ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرپشن رپورٹ

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اپنی سیاست کو دھیمے پن کی خوبیوں سے مرصع کرلیں

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اپنی سیاست کو دھیمے پن کی خوبیوں سے مرصع کرلیں فوٹوفائل

کراچی:
ملک میں گڈگورننس کے حوالے سے سیاسی بیانات کی جنگ چل رہی ہے اور جس روز سیاسی ماحول کو ایک شفاف اور جمہوری فضا راس آئے گی، ملک کے بنیادی سیاسی مسئلے حل ہوجائیں گے، سیاسی شفافیت سیاسی بریک تھرو کی جگہ لے گی، اور زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ سیاسی، معاشی ، زرعی اور جمہوری ثمرات اور مراعات کی عوام تمنا بھی رکھتے ہیں۔

ملک بھی اپنی ایک مثالی جمہوری ملک کی حیثیت میں اپنی ایک انفرادیت اور شناخت بنا سکے گا ، لیکن بدقسمتی سے ملکی سیاست کو بنیادی حقائق و مسائل کے حل کے بجائے ایک صاف ستھرے سیاسی نظام کی تلاش میں 74سال لگ گئے اور ملک کو ایک منصفانہ، مساویانہ اور شفاف جمہوری، سماجی و سیاسی نظام نہیں ملا۔ گزشتہ دنوں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کرپشن انڈیکس رپورٹ شایع کی جس نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن 16 درجے بڑھ گئی، دنیا میں 140ویں نمبر پر جا پہنچا، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، امریکا 27 ویں، بھارت 86ویں، جنوبی سوڈان کی آخری پوزیشن آئی، رپورٹ کے مطابق86 ممالک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کرپشن تقریباً رک گئی، مگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے سے سی پی آئی اسکور میں نمایاں تنزلی ہوئی،3 برسوں میں حکومتی دعوؤں کے برعکس 23درجے تنزلی ہوئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کا وعدہ پہلے90 دن میں پورا کردیا تھا۔ موجودہ دور حکومت میں کوئی مالی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ سابقہ ادوار میں پاناما جیسے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آتے رہے۔ وزیر اعظم کی صدارت میں حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا۔ عمران خان نے کہا وزراء شہباز شریف کے کرپشن کیسوں اور منی لانڈرنگ کے معاملات کو مزید اجاگرکریں۔

عوام کو بتایا جائے کہ شریف خاندان نے کس طرح چپڑاسیوں اور کلرکوں کے نام پر منی لانڈرنگ کی۔ صحت کارڈ جیسی بڑی سہولت کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کریں، عوام کو بہترین معاشی اشاریوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ بین الاقوامی اداروں کی معیشت کے بارے میں رپورٹوں کا بھی بتایا جائے۔ کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہوا تو معیشت مزید بہتر ہو گی۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں مالی کرپشن کا کوئی ذکر نہیں ہے ، صرف قانون کی حکمرانی سے متعلق معاملات کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک تقریب میں وزیر اعظم نے قومی صحت کارڈ کا باضابطہ اجرا کر دیا۔

عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو بہترین اسپتالوں میں مفت علاج کی فراہمی کا وعدہ پورا کر دکھایا، آنے والا وقت قومی صحت کارڈ جیسے ہمارے انقلابی اقدامات کی افادیت ثابت کریگا، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی شہریوں کو اس طرح کی ہیلتھ انشورنس میسر نہیں۔

ملک کا پیسہ لوٹنے والے حکمران کھانسی کا علاج کرانے بھی باہر جاتے تھے، ان کا سارا خاندان باہر بیٹھا ہے، باہر علاج کرانے والوں کو غریب عوام کا کیا پتہ، پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنائیں گے جس میں ریاست کمزور اور غریب کی ذمے داری لے اور قانون کی حکمرانی ہو، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان فلاحی ریاست کے طور پر اب دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ صحت کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو10لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت میسر ہوگی۔ جو نظام ہم لے کر آئے ہیں وہ برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سسٹم سے بھی بڑھ کر ہے، یہ کارڈ امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر سب کے لیے ہے۔

یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ملکی سیاست میں احتساب نے ہمیشہ سیاست کو صائب فیصلہ کرنے کے بجائے ملکی سیاست کو مزید الجھنوں کا شکارکیا، پہلے سیاست دانوں نے انتخابات کے انعقاد میں احتساب کی اولیت کو ترجیح دینے کی بحث چھیڑی، پھر نہ احتساب کی منزل آئی اور نہ سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ ہوسکا، لیکن ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ احتساب اور شفافیت دو ایسے خوشنما الفاظ ہیں کہ تمام ووٹرز کے دل کی آواز بن جاتے ہیں تاہم انتخابات کے نتائج عوام کو مثالی جمہوریت نہ دے سکے بلکہ سیاست میں جو آلودگی پھیلی اس میں جمہوریت کو اپنی منزل نہیں مل سکی۔

74 برسوں میں قوم کو ایسی عوام بیزار پالیسیوں نے محاصرہ کیا جس میں عوام خود ہی راندہ درگاہ ہو گئے، ایوان بے وقعت ہوئے، سیاسی اظہار خیال کی قدریں بے آبرو ہوئیں، بے لوث کارکنوں کی بے توقیری ہوئی، سنجیدہ فکر سیاست دانوں کو گوشہ نشینی پر مجبور کر دیا گیا ، یوں سیاست میں لہجے سنجیدگی سے محروم ہوئے، دانشوروں نے کہنا شروع کردیا کہ ملک میں ہزاروں سیاست دان ہیں، مگر اہل سیاست کوئی نہیں۔

آج عوام اسی جمہوریت کو آج بھی یاد کرتے ہیں جو مغرب میں متعارف ہوئی، وہاں جمہوریت عوامی مسائل کے حل کے گرد گھومتی ہے، لیکن ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کو کرپشن نے منزل سے دور کردیا، غیر جمہوری رویے اور آزادی دو ایسے نفیس اور خوشنما نعرے تھے کہ عوام ماضی میں انتظار کرتے تھے کہ خوشحالی آئے گی تو پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے۔


بہرحال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ استدلال پیش کیا کہ پاکستان کے حکام نے ایمنسٹی کے اعداد و شمار کی معروضات کے جواب میں پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے پہلو پر زور دیا۔ رپورٹ میں حکومت کی کسی کرپشن کا ذکر نہیں کیا، اس حوالے سے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ موقف سامنے آیا کہ حکومتی ''اسپن ڈاکٹرز'' جو چاہیں کہیں لیکن حقیقت ہم نے رپورٹ میں دے دی ہے۔

وزیراعظم نے کہا ہم نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔ ریاست مدینہ نے کمزور طبقے کی ذمے داری لی اور قانون کی حکمرانی قائم کی۔ ہیلتھ انشورنس پر ساڑھے چار سو ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے اور وہ عام آدمی کی مشکلات اور تکالیف سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کے خلاف جیسے مہم چلائی گئی ایسی کسی وزیراعلیٰ کے خلاف نہیں چلائی گئی لیکن جب سروے کی رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ وہ نمبر ون وزیراعلیٰ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے۔ سول قانون میں اصلاحات پر اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا حکومت سول اور فوجداری نظامِ عدل کے قوانین میں ضروری تبدیلیوں سے ملک میں انصاف کے نظام کو موثر اور اِس تک غریب کی رسائی کو یقینی بنا رہی ہے،1908کے بعد پہلی دفعہ حکومت سول قانون میں تبدیلی لے کر آ رہی ہے، ایک صدی پرانے قوانین میں اصلاحاتی تبدیلی کے حوالے سے ماضی میں کسی حکومت نے نہیں سوچا۔ ماضی کی حکومتوں کی ان قوانین میں تبدیلی نہ کرنے کی بڑی وجہ اشرافیہ کا ان قوانین کی آڑ میں قانون کی گرفت سے اپنے لیے راہِ فرار کے راستے محفوظ رکھنا تھا۔

اپوزیشن اراکین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو فرد جرم سے تشبیہ دی ہے جب کہ ارباب اختیار اپنے بیانیے پر قائم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دورِ حکومت میں عدلیہ آزاد ہے، حکومت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان میں قانون کی بالادستی کے لیے اصلاحات لے کر آئی، انصاف کی فوری اور یقینی فراہمی کا براہِ راست تعلق گورننس کی بہتری سے ہے۔

لوگوں تک فوری اور سستے انصاف کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ کسٹمز کے عالمی دن پر پیغام میں وزیر اعظم نے کہا موجودہ حکومت نے شفافیت اور مستند ڈیٹا کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے پیپر لیس ای سسٹم کا آغاز کیا اور اس پر عمل درآمد کر رہی ہے۔

یہ بات اطمینان بخش ہے کہ پاکستان کسٹمز تجارتی لین دین کے حوالے سے مفید ڈیٹا تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے آغاز سے معیشت ڈیجیٹلائز ہو گی اور محصولات میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکومت نے ریکارڈ ٹیکس محصولات اکٹھے کیے جو ٹیکس دہندگان کی آسانی کے لیے ای فائلنگ کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ عوام کے فائدے اور بہبود کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو اپنانا ضروری ہے۔ عمران خان نے ایک ٹویٹ میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو سمجھ سے بالاتر قرار دیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے کرپشن کے بیانیے کے دفاع کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے شہزاد اکبرکے استعفے کو احتساب کے حکومتی بیانیے کی شکست سے تعبیرکیا۔

دریں اثنا نیب کی طرف سے جاری ایک بیان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سیاستدانوں کی نسبت بیوروکریٹس اور تاجر زیادہ کرپٹ ہیں۔ ہمارے ایک ممتاز دانشور سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو پاکستان میں قیام کرتے ہوئے کس خاص بات نے متاثر کیا، جب کہ آپ نے انقلابی مضامین لکھے اور گوریلا جنگوں میں شرکت بھی کی ہے، تو انھوں نے نہایت معصومیت سے جواب دیا کہ ''میں نے پاکستان میں حکمرانوں سے کوئی سنجیدہ سیاسی گفتگو نہیں سنی۔ بس ایک شور سننے کو ملا، وہ شور تو میرے اندر پہلے سے موجود تھا، مجھے یہ آرزو تھی کہ سیاست دانوں سے جمہوری حوالوں سے اچھی گفتگو سن لوں۔''

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اپنی سیاست کو دھیمے پن کی خوبیوں سے مرصع کرلیں، ہمارے ایوان سے ایسے سوال و جواب ہوں جو طالب علموں کو افکارکی روشنی عطا کریں، ملک سے کرپشن کا نام و نشان مٹ جائے، اسی جمہوریت کے لیے میں زندہ ہوں، ظہیر کاشمیری کا سدا بہار شعر ہے۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ ِآخر ِشب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
Load Next Story