نظام سے لاتعلق عوام
مخصوص حلقوں کی طرف سے ایک بار پھر صدارتی نظام کی حمایت میں مہم شروع ہوگئی ہے
RAWALPINDI/ISLAMABAD:
مخصوص حلقوں کی طرف سے ایک بار پھر صدارتی نظام کی حمایت میں مہم شروع ہوگئی ہے ، جس کی اپوزیشن بھرپور مخالف ہے ، تو یہ بھی حیرت سے دیکھا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی پراسرار طور پر خاموش ہے جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ صدارتی نظام کی مہم کے پیچھے حکومت اور پی ٹی آئی ہے۔
عمران خان خود بھی حکومت ملنے سے قبل ایوب خان کے صدارتی نظام کے حامی رہے ہیں اور انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی بھی مکمل حمایت کی تھی اور ان کی حکومت کے 3 سالوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ پارلیمانی نظام سے غیر مطمئن اور صدارتی نظام بلکہ جمہوریت کے بجائے آمریت کے حامی ہیں اور انھیں شاہی نظام حکومت بہت پسند ہے۔
ملک میں تقریباً 58 سال تک صدارتی نظام غیر سویلین اور سویلین صدور کی صورت میں نافذ رہا جب کہ 1973 کے بعد پارلیمانی نظام کے نفاذ پر ملک میں جمہوریت کا جو راگ الاپا گیا وہ بھی حقیقی جمہوریت نہیں تھی بلکہ پارلیمانی نظام کی آڑ میں شخصی آمریت تھی ، جس کی ابتدا خود ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور موجودہ حکمرانوں نے تو شخصی آمریت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بھٹو صاحب نے تو پی ایس اے کی اپنے خلاف تحریک شروع ہونے کے بعد تمام اپوزیشن رہنماؤں کوگرفتار کرایا تھا مگر موجودہ حکمرانوں نے انتخابی مہم کے دوران ماضی کی حکومتوں اور اپوزیشن رہنماؤں پرکرپشن کے الزامات لگائے تھے اور ان کے خلاف الزامات اور اپنے دعوؤں کی بھرپور مہم چلائی تھی مگر اقتدار میں آنے کے بعد نہ وہ کسی اپوزیشن لیڈر کو سزا دلا سکے اور نہ جمہوری حکمران ثابت ہوئے بلکہ اپوزیشن لیڈر سمیت کسی اپنے مخالف سیاسی لیڈر سے ملنا گوارا نہیں کیا گیا۔
بھٹو مرحوم نے ملکی مسائل اور اپنی حکومت کے خلاف احتجاج پر اے پی سی بلائی تھی مگر موجودہ حکومت نے کوئی اے پی سی بلانا ضروری نہ سمجھا اور نہ اہم معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا گوارا کیا بلکہ قومی سلامتی کی من پسند پالیسی پر پارلیمنٹ کو بھی بائی پاس کیا جس کی وجہ سے اپوزیشن ان کے خلاف متحد ہوئی ، مگر بالاتروں کے ہاتھ کے باعث موجودہ حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ اس ہاتھ کا برملا اعتراف حکومتی وزیر کرچکے ہیں اور اپنے بیان پر اب تک قائم ہیں۔
عمران خان صدر ایوب کے دور میں ملک میں ہونے والی صنعتی ترقی کو تسلیم کرتے ہیں اور ملک دولخت ہونے کا الزام بھی صدر یحییٰ کے دور حکومت پر ہے مگر اس حقیقت کو اب عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کو جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں بہترین اور مکمل بااختیار بلدیاتی نظام ملا تھا جس میں پی پی کے ناظموں نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا اور آج پی پی پی کا سندھ کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ بلدیاتی نمایندوں کو جنرل پرویز مشرف دور کے اختیارات نہیں دیے جاسکتے۔
ان کا یہ کہنا جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے لیے ایک سبق اور پارلیمانی نظام کے حامیوں کے لیے حیرت کا مقام ہونا چاہیے کہ عوام کے نچلی سطح کے نمایندوں کو فوجی صدارتی دور میں ملنے والے اختیارات 2008 میں پارلیمانی جمہوریت کے حامیوں نے ختم کردیے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور صدارت میں ملک سے کمشنری نظام ختم کرکے عوام کے نچلی سطح کے بلدیاتی نمایندوں کو حقیقی ضلع حکومتیں دیں اور بیورو کریٹس کو ناظمین کے ماتحت کرکے جمہوریت کی بنیاد مضبوط کی تھی کہ ارکان اسمبلی اپنی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کے ناظمین منتخب ہونے کو ترجیح دینے لگے تھے۔
صدر ایوب کے دور میں چینی کی قیمت میں چار آنے کے اضافے سے ان کے خلاف ملک میں تحریک چل گئی تھی مگر موجودہ حکومت کے پارلیمانی نظام میں چینی ایک سو بیس روپے کلو تک جا پہنچی مگر عوام اس حکومت کا کچھ اس لیے نہ بگاڑ سکے کہ انھیں ان طاقتوروں کی پشت پناہی حاصل تھی جنھوں نے ملک میں اپنے اپنے دور میں صدارتی نظام کے ذریعے حکومتیں کی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل یحییٰ کے دور میں ملک دولخت ہوا تھا اور صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک میں منشیات اور اسلحہ کو فروغ ملا جس کے بعد 11 سال پارلیمانی نظام رہا اور صدر مشرف کے بعد 2008 سے 2021 تک عمران خان پانچویں وزیر اعظم ہیں جن کے دور میں ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جس کی وجہ سے خودکشیاں بڑھیں اور غربت تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
حقیقت میں 74 سالوں میں عوام صدارتی و پارلیمانی نظاموں سے لاتعلق اور اپنے معاشی مسائل میں الجھے ہیں۔ عوام کو صدارتی نظام سے زیادہ پارلیمانی نظام میں مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ان کے نزدیک نظاموں سے زیادہ اپنے مسائل ترجیح رہے ہیں نظام کا مسئلہ سیاستدانوں کا ہے عوام کا نہیں انھیں صرف اپنے مسائل سے دلچسپی ہے۔
مخصوص حلقوں کی طرف سے ایک بار پھر صدارتی نظام کی حمایت میں مہم شروع ہوگئی ہے ، جس کی اپوزیشن بھرپور مخالف ہے ، تو یہ بھی حیرت سے دیکھا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی پراسرار طور پر خاموش ہے جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ صدارتی نظام کی مہم کے پیچھے حکومت اور پی ٹی آئی ہے۔
عمران خان خود بھی حکومت ملنے سے قبل ایوب خان کے صدارتی نظام کے حامی رہے ہیں اور انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی بھی مکمل حمایت کی تھی اور ان کی حکومت کے 3 سالوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ پارلیمانی نظام سے غیر مطمئن اور صدارتی نظام بلکہ جمہوریت کے بجائے آمریت کے حامی ہیں اور انھیں شاہی نظام حکومت بہت پسند ہے۔
ملک میں تقریباً 58 سال تک صدارتی نظام غیر سویلین اور سویلین صدور کی صورت میں نافذ رہا جب کہ 1973 کے بعد پارلیمانی نظام کے نفاذ پر ملک میں جمہوریت کا جو راگ الاپا گیا وہ بھی حقیقی جمہوریت نہیں تھی بلکہ پارلیمانی نظام کی آڑ میں شخصی آمریت تھی ، جس کی ابتدا خود ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور موجودہ حکمرانوں نے تو شخصی آمریت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بھٹو صاحب نے تو پی ایس اے کی اپنے خلاف تحریک شروع ہونے کے بعد تمام اپوزیشن رہنماؤں کوگرفتار کرایا تھا مگر موجودہ حکمرانوں نے انتخابی مہم کے دوران ماضی کی حکومتوں اور اپوزیشن رہنماؤں پرکرپشن کے الزامات لگائے تھے اور ان کے خلاف الزامات اور اپنے دعوؤں کی بھرپور مہم چلائی تھی مگر اقتدار میں آنے کے بعد نہ وہ کسی اپوزیشن لیڈر کو سزا دلا سکے اور نہ جمہوری حکمران ثابت ہوئے بلکہ اپوزیشن لیڈر سمیت کسی اپنے مخالف سیاسی لیڈر سے ملنا گوارا نہیں کیا گیا۔
بھٹو مرحوم نے ملکی مسائل اور اپنی حکومت کے خلاف احتجاج پر اے پی سی بلائی تھی مگر موجودہ حکومت نے کوئی اے پی سی بلانا ضروری نہ سمجھا اور نہ اہم معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا گوارا کیا بلکہ قومی سلامتی کی من پسند پالیسی پر پارلیمنٹ کو بھی بائی پاس کیا جس کی وجہ سے اپوزیشن ان کے خلاف متحد ہوئی ، مگر بالاتروں کے ہاتھ کے باعث موجودہ حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ اس ہاتھ کا برملا اعتراف حکومتی وزیر کرچکے ہیں اور اپنے بیان پر اب تک قائم ہیں۔
عمران خان صدر ایوب کے دور میں ملک میں ہونے والی صنعتی ترقی کو تسلیم کرتے ہیں اور ملک دولخت ہونے کا الزام بھی صدر یحییٰ کے دور حکومت پر ہے مگر اس حقیقت کو اب عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کو جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں بہترین اور مکمل بااختیار بلدیاتی نظام ملا تھا جس میں پی پی کے ناظموں نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا اور آج پی پی پی کا سندھ کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ بلدیاتی نمایندوں کو جنرل پرویز مشرف دور کے اختیارات نہیں دیے جاسکتے۔
ان کا یہ کہنا جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے لیے ایک سبق اور پارلیمانی نظام کے حامیوں کے لیے حیرت کا مقام ہونا چاہیے کہ عوام کے نچلی سطح کے نمایندوں کو فوجی صدارتی دور میں ملنے والے اختیارات 2008 میں پارلیمانی جمہوریت کے حامیوں نے ختم کردیے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور صدارت میں ملک سے کمشنری نظام ختم کرکے عوام کے نچلی سطح کے بلدیاتی نمایندوں کو حقیقی ضلع حکومتیں دیں اور بیورو کریٹس کو ناظمین کے ماتحت کرکے جمہوریت کی بنیاد مضبوط کی تھی کہ ارکان اسمبلی اپنی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کے ناظمین منتخب ہونے کو ترجیح دینے لگے تھے۔
صدر ایوب کے دور میں چینی کی قیمت میں چار آنے کے اضافے سے ان کے خلاف ملک میں تحریک چل گئی تھی مگر موجودہ حکومت کے پارلیمانی نظام میں چینی ایک سو بیس روپے کلو تک جا پہنچی مگر عوام اس حکومت کا کچھ اس لیے نہ بگاڑ سکے کہ انھیں ان طاقتوروں کی پشت پناہی حاصل تھی جنھوں نے ملک میں اپنے اپنے دور میں صدارتی نظام کے ذریعے حکومتیں کی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل یحییٰ کے دور میں ملک دولخت ہوا تھا اور صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک میں منشیات اور اسلحہ کو فروغ ملا جس کے بعد 11 سال پارلیمانی نظام رہا اور صدر مشرف کے بعد 2008 سے 2021 تک عمران خان پانچویں وزیر اعظم ہیں جن کے دور میں ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جس کی وجہ سے خودکشیاں بڑھیں اور غربت تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
حقیقت میں 74 سالوں میں عوام صدارتی و پارلیمانی نظاموں سے لاتعلق اور اپنے معاشی مسائل میں الجھے ہیں۔ عوام کو صدارتی نظام سے زیادہ پارلیمانی نظام میں مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ان کے نزدیک نظاموں سے زیادہ اپنے مسائل ترجیح رہے ہیں نظام کا مسئلہ سیاستدانوں کا ہے عوام کا نہیں انھیں صرف اپنے مسائل سے دلچسپی ہے۔