ہو تم کہ ' تو کیا ہے؟
تمہیں کہو کہ 'یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
کیا ہم اخلاقی زوال کا شکار ہیں، اس سوال کا جواب تو شاید ہاں میں ہے، کیونکہ زوال کا یہ عمل ہم نے بڑی محنت اور کوشش سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم وضع دار لوگ تھے جن کے رہن سہن کے آداب ' سلیقے او ر گفتگو کے اطوار اپنی مثال آپ تھے ۔
بچوں کو رہن سہن اور آداب ِ زندگی سکھانے کے لیے اتالیق مقرر کیے جاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اخلاقی تربیت پر حد سے زیادہ توجہ دی جاتی تھی'گھر سے ہی اخلاقی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور کسی بچے کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی بڑے بزرگ کے سامنے کسی گستاخی کی جرات بھی کر سکے اور اگر بڑوں کی کوئی بات یا عمل ناگوار بھی گزرتا تھا تو یہ سمجھ کر در گزر کر لیا جاتا تھا کہ ان کے اس عمل میں بھی ضرور کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی۔
بزرگ دانائی کے سرٹیفکیٹ کے حامل ہوتے تھے اور ان کی بات حرف آخر سمجھی جاتی تھی۔ ایک زمانے میں بڑے بڑے رؤسا اپنے بچوں کو تربیت کے لیے طوائفوں کے ہاں بجھوایا کرتے تھے تا کہ وہ ان کو اٹھنے بیٹھنے کے انداز ا ور بول چال کے اطوار سکھا دیں کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ جتنی سلیقہ شعاری طوائف کے کو ٹھے پر پائی جاتی ہے وہ بڑے بڑے رؤسا اور امراء کے ہاں ناپید تھی۔ دوسری طرف آج کا جدید اور تیز رفتار زمانہ ہے ۔
دنیا تیزی سے ترقی کی جانب سفر کر رہی ہے، پرانے وقتوں کی صرف یادیں رہ گئی ہیں جو ہماری تہذیب کو اپنی اس تیز رفتاری میں ساتھ بہا کر لے گئی ہیں۔ بزرگ اب صرف ان وقتوں کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں اور بڑی حسرت کے ساتھ اس وقت کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ آہیں آج کی نسل کے انداز گفتگو جسے بد تمیزی کہنا زیادہ مناسب ہو گا ، کی وجہ سے بھری جاتی ہیں۔
کسی قوم کی شناخت اس کی تہذیب و تمدن ہوتے ہیں جن اوصاف سے کوئی قوم بنتی ہے اور جنھیں کسی قوم کی علامت اور روایت سمجھا جاتا ہے، اگر ان اوصاف کو نقصان ہو تو یوں سمجھیے کہ وہ قومی نقصان ہے جو بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے بلکہ پورا نہیں ہوتا ہے، اور آج کل ہم اپنا یہ قومی نقصان شدو مد کے ساتھ کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کی کیا بات کریں، ہمارے سیاستدان جن کو ہم لیڈر کا درجہ دیتے ہیں ، ان کے انداز گفتگو نے حیران اور پریشان کر رکھا ہے۔
ٹیلی ویژن پر براہ راست جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی قوم میں ڈھل چکے ہیں جس کے اندر احساس اور ندامت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ٹیلی ویژن کے لائیو پروگرامز میں ہاتھا پائی کے مناظر ابھی کل کی بات ہے۔ سیاسی بحث کے دوران فریقین کی لڑائی اور اخلاقی سے گہری ہوئی گفتگو سن کربعض اوقات پروگرام کرنے والا بھی شرمندہ ہوکر پروگرام بند کر دیتا ہے۔
حکومتی اور اپوزیشن کے ترجمانوں کا انداز گفتگو سن کر یہ نہیں لگتا کہ ہم کسی معزز ملک کے شہری ہیں۔ سیاسی قیادت نے گزشتہ چند برس سے سیاست میں بد تمیزانہ انداز گفتگو کو متعارف کر ادیا ہے جس کے مظاہرے ہم آئے روز دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ہوں، وزراء ہوں یا پارلیمنٹیرینز اور اپوزیشن لیڈر اور ان کے ہم نوا ، سب کی گفتگو میں ذہانت ناپید اور علم و حکمت کی کمی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
والد صاحب بتایا کرتے تھے مرحوم ملک غلام نبی جن کا شمار لاہور کے چند بڑے رؤسا میں ہوتا تھا ان کا کسی الیکشن میں مخدوم جاوید ہاشمی سے مقابلہ تھا۔ انتخابی مہم کے دوران جاوید ہاشمی نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ فلاں گلی میں ہر گز نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں ملک صاحب کی بیٹی کا گھر ہے اور انتخابی مہم میں کوئی غیر شائستہ بات نہ ہوجائے ۔
یہی سیاستدانوں کا وہ اجتماعی کردار تھا جس پر ہم زندہ تھے۔ ایک قوم تھے اور ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھیں۔ یہ ہمارے ابتدائی پاکستانی سیاسی آداب اور کلچر کا ایک نمونہ تھا، آج کیا ہے بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ آج ایسی کوئی بات ہو تو مخالف کی بیٹی بہن کا گھر ڈھونڈ کر اس کے سامنے نعرہ بازی کریں گے اور یہ ہم آج کل کر رہے ہیں، ہمارے لیڈر حضرات کی شہ پر ان کے وفادار بلا دریغ غیر شائستہ زبان کا استعمال کر رہے ہیں 'تو تڑاخ کا کلچر فروغ پذیر ہے۔
قومی اخلاق اور اعلیٰ روایات کی جو دھجیاں آج اڑائی جارہی ہیں، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیڈر حضرات جو کسی قوم کی نمایندگی کرتے ہیں، ان کے گماشتے اگر قوم کے سامنے ناشائستہ زبان استعمال کریں گے، چاہے وہ ان کے کسی سیاسی مخالف اور ناپسندیدہ شخصیت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، قومی کی اخلاقی بربادی کا باعث ہوگی۔
انھوں نے کبھی غورو فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ قوم اپنے لیڈروں کے نقش قدم پر چلتی ہے اور ان پیروکاروں کے لیڈر پیغام رسانی کے لیے مناسب زبان کا استعمال نہیں کریں گے تو لامحالہ ان کے پیرو کار بھی اسی طرز تکلم کو اپنا لیں گے اور آج یہ کلچر بن چکا ہے کہ مخالف کو منطق سے جواب دینے کے بجائے گالم گلوچ کی جاتی ہے ۔
قوم کی اس اخلاقی گراوٹ کے ذمے داربلاشبہ قوم کے لیڈران ہیں۔ خدارا اس ملک اور قوم پر رحم کریں۔ مہذہب انداز گفتگو اپنائیں' مخالفین کی توہین اور تضحیک آمیز سے پرہیز کریں کیونکہ طرز گفتگو ہمارے اپنے خاندانی پس منظر کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ مرزاغالب اگر آج زندہ ہوتے توبڑے خوش ہوتے کہ ان کی غزل کا ایک شعر آج کے سیاستدانوں پر فٹ بیٹھتا ہے۔
ہر بات پر کہتے ہو تم کہ ' تو کیا ہے؟
تمہیں کہو کہ 'یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟