رس بھری ریسپ بیری بجائے

یہ لسانی مغالطہ باقاعدہ ایک مستند، اہل زبان اور ماہرزبان کے قلم سے منظر عام پرآنے کی وجہ سے مزید پھیل گیا ہے

یہ لسانی مغالطہ باقاعدہ ایک مستند، اہل زبان اور ماہرزبان کے قلم سے منظر عام پرآنے کی وجہ سے مزید پھیل گیا ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 132

ہمارے بزرگ معاصر محترم، ابونثر احمد حاطب صدیقی صاحب، مقامی روزنامے میں اپنے استادگرامی سید اطہرہاشمی (مرحوم) کی جانشینی کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے، اصلاح زبان کا کام عمدگی سے انجام دے رہے ہیں اور اُنھی کی طرح ہماری حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہتے ہیں، مگر ایک تازہ کالم میں اُن سے بھی وہی لسانی سہو ہوا جو خاکسار کی لسانی معلومات میں مدت پہلے ہوا کرتا تھا (اور پھر اُس کی تصحیح بھی ہوچکی تھی)۔

انھوں نے خیال ظاہر فرمایا کہ اپنے یہاں کا منفرد پھل، رَس بھری ہی انگریزی میں جاکر، ریسپ بیری [Raspberry,Raspberries ]ہوگیا ہے۔ (اُن کے الفاظ یہ ہیں: یہی پھل انگلستان پہنچا تو وہاں اپنا نام''Raspberry'' رکھ لیا)۔ میں نے واٹس ایپ پر موصوف کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ یہ مغالطہ ہے۔

انھوں نے جواباً مقتدرہ قومی زبان کی شایع کردہ، قومی انگریزی اردو لغت کا عکس بھیج دیا جو اُن کے خیال کی تائید کرتا ہے (بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مرتبہ اردو انگریزی لغت میں رس بھری شامل نہیں، البتہ فیروز سنز کی مطبوعہ اردو انگریزی لغت میں بھی رس بھری کا انگریزی متبادل ریسپ بیری لکھا گیا ہے جو لسانی لاعلمی اور عجلت کا مظہر ہے۔

اوّل الذکر قومی لغت اور مابعد اردو لغت بورڈ کی اردو لغت میں بوجوہ ایسے لوگ شامل ترتیب وتالیف رہ چکے ہیں جن کا لسانیات سے دورپرے کا واسطہ نہ تھا، لہٰذا بے شمار لسانی اغلاط کا پایا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ایک اور حیران کُن بات یہ ہے کہ ۹ زبانی لغت از پروفیسر عبدالغفور مینگل، مطبوعہ اردوسائنس بورڈ، لاہور، اشاعت ثانیہ 2020ء میں بھی رس بھری کا اندراج موجود نہیں)۔ خاکسار نے جواب الجواب عرض کیا کہ جب کسی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو عموماً متبادل یا مترادف لکھا جاتا ہے۔ بظاہر گمان غالب تو یہ ہے کہ یہ لفظ اردو ہی سے گیا ہوگا، مگر اس کی بابت اَزسرِنو تحقیق کی ضرورت ہے۔

(مگر اِس کی بھی تردید ہوچکی ہے کہ یہ لفظ مشرقی ہے۔ یہ درحقیقت فرینچ یا لاطینی لفظ ہے، البتہ قدیم فرینچ سے قبل یہ کیسے اور کہاں معرض وجود میں آیا، اس بابت The Concise Oxford Dictionary-1990s Editionبھی لاعلمی کا اظہار کرتی ہے)۔ اعلیٰ ظرف کے حامل بزرگ معاصر نے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد میں نے گوگل سے تلاش کرکے، وِکی پیڈیا کا بیان بابت ریسپ بیری بھی اُن کی خدمت میں ارسال کیا۔

اب چونکہ یہ لسانی مغالطہ باقاعدہ ایک مستند، اہل زبان اور ماہرزبان کے قلم سے منظر عام پرآنے کی وجہ سے مزید پھیل گیا ہے اور حضرت کے مداحین یہی سمجھیں گے کہ اُن کی بات بعینہ درست ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی باقاعدہ تردیداور تصحیح کی جائے۔ قصہ یہ ہے کہ جسے ہم رَس بھَری کہتے ہیں، وہ زرد، پیلا، سنہری اور سرخ رنگوں میں دستیاب پھل انگریزی میں Cape gooseberry،Goldenberryاور Ground cherryکہلاتا ہے، جبکہ اِس کا نباتی (نہ کہ نباتاتی) نام [Botanical name]ہے: Physalis peruviana۔ {اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے مماثل نام والی Raspberry کیا ہے۔

ریسپ بیری کا تعلق گلاب اور بعض دیگر پھولوں کے خاندان Rosaceaeسے ہے جسے Rose family یعنی خاندانِ گلاب ۔یا۔گلابی خاندان بھی کہتے ہیں۔ اسی خاندان میں سیب، خوبانی، ناشپاتی، بہی [Quince]، آڑو، چیری، آلوبخارا، لوکاٹ، اسٹرابیری اور بادام جیسے مزیدار اور مفید پھل بھی شامل ہیں۔ یہاں ایک عجیب وغریب انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں: ناشپاتی کو فارسی میں گلابی اور امرود کہتے ہیں بحوالہ فرہنگ انگلیسی فارسی از عباس آریان پورکاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی، مطبوعہ تہران و فرہنگ عصریہ اردو فارسی از حافظ نذیر احمد}۔ اب واپس آتے ہیں اپنے پھل رس بھری کی طرف۔ اس کا تعلق نباتی خاندان Solanaceae سے ہے جس کے دیگر اراکین میں آلو، بینگن، مرچ ، شملہ مرچ، ٹماٹر اور مختلف اقسام کے پھول اور بیلیں شامل ہیں۔

یہ پھل لاطینی امریکا کے ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پَرو (پیرو کہناغلط ہے) سے تعلق رکھتا ہے، زمانہ قدیم وجدید میں دنیا کے مختلف ممالک بشمول انگلستان اور جنوبی افریقہ کے گرم مرطوب علاقوں میں باقاعدہ کاشت کے ذریعے متعارف کرایا گیا، جبکہ پاکستان میں اس کی باقاعدہ کاشت کم اور جنگلی یعنی خودرَو کاشت زیادہ ہے۔ سوات کی لال جنگلی رس بھری کو مقامی زبان میں ''کوٹی لال'' کہتے ہیں، جبکہ کراچی میں عام طور پر دستیاب پیلی رس بھری، صوبہ پختونخوا کے گرم مرطوب علاقوں مردان، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ اور شبقدر میں پائی جاتی ہے۔ صوبہ پنجاب اور دیگر مقامات پر بھی اِس کی کاشت کا رواج ہے۔

ٹماٹر سے قدرے مماثل پھل والا پودہ، طبی لحاظ سے بھی مفید ہے یعنی دوا ئی پودہ [Medicinal plant] ہے۔ اس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے پھل میں حیاتین الف، بے اور جیم [Vitamin A, B-Complex and C] کی اچھی خاصی مقدارموجود ہوتی ہے، جبکہ یہ مانع ِسرطان[Anti-cancer] ہے، فشار ِ خون [Blood pressure] اور ذیابیطس [Diabetes] کو قابو میں رکھنے اور جگر کی حفاظت کرنے کے کام آتا ہے۔


رس بھری، ادویہ میں استعمال کے علاوہ مٹھائی اور مربہ جات، مختلف پکوان بشمول میٹھے پکوان اور شربت میں بھی شامل کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر پھل، پودے سے جدا کرنے کے بعد، رس بھری کو اُس کی تھیلی سے باہر نہ نکالا جائے تو یہ تقریباً ایک مہینے تک صحیح یعنی محفوظ حالت میں رہتا ہے یا رہ سکتا ہے۔ ملک پَرُو کی قدیم تہذیب ماچُو پیچُو [Machu Picchu ]کی نسبت سے اس پھل کو Pichuberry بھی کہا جاتا ہے۔

سرخ رنگ کی حامل رس بھری کو اس کی مخصوص ساخت کے سبب، شمال مشرقی چین کے صوبے ہائیلونگ چیانگ (Heilongjiang Province) میں ''چینی لالٹین'' کہا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ دل چسپ یہ انکشاف ہے کہ فرینچ زبان میں اسے ''آموغ آں کاژ'' Amour en cage یعنی ''قفس میں قید محبت''("Love in a cage")کہا جاتا ہے۔ واہ، واہ .....کس قدر منفرد، دل نشیں اور بڑی حد تک مشرقی تصور ہے۔

اب میں اردو اہل قلم خصوصاً شعراء کو دعوت دیتا ہوں کہ رس بھری پر طبع آزمائی کریں اور یہ دونوں القاب بحسن وخوبی سموکر دکھائیں۔ مختصر اُردو لغت از اردو لغت بورڈ جلد اوّل میں رس بھری کے متعلق یہ اندراج ملتا ہے: صفت، مؤنث، (۱)۔ رسیلی، رس دار، رس والی(۲)۔ نشیلی، خُمار آلودہ (آنکھ کے لیے مستعمل) (۳)۔ پھل;زرد رَنگ کا کھٹ مِٹھّا اور لذیذ ہوتا ہے۔

یہ پھل ایک مخروطی جھِلّی نُما تھیلی میں ہوتا ہے جو اُوپر سے کھُردری ہوتی ہے۔ اس تھیلی کو پھاڑ کر، پھل نکال کر کھاتے ہیں۔ اسے (یعنی پھل کو) راجپوتانے میں 'چرپوٹی' کہتے ہیں۔ (راجپوتانہ، ہندوستان کے راجستھان، ہمارے تھر اور تھل میں منقسم ہوچکا ہے۔ س اص)۔ اب اس سے ایک قدم آگے ایک اور زبردست انکشاف: نوراللغات کے فاضل مؤلف مولوی نورالحسن نیّر ؔ مرحوم نے دیگر مفاہیم کے علاوہ یہ بھی لکھ دیا کہ یہ رَس بھری، انگریزی لفظ Raspberryکا بِگاڑا ہوا ہے۔ کمال ہے صاحبو! جب غلطی ہوتی ہے تو بڑے بڑوں سے بھی ایسی ہوجاتی ہے۔

باقی دیگر معانی اُنھوں نے وہی لکھے ہیں جو ماقبل منقول ہوئے۔ رس بھری آنکھ کے لیے ایک شعر انھوں نے پیش کیا: ؎ یہ کہتی ہیں مِرے ساقی کی رَس بھری آنکھیں+کہ کوئی جام یہاں خالی از شراب نہیں۔ نوراللغات میں یہ بھی لکھا دیکھا کہ رس بھری ، مکوہ کی قسم کا ایک پھل اور درخت ہے۔ مَکُو کے متعلق لکھا ہے: ہندی، مؤنث، ایک بوٹی اور اُس کے پھل کا نام، عنب الثعلب، مکوڑا۔ ہندی میں بضم کاف و نیز بفتح کاف ہے (یعنی کاف پر پیش اور زبر دونوں طرح مروج ہے۔

س ا ص)، مذکر، بڑا کِیڑا، بڑا چیونٹا۔ مَکُو کو انگریزی میں NIGRUMکہتے ہیں۔ اس کا پورانام Solanum nigrum اور دیگر نامEuropean black nightshade،Blackberry nightshade اور محضnightshade Black ہیں۔ اس مفید دوائی پودے کے متعلق یہ انکشاف درست ہے کہ اس کا خاندانی تعلق، رس بھری سے ثابت ہے۔ آئیے اب فرہنگ آصفیہ بھی دیکھتے چلیں۔

مولوی سید احمد صاحب فرماتے ہیں: رس بھری، ہندی، صفت(۱) رسیلی، رس دار، شیریں، مزیدار، لذیذ، پُرلطف، خوش ذائقہ (۲)خمارآلودہ، نشیلی جیسے رس بھری آنکھ (۳) مؤنث، انگلش Raspberryکا بِگڑا ہوا لفظ ، پیپلیوں کے مزے کا پھل ہوتا ہے۔ یعنی وہی غلطی اُن سے بھی سرزرد ہوئی۔ معلوم نہیں کیسے برطانوی راج میں یہ لسانی سہوعام ہوگیا، جبکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ راجا راجیسور راؤ اصغرؔ کی ہندی اردو لغت میں رس بھری موجود نہیں۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا (شیخ غلام علی اینڈ سنز) دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اُنھوں نے Raspberryکو رَس بھری قرار دیتے ہوئے، تمام نکات اُسی کے متعلق درج کردیے ہیں۔

یہاں ناواقفین کی معلومات کے لیے عرض کردو ں کہ پیپلی سے مراد، مصالحے /مسالے میں شامل وہ چیز نہیں، جسے مشرقی طب میں فِلفِل دراز بھی کہتے ہیں، بلکہ اس سے مراد ہے پِیپل کا پھل جسے پپولی اور پپلُوندی بھی کہتے ہیں (بحوالہ فرہنگ آصفیہ)۔ اب ہم نے پیپلیاں تو کھائی نہیں کہ اس بیان کی تصدیق کرسکیں، ہوسکتا ہے مولوی صاحب صحیح کہتے ہوں۔ قارئین کرام یہ تو وہی معاملہ ہوا کہ بقول شاعر ''بات پہنچی تِری جوانی تک''۔ رس بھری نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچادیا، حالانکہ ہر سال یہ پھل بہت سے دیگر گھرانوں کی طرح ہمارے یہاں بھی ناقدری کا شکار ہوتا ہے، شاذ ہی کچھ دانے چکھ پاتے ہیں، کیونکہ ''گھریلو سرکار'' کو یہ پسند نہیں۔

رس بھری کے بعد ایک دوسرے مسئلے کی جانب توجہ کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بارے میں ابہام کا شکار ہیں کہ ''کی بجائے '' درست ہے یا ''کے بجائے''۔ اس میں ہمارے مشاہیر اہل قلم بھی شامل ہیں۔

بات بہت سامنے کی ہے۔ جنھیں الفاظ ومرکبات کی تخریب یعنی توڑپھوڑ سے اُن کی ساخت سمجھ میں آتی ہو، وہ کبھی نہیں گڑبڑاتے۔ پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ بجائے کیسے بنا۔ فارسی لفظ ''جاء یا جائے'' بمعنی جگہ پر، اسی زبان کے 'بہ' کا اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے: سے، کو، میں۔ اب دونوں کو ملاکر پڑھیں اور غور کرلیں۔ بہ جائے=بجائے یعنی فُلاں کی جگہ پر، اُس کا قائم مقام۔ یہ سراسر مؤنث ہے، اس لیے کہ جگہ مؤنث ہے۔ اس کی بجائے درست ہے نا کہ اس کے بجائے۔
Load Next Story