فن موسیقی اور موجودہ دور
پاکستان میں روایتی آلات موسیقی کی فہم رکھنے والے اور سکھانے والے اب نایاب ہیں
ISLAMABAD:
موسیقی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ شاید انسان۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اندازاً اس کی ابتدا کب ہوئی لیکن شاید جیسے ہی انسان نے آوازوں میں شناخت شروع کی تو کچھ آوازیں کانوں کو بھلی محسوس ہوئی ہوں گی۔ آوازوں کا ایک مخصوص اُتار چڑھاؤ، ترتیب اور پھر ان آوازوں میں جذبات کی شمولیت نے موسیقی کو جنم دیا ہوگا۔
ہر دور کے انسان کو ذہنی اور روحانی سکون کےلیے موسیقی کی ضرورت پڑتی رہی اور پھر اس ضرورت نے مختلف ساز و آلات کو جنم دیا۔ ڈھول، ڈھولک، طبلہ، سارنگی، ہارمونیم، ستار، بانسری آلات موسیقی کی فہرست میں سے چند ایک ہیں۔ آج کے دور میں یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ وقت کے ساتھ نئے آلاتِ موسیقی، پرانے آلات کی جگہ لیتے رہے جیسے
ستار: یہ ''ایکتار'' اور ''دو تار'' کی جدید صورت ہے۔
پکھاواج: پکھاواج کی جدید صورت طبلہ اور کرناٹک موسیقی کے مردنگم ہیں۔
ہارمونیم: ماؤتھ آرگن اور چائنیز شینگ کی جدید صورت ہے۔
وینا: یہ ستار کی پیش رو ہے۔
فن موسیقی کبھی بھی مذاہب اور فرقوں کے چپقلش کا حصہ نہیں بنا۔ ہر دور میں اس کا سفر جاری رہا اور نت نئے آلات موسیقی اور موسیقار جنم لیتے رہے۔ برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر مغل دربار میں فن موسیقی کو ہمشہ پذیرائی ملی، اسی لیے اس دور میں یہ فن اپنے عروج کو پہنچا اور تاریخ نے تان سین جیسے موسیقاروں کو جنم دیا۔
ابوالفضل کے مطابق مغل باشاہ اکبر کے دربار میں نو رتن یعنی اپنے فن کے نو بہترین اشخاص موجود تھے جن میں تان سین بھی شامل تھا۔ بادشاہ اکبر خود بہترین نقارہ (نگارا) بجاتا تھا۔ اکبر کے دربار کے مشہور آلات موسیقی سر منڈل، بین، نے، کرنا اور تانپورہ تھے۔ اس دور میں ایرانی اور انڈین موسیقی کا امتزاج ہوا۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی فن موسیقی کو خاطر خواہ پذیرائی ملی۔ ان ادوار کے مشہور موسیقاروں میں باز بہادر، بلاس خان (تان سین کا بیٹا)، چھاتر خان، ماکھو، شوکی، خوشحال خان اور بسرم خان قابل ذکر ہیں۔ البتہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں شاہی دربار میں موسیقی پر پابندی لگا دی گئی۔
سرحدوں نے جہاں قومیتوں کی حد بندی کی، وہیں موسیقار بھی بٹ گئے۔ پاکستان میں فن موسیقی سے وابستہ چند بڑے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جیسے استاد بڑے غلام علی خان، جنھوں نے برصغیر میں سر منڈل کو متعارف کروایا اور گائیکی میں اپنا لوہا منوایا۔ پاکستان میں گائیکی کے بڑے ناموں میں شام چراسی گھرانہ، پٹیالہ گھرانہ، مہدی حسن مرحوم اور نصرت فتح علی خان مرحوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جنھوں نے کلاسیکی موسیقی کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اندرون شہر لاہور جو کہ صدیوں کی تاریخ کا امین ہے، یہاں آج بھی ایک محلہ ایسا موجود ہے جہاں کے رہائشی صدیوں سے اس فن سے وابستہ ہیں اور آج بھی ان کا ذریعہ معاش یہی فن ہے۔ اس گلی کا نام گلی سیٹھاں والی ہے جو کہ ٹیکسالی دروازہ کے اندر، پانی والا تالاب کے قریب واقع ہے اور یہیں آلات موسیقی کا ایک تاریخی بازار ''بازار لاہنگا منڈی'' بھی موجود ہے۔ اندرون شہر لاہور نے اس ملک کو بہت سے نامور فنکار دیے ہیں جیسے کہ میڈم نورجہاں، استاد حامد علی خان، شفقت امانت علی خان، مرحوم طبلہ نواز پالے خان، نتھو خان سارنگی نواز اور طافو برادران۔
اس وقت پاکستان میں بہت سے ادارے موسیقی کی تعلیم دے رہے ہیں جن میں سے بیشتر جدید موسیقی سکھاتے ہیں جبکہ روایتی آلات موسیقی کی فہم رکھنے والے اور سکھانے والے اب نایاب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناپید ہوتے ہوئے اس فن کو پذیرائی ملے تاکہ نوجوان نسل کو روایتی آلات موسیقی سیکھنے اور سننے کو ملے تاکہ آنے والے وقتوں میں یہ ساز اور دھنیں ناپید نہ ہوجائیں۔
ایسی ہی ایک کاوش اندرون شہر لاہور کے لوہاری دروازہ میں نظر آتی ہے۔ جہاں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی جانب سے دروازہ کی عمارت میں ایک سارنگی اسکول کھولا گیا ہے۔ یہ اسکول سارنگی نواز اسرار نبی بخش نے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے تعاون سے قائم کیا ہے۔ سارنگی نواز اسرار نبی بخش، سارنگی نواز استاد نبی بخش کے صاحبزادے ہیں، جنہیں پاکستان کا پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ حاصل تھا اور ان کا گھرانہ سارنگی بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور تھا اور بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا تھا۔
2017 میں استاد اسرار نبی بخش نے والڈ سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ اندرون شہر لاہور میں ایک اسکول قائم کرنے کے خواہش مند ہیں جہاں وہ نئی نسل کو آلات موسیقی کی تعلیم دے سکیں۔ ڈائریکٹر جنرل نے ان کی خواہش کا خیر مقدم کرتے ہوئے لوہاری دروازہ کی عمارت، جو ان دنوں والڈ سٹی اتھارٹی کے کنٹرول میں آئی تھی، وہاں انھیں اس اسکول کو آباد کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ تمام ضروری انتظامات بھی کیے گئے۔ اس وقت اس اسکول میں 16 طالب علم آلات موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
سارنگی اسکول میں سارنگی، طبلہ، ڈھولک، ہارمونیم اور سُر سکھائے جاتے ہیں۔ اس سارنگی اسکول میں سارنگی کے ساتھ ساتھ دیگر آلات موسیقی جیسے کہ طبلہ، ڈھولک، ہارمونیم اور گائیکی بھی سکھائی جاتی ہے۔ اس اسکول کو قائم کرنے کا مقصد نوجوان نسل کو ناپید ہوتے ہوئے آلات موسیقی سے متعارف کروانا اور اس فن کی ترویج ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
موسیقی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ شاید انسان۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اندازاً اس کی ابتدا کب ہوئی لیکن شاید جیسے ہی انسان نے آوازوں میں شناخت شروع کی تو کچھ آوازیں کانوں کو بھلی محسوس ہوئی ہوں گی۔ آوازوں کا ایک مخصوص اُتار چڑھاؤ، ترتیب اور پھر ان آوازوں میں جذبات کی شمولیت نے موسیقی کو جنم دیا ہوگا۔
ہر دور کے انسان کو ذہنی اور روحانی سکون کےلیے موسیقی کی ضرورت پڑتی رہی اور پھر اس ضرورت نے مختلف ساز و آلات کو جنم دیا۔ ڈھول، ڈھولک، طبلہ، سارنگی، ہارمونیم، ستار، بانسری آلات موسیقی کی فہرست میں سے چند ایک ہیں۔ آج کے دور میں یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ وقت کے ساتھ نئے آلاتِ موسیقی، پرانے آلات کی جگہ لیتے رہے جیسے
ستار: یہ ''ایکتار'' اور ''دو تار'' کی جدید صورت ہے۔
پکھاواج: پکھاواج کی جدید صورت طبلہ اور کرناٹک موسیقی کے مردنگم ہیں۔
ہارمونیم: ماؤتھ آرگن اور چائنیز شینگ کی جدید صورت ہے۔
وینا: یہ ستار کی پیش رو ہے۔
فن موسیقی کبھی بھی مذاہب اور فرقوں کے چپقلش کا حصہ نہیں بنا۔ ہر دور میں اس کا سفر جاری رہا اور نت نئے آلات موسیقی اور موسیقار جنم لیتے رہے۔ برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر مغل دربار میں فن موسیقی کو ہمشہ پذیرائی ملی، اسی لیے اس دور میں یہ فن اپنے عروج کو پہنچا اور تاریخ نے تان سین جیسے موسیقاروں کو جنم دیا۔
ابوالفضل کے مطابق مغل باشاہ اکبر کے دربار میں نو رتن یعنی اپنے فن کے نو بہترین اشخاص موجود تھے جن میں تان سین بھی شامل تھا۔ بادشاہ اکبر خود بہترین نقارہ (نگارا) بجاتا تھا۔ اکبر کے دربار کے مشہور آلات موسیقی سر منڈل، بین، نے، کرنا اور تانپورہ تھے۔ اس دور میں ایرانی اور انڈین موسیقی کا امتزاج ہوا۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی فن موسیقی کو خاطر خواہ پذیرائی ملی۔ ان ادوار کے مشہور موسیقاروں میں باز بہادر، بلاس خان (تان سین کا بیٹا)، چھاتر خان، ماکھو، شوکی، خوشحال خان اور بسرم خان قابل ذکر ہیں۔ البتہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں شاہی دربار میں موسیقی پر پابندی لگا دی گئی۔
سرحدوں نے جہاں قومیتوں کی حد بندی کی، وہیں موسیقار بھی بٹ گئے۔ پاکستان میں فن موسیقی سے وابستہ چند بڑے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جیسے استاد بڑے غلام علی خان، جنھوں نے برصغیر میں سر منڈل کو متعارف کروایا اور گائیکی میں اپنا لوہا منوایا۔ پاکستان میں گائیکی کے بڑے ناموں میں شام چراسی گھرانہ، پٹیالہ گھرانہ، مہدی حسن مرحوم اور نصرت فتح علی خان مرحوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جنھوں نے کلاسیکی موسیقی کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اندرون شہر لاہور جو کہ صدیوں کی تاریخ کا امین ہے، یہاں آج بھی ایک محلہ ایسا موجود ہے جہاں کے رہائشی صدیوں سے اس فن سے وابستہ ہیں اور آج بھی ان کا ذریعہ معاش یہی فن ہے۔ اس گلی کا نام گلی سیٹھاں والی ہے جو کہ ٹیکسالی دروازہ کے اندر، پانی والا تالاب کے قریب واقع ہے اور یہیں آلات موسیقی کا ایک تاریخی بازار ''بازار لاہنگا منڈی'' بھی موجود ہے۔ اندرون شہر لاہور نے اس ملک کو بہت سے نامور فنکار دیے ہیں جیسے کہ میڈم نورجہاں، استاد حامد علی خان، شفقت امانت علی خان، مرحوم طبلہ نواز پالے خان، نتھو خان سارنگی نواز اور طافو برادران۔
اس وقت پاکستان میں بہت سے ادارے موسیقی کی تعلیم دے رہے ہیں جن میں سے بیشتر جدید موسیقی سکھاتے ہیں جبکہ روایتی آلات موسیقی کی فہم رکھنے والے اور سکھانے والے اب نایاب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناپید ہوتے ہوئے اس فن کو پذیرائی ملے تاکہ نوجوان نسل کو روایتی آلات موسیقی سیکھنے اور سننے کو ملے تاکہ آنے والے وقتوں میں یہ ساز اور دھنیں ناپید نہ ہوجائیں۔
ایسی ہی ایک کاوش اندرون شہر لاہور کے لوہاری دروازہ میں نظر آتی ہے۔ جہاں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی جانب سے دروازہ کی عمارت میں ایک سارنگی اسکول کھولا گیا ہے۔ یہ اسکول سارنگی نواز اسرار نبی بخش نے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے تعاون سے قائم کیا ہے۔ سارنگی نواز اسرار نبی بخش، سارنگی نواز استاد نبی بخش کے صاحبزادے ہیں، جنہیں پاکستان کا پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ حاصل تھا اور ان کا گھرانہ سارنگی بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور تھا اور بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا تھا۔
2017 میں استاد اسرار نبی بخش نے والڈ سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ اندرون شہر لاہور میں ایک اسکول قائم کرنے کے خواہش مند ہیں جہاں وہ نئی نسل کو آلات موسیقی کی تعلیم دے سکیں۔ ڈائریکٹر جنرل نے ان کی خواہش کا خیر مقدم کرتے ہوئے لوہاری دروازہ کی عمارت، جو ان دنوں والڈ سٹی اتھارٹی کے کنٹرول میں آئی تھی، وہاں انھیں اس اسکول کو آباد کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ تمام ضروری انتظامات بھی کیے گئے۔ اس وقت اس اسکول میں 16 طالب علم آلات موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
سارنگی اسکول میں سارنگی، طبلہ، ڈھولک، ہارمونیم اور سُر سکھائے جاتے ہیں۔ اس سارنگی اسکول میں سارنگی کے ساتھ ساتھ دیگر آلات موسیقی جیسے کہ طبلہ، ڈھولک، ہارمونیم اور گائیکی بھی سکھائی جاتی ہے۔ اس اسکول کو قائم کرنے کا مقصد نوجوان نسل کو ناپید ہوتے ہوئے آلات موسیقی سے متعارف کروانا اور اس فن کی ترویج ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔