اقوام متحدہ کا 1988 میں ہلاکتوں اور ایرانی صدر کے مبینہ کردار کی تحقیقات کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ کو تحریر کردہ مراسلے پر 460 افراد کے دستخط موجود ہیں
BANGKOK:
اقوام متحدہ کے سابق ججوں اور تفتیش کاروں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 1988 میں ایران میں سیاسی قیدیوں کے 'قتل عام' کی تحقیقات کریں، جس میں موجودہ صدر ابراہیم رئیسی کے مبینہ طور پر ملوث میں کردار رہا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ کو تحریر کردہ مراسلے پر تقریباً 460 افراد کے دستخط موجود ہیں اور دستخط کنندگان میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے سابق صدر، اور عالمی فوجداری انصاف کے لیے سابق امریکی سفیر اسٹیفن بھی شامل ہیں۔
مزیدپڑھیں: ایران پر حملے کی تیاری پر امریکا کو بھی اعتماد میں لیا ہے، اسرائیل
خیال رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے گزشتہ برس اگست میں عہدہ سنبھالا تھا جو ماضی سے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔
امریکا اور دیگر انسانی حقوق کے رضا کاروں کا دعویٰ ہے کہ 1988 کے قتل کی نگرانی کرنے والے چار ججوں میں سے ایک کے طور پر ان کی شمولیت تھی۔ تاہم تہران نے تاحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایران نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ 1989 میں انقلابی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی کے دور میں اجتماعی پھانسیاں دی گئیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2018 کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ سزائے موت پانے والوں کی تعداد تقریباً 5 ہزار تھی جبکہ 'حقیقی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے'۔
اقوام متحدہ کے سابق ججوں اور تفتیش کاروں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 1988 میں ایران میں سیاسی قیدیوں کے 'قتل عام' کی تحقیقات کریں، جس میں موجودہ صدر ابراہیم رئیسی کے مبینہ طور پر ملوث میں کردار رہا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ کو تحریر کردہ مراسلے پر تقریباً 460 افراد کے دستخط موجود ہیں اور دستخط کنندگان میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے سابق صدر، اور عالمی فوجداری انصاف کے لیے سابق امریکی سفیر اسٹیفن بھی شامل ہیں۔
مزیدپڑھیں: ایران پر حملے کی تیاری پر امریکا کو بھی اعتماد میں لیا ہے، اسرائیل
خیال رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے گزشتہ برس اگست میں عہدہ سنبھالا تھا جو ماضی سے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔
امریکا اور دیگر انسانی حقوق کے رضا کاروں کا دعویٰ ہے کہ 1988 کے قتل کی نگرانی کرنے والے چار ججوں میں سے ایک کے طور پر ان کی شمولیت تھی۔ تاہم تہران نے تاحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایران نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ 1989 میں انقلابی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی کے دور میں اجتماعی پھانسیاں دی گئیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2018 کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ سزائے موت پانے والوں کی تعداد تقریباً 5 ہزار تھی جبکہ 'حقیقی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے'۔