انگریزی ذریعہ تعلیم کی مخالفت کیوں

اردو ہماری قومی زبان ہے، قومی زبان کا تعلق پوری قوم سے ہوتا ہے

jabbar01@gmail.com

اردو ہماری قومی زبان ہے، قومی زبان کا تعلق پوری قوم سے ہوتا ہے ، جسے عرف عام میں سب کی بولی کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہماری افسر شاہی نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ پاکستان کا ذریعہ تعلیم اردو رکھا گیا تو ایسی صورت میں افسر شاہی کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی ، لہٰذا افسر شاہی نے ملک میں دوہرا نظام رائج کردیا اور اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ انگریزی کو قرار دے کر انگریزی کی بالادستی قائم کردی۔

کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا اور اس پر عبور حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کو ذریعہ تعلیم بنانا ایک تباہ کن عمل ہے۔ اس عمل کو اپنانے کے بعد ہمارے یہاں تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں ، اس کے نتیجے میں ہمارا نظام تعلیم گرگیا ہے۔

ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ جماعتوں تک ہمارے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا بڑا حصہ انگریزی زبان سیکھنے میں صرف ہوتا ہے ، اس کی ساری توانائیاں انگریزی میں لکھی ہوئی بات کو سمجھنے اور اس زبان کی اجنبیت کو اپنے ذہن سے دورکرنے کے عمل میں صرف ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں علم کے بنیادی تصورات ان کے ذہنوں میں واضح نہیں ہو پاتے اس طرح وہ رٹنے کے عمل کو اختیار کرکے امتحانات میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس اجنبی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے نتیجے میں ہمارا طالب علم لسانی جبر اور تعلیمی تضاد کا شکار ہے اس نظام تعلیم نے نہ صرف اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو حد درجہ کمزور کر دیا ہے بلکہ اس کے فکر اور شعورکو بھی ناکارہ بنا دیا ہے۔

انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حامی عناصرکی جانب سے اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر انگریزی کو نظر اندازکیا گیا تو ملک کا بین الاقوامی دنیا سے رابطہ کٹ جائے گا اور ملک بین الاقوامی سطح پر تنہا رہ جائے گا۔ ان عناصر سے میرا سوال ہے کہ چین، جاپان، جرمنی اور فرانس نے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا تو کیا ان ممالک کی ترقی رک گئی اورکیا ان ممالک کا بین الاقوامی دنیا سے رابطہ کٹ گیا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس سوال کا جواب دیا جائے کہ اتنا بڑا علمی دعویٰ کیوں کیا؟

انگریزی کی خیالی افادیت نے ہمیں اپنی گرفت میں اس طرح لے رکھا ہے کہ ہم اس کو اپنانے میں ہی اپنی راہ نجات سمجھ رہے ہیں ، حالانکہ اس کا تباہ کن اثر ہمارے نظام تعلیم پر ہی نہیں بلکہ ہماری قومی زندگی پر بھی پڑا ہے۔ مقابلے کے سارے امتحانات اور انٹرویو انگریزی زبان میں ہوتے ہیں اس سے وہ طالب علم جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہوتا ہے وہ اپنی ساری خدا داد صلاحیتوں اور ذہانت کے باوجود آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے میں ناکام رہتے ہیں اس لیے ایک فیصد طبقہ جو انتظامی اور قومی مناصب پر قابض ہے اس کی بالادستی برقرار رہتی ہے۔

انگریزی زبان ہماری تہذیبی، تاریخی، معاشرتی اور فکری لحاظ سے ہماری زبان نہیں ہے ، ایک ایسی اجنبی زبان جس سے عوام کا گہرا رابطہ استوار نہ ہو تو وہ عوام اور خواص کے درمیان ایک دیوار بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتی اداروں اور عوام میں رشتہ کٹ گیا ہے۔

مخصوص طبقہ کا کوئی رشتہ براہ راست عوام سے نہیں اور نہ ہی عوام کے مسائل سے تعلق۔ اس لیے سارے معاشرے میں قومی یک جہتی کا فقدان ہے اس عمل نے ہماری اکثریتی آبادی کو قومی دھارے سے کاٹ کر دورکردیا ہے ، جس کے نتیجے میں سارا معاشرہ تہذیبی، فکری، معاشی اور سیاسی طور پر مسلسل گہرے بحرانوں کا شکار ہے۔


ایسے حالات میں ہونا یہ چاہیے کہ انگریزی کی بالادستی کے خاتمے کے لیے منظم انداز میں کوشش کی جاتی تاکہ مخصوص طبقے کی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بعض عناصرکی جانب سے قومی زبان اردو ہی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا بہتر جواب تو اہل علم ہی دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اردو کا اصل مقابلہ انگریزی کی بالادستی سے ہے ، وہ عناصر جو انگریزی کی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، وہ اصل مسئلہ کے جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے قومی زبان اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اردو انگریزی کی نہیں علاقائی زبانوں کی حریف ہے۔ حالاں کہ قومی زبان اردو کا پاکستان کی ساری علاقائی زبانوں سے گہرا ذہنی، معاشرتی اور فکری رشتہ ہے۔

لسانی اور معاشرتی سطح پر دیکھیے اردو اور پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں کے مابین کوئی تصادم یا ٹکراؤ نہیں۔ یہ سب زبانیں ایک دوسرے کے لیے طاقت اور فروغ کا ذریعہ ہیں۔ ایک کی ترقی دوسرے کی ترقی سے وابستہ ہے۔ ان عناصر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اردو ہماری قومی یک جہتی کی علامت ہے اس کو ضرب لگانے کا مطلب قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم پاکستان میں عدل و انصاف کی بنیادوں پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل نہ دے سکے جس میں سب کو برابری کے حقوق اور مساوی حیثیت حاصل ہو، جس کی وجہ سے احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔

ہم اپنے درمیان صوبائی اور علاقائی سطح پر اختلافات کی جو باتیں سنتے ہیں وہ دراصل اسی احساس محرومی کا نتیجہ ہیں ، ہمیں اس کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں ہمیں مثبت سوچ کو فروغ دینا ہوگا جو چیز قومی یک جہتی میں اضافہ کرے اسے اپنا لیا جائے اور جو چیز قومی یک جہتی کے لیے نقصان دہ ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔

ایک مفکر کا قول ہے'' قوموں میں کوئی چیز اس قدر اختلافات پیدا نہیں کرتی جتنا یہ کہ ان کی زبانیں مختلف ہوں اور کوئی چیز اتنا اتحاد اور یک جہتی پیدا نہیں کرتی جتنی کہ ایک مشترکہ زبان۔ یہ حقیقت اس قدر عیاں ہے کہ اس کے لیے کسی مثال کی ضرورت نہیں۔''

دانشورکے اس قول کی روشنی میں اردو کی اہمیت کو کسی طرح بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی 99 فیصد آبادی جو ملک کی اصل طاقت ہے وہ اردو کے نفاذ کے حق میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اکثریتی آبادی کی صلاحیتوں کو معاشرے کے ارتقائی عمل میں شامل کیا جائے اور انگریزی کی بالادستی سے نجات حاصل کی جائے۔ اسی میں ہماری بقا اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔

انگریزی کی مخالفت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کو اپنے اوپر حرام تصور کرلیا جائے یا اس کے وجود سے ہی انکار کرلیا جائے۔ میرے نزدیک انگریزی کو انگریزی کی طرح سیکھا جائے اسے ذریعہ تعلیم ہرگز نہ بنایا جائے۔
Load Next Story