دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا لازم ہے
آئی ایس پی آر کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں
لاہور:
بلوچستان کے علاقے کیچ میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 10جوان شہید ہوگئے، فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 3دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز پھر سرگرم ہوئے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہو چکا ہے، جب کہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغانستان میں دہشت گردوں کے منظم نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔
مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالے جوانوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے، جنھوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا ، ہم بحیثیت قوم بیتی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ رہے ہیں ، جس میں ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ شامل ہے، اتنی قربانیوں اور مشقت کے بعد پاکستان کا جو پر امن چہرہ ابھر کر سامنے آیا ہے، اس کے ایک بار پھر بدنما ہونے کے خطرات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کے کسی بھی شہر کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ ہر جگہ صورتحال تشویشناک ہے۔ پاکستان میں جب بھی کرکٹ کے فروغ کے دن آتے ہیں اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات شروع ہوجاتے ہیں جس کے پس پردہ بھارت کے کردار کا امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ سری لنکا کی ٹیم کے کھلاڑیوں پر لاہور میں حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے تو شواہد بھی موجود ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ افغانستان میں بدامنی کے سائے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں، جس کے اثرات اب پاکستان پر صاف نظر آنے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نے ایک بار پھر عالمی سطح پر پرانے پاکستان کے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جہاں دھماکے اور دہشت گردی روز کا معمول تھا۔ چینی ورکرز پر حملہ، لاہور کے مشہور بازار انارکلی میں دھماکا اور بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اب تک دو سو سے زائد مختلف کارروائیاں پاکستان میں ہو چکی ہیں۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس امریکی اسلحہ کا استعمال حیران کن ہے جس پر سقوط کابل کے موقع پر افغان طالبان نے قبضہ کر لیا تھا ، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر تعاون موجود ہے، یہ عناصر اس حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ افغان طالبان حکومت میں آنے کے بعد افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عناصر کو غیر مسلح کرنے کے بجائے مذاکرات پر اصرار کر رہے ہیں، شاید ان ہی کی ترغیب پر پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور معاملات کی سعی کی جس میں کامیابی نہ ہوسکی۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ حملے کون کر رہا ہے یا کون کروا رہا ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی افغانستان میں بڑھتی بدامنی اور طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ کا براہ راست نہیں تو بالواسطہ تعلق ان کارروائیوں سے ضرور ہے۔
افغانستان کا مسئلہ جتنا ہماری خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے اتنا ہی ہماری داخلہ پالیسی کا مسئلہ بھی ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ خارجہ محاذ پر موثر پالیسی اپنانے والا پاکستان ماضی کی طرح داخلہ محاذ کو نظر انداز کر رہا ہے جس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت نے داعش اور القاعدہ کے خلاف واضح موقف اپنایا ہوا ہے مگر اس کے باوجود ان دہشت گرد جماعتوں کو محدود کرنا ان کے بس سے باہر نظر آتا ہے۔
اس صورتحال میں طالبان کی اس بات پر اعتماد کر لینا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوگی ناکافی ہے کیونکہ تاریخ نے ہمیں کچھ اور ہی رخ دکھایا ہے۔ حالیہ واقعات نے ٹی ٹی پی سے متعلق افغان طالبان کی پالیسی سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
پاکستان کے لیے مزید پریشانی کی بات نہ صرف داعش اور القاعدہ کا پھیلتا نیٹ ورک ہے بلکہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی سے متعلق موقف ہے۔ میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے متعدد سوالات کا جواب طالبان کے ترجمان نے صرف ایک ہی دیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ افغان طالبان کی قیادت کھل کر داعش اور القاعدہ کے خلاف بیان دے رہی ہے مگر تحریک طالبان پاکستان سے متعلق مذمتی بیان دینے سے گریز کر رہی ہے۔
افغان طالبان کے ایک اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا مختصر آڈیو انٹرویو بھی نشر ہوچکا ہے ، جس میں انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان نامی تنظیمیں پاکستانی باشندوں پر مشتمل ہیں ، پاکستان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مل بیٹھ کر حل نکالے تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔
سی این این کو ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ افغان طالبان ہمارے بھائی ہیں اور پاکستان کے خلاف ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ اوپر سے یہ خبر کہ تحریک طالبان پاکستان کے باغی دھڑوں نے نئے سرے سے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر لیا ہے، نے پاکستان کے لیے چیلنجز میں اضافہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی بڑھتی ہوئی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت نے حساس اداروں کو مزید چوکنا کر دیا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ''را' کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی پاکستانی اداروں نے حاصل کیے ہیں۔
''را'' اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس بلوچستان میں علیحدگی پسند جماعتوں بی ایل اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بی ایل ایف کی نہ صرف مالی مدد کر رہی ہیں، بلکہ کابل، نمروز اور قندھار میں قائم ٹریننگ کیمپوں سے دہشت گردوں کو خصوصی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
افغانستان میں موجود ''را'' کے حکام ان دہشت گردوں کو افغانستان سے بھارت، متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک بھجوانے کے لیے جعلی دستاویزات بنوانے میں بھی پیش پیش ہیں۔ ''را'' کے ایک ونگ نے تمام عالمی فورمز پر بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دینے کا بیڑہ بھی اٹھا رکھا ہے۔
بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے سے انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی حساس اداروں نے کراچی میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی افغان سرحد پر بھارتی افسران سے ملاقاتوں کے شواہد بھی حاصل کیے ہیں۔ اسی طرح سوات سے نکل کر افغانستان میں پناہ لینے والے طالبان کے بھی ''را'' اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی سے ملاقاتوں کے ناقابل تردید ثبوت حاصل کیے گئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کو کئی ملین ڈالرز کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو نوے کی دہائی کے آغاز سے ہی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین عالمی طاقت کی شکست کے بعد ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ ان جنگی سرداروں سے نجات دلانے اور افغانستان میں قیام امن کا نعرہ لے کر افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں کے مدارس سے منسلک طبقہ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان میں اقتدار حاصل کر لیا اور اسلامی حکومت کے عنوان سے مخصوص حکومت قائم کرلی۔
القاعدہ کے ساتھ دوستی اور رابطوں میں اضافے نے افغان طالبان نامی مذہبی گروہ کو بھی عالمی جہاد اور بین الاقوامی اسلامی حکومت کے قیام کا داعی بنا دیا۔ اب افغان طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں ، لیکن یہ اپنی پرانی روش اور چلن کو بدلنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔
وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا لازم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام واقعات اور عناصر کی سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ ان واقعات کی روک تھام اور دہشت گردی کی، اس تازہ لہر کا ابتداء ہی میں قلع قمع کیا جا سکے ان عناصر کو ابتداء ہی میں بھرپور جواب دینا بہت ضروری ہے۔ دہشت گردوں کے سلیپر سیلز اور ان تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف جتنا جلد ممکن ہو سکے عملی اقدامات کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ بھی مدنظر رہے کہ بہترین انٹیلی جنس وہ ہوتی ہے جو خطرے کو بروقت بھانپ لے اور خطرے کے امکانات پیدا ہوتے ہی خطرہ پیدا کرنے والوں کا سر کچل دیا جائے۔ پے درپے واقعات کے نتیجے میں ملک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا فطری امر ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کے نئے خطرے اور چیلنج کا پہلے سے بڑھ کر داندان شکن جواب دیا جائے گا اور ملک بھر میں سیکیورٹی کے انتظامات و اقدامات پوری طرح سے یقینی بنا کر کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جائے گا۔
بلوچستان کے علاقے کیچ میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 10جوان شہید ہوگئے، فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 3دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز پھر سرگرم ہوئے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہو چکا ہے، جب کہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغانستان میں دہشت گردوں کے منظم نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔
مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالے جوانوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے، جنھوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا ، ہم بحیثیت قوم بیتی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ رہے ہیں ، جس میں ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ شامل ہے، اتنی قربانیوں اور مشقت کے بعد پاکستان کا جو پر امن چہرہ ابھر کر سامنے آیا ہے، اس کے ایک بار پھر بدنما ہونے کے خطرات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کے کسی بھی شہر کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ ہر جگہ صورتحال تشویشناک ہے۔ پاکستان میں جب بھی کرکٹ کے فروغ کے دن آتے ہیں اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات شروع ہوجاتے ہیں جس کے پس پردہ بھارت کے کردار کا امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ سری لنکا کی ٹیم کے کھلاڑیوں پر لاہور میں حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے تو شواہد بھی موجود ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ افغانستان میں بدامنی کے سائے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں، جس کے اثرات اب پاکستان پر صاف نظر آنے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نے ایک بار پھر عالمی سطح پر پرانے پاکستان کے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جہاں دھماکے اور دہشت گردی روز کا معمول تھا۔ چینی ورکرز پر حملہ، لاہور کے مشہور بازار انارکلی میں دھماکا اور بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اب تک دو سو سے زائد مختلف کارروائیاں پاکستان میں ہو چکی ہیں۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس امریکی اسلحہ کا استعمال حیران کن ہے جس پر سقوط کابل کے موقع پر افغان طالبان نے قبضہ کر لیا تھا ، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر تعاون موجود ہے، یہ عناصر اس حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ افغان طالبان حکومت میں آنے کے بعد افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عناصر کو غیر مسلح کرنے کے بجائے مذاکرات پر اصرار کر رہے ہیں، شاید ان ہی کی ترغیب پر پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور معاملات کی سعی کی جس میں کامیابی نہ ہوسکی۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ حملے کون کر رہا ہے یا کون کروا رہا ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی افغانستان میں بڑھتی بدامنی اور طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ کا براہ راست نہیں تو بالواسطہ تعلق ان کارروائیوں سے ضرور ہے۔
افغانستان کا مسئلہ جتنا ہماری خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے اتنا ہی ہماری داخلہ پالیسی کا مسئلہ بھی ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ خارجہ محاذ پر موثر پالیسی اپنانے والا پاکستان ماضی کی طرح داخلہ محاذ کو نظر انداز کر رہا ہے جس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت نے داعش اور القاعدہ کے خلاف واضح موقف اپنایا ہوا ہے مگر اس کے باوجود ان دہشت گرد جماعتوں کو محدود کرنا ان کے بس سے باہر نظر آتا ہے۔
اس صورتحال میں طالبان کی اس بات پر اعتماد کر لینا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوگی ناکافی ہے کیونکہ تاریخ نے ہمیں کچھ اور ہی رخ دکھایا ہے۔ حالیہ واقعات نے ٹی ٹی پی سے متعلق افغان طالبان کی پالیسی سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
پاکستان کے لیے مزید پریشانی کی بات نہ صرف داعش اور القاعدہ کا پھیلتا نیٹ ورک ہے بلکہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی سے متعلق موقف ہے۔ میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے متعدد سوالات کا جواب طالبان کے ترجمان نے صرف ایک ہی دیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ افغان طالبان کی قیادت کھل کر داعش اور القاعدہ کے خلاف بیان دے رہی ہے مگر تحریک طالبان پاکستان سے متعلق مذمتی بیان دینے سے گریز کر رہی ہے۔
افغان طالبان کے ایک اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا مختصر آڈیو انٹرویو بھی نشر ہوچکا ہے ، جس میں انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان نامی تنظیمیں پاکستانی باشندوں پر مشتمل ہیں ، پاکستان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مل بیٹھ کر حل نکالے تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔
سی این این کو ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ افغان طالبان ہمارے بھائی ہیں اور پاکستان کے خلاف ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ اوپر سے یہ خبر کہ تحریک طالبان پاکستان کے باغی دھڑوں نے نئے سرے سے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر لیا ہے، نے پاکستان کے لیے چیلنجز میں اضافہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی بڑھتی ہوئی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت نے حساس اداروں کو مزید چوکنا کر دیا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ''را' کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی پاکستانی اداروں نے حاصل کیے ہیں۔
''را'' اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس بلوچستان میں علیحدگی پسند جماعتوں بی ایل اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بی ایل ایف کی نہ صرف مالی مدد کر رہی ہیں، بلکہ کابل، نمروز اور قندھار میں قائم ٹریننگ کیمپوں سے دہشت گردوں کو خصوصی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
افغانستان میں موجود ''را'' کے حکام ان دہشت گردوں کو افغانستان سے بھارت، متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک بھجوانے کے لیے جعلی دستاویزات بنوانے میں بھی پیش پیش ہیں۔ ''را'' کے ایک ونگ نے تمام عالمی فورمز پر بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دینے کا بیڑہ بھی اٹھا رکھا ہے۔
بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے سے انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی حساس اداروں نے کراچی میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی افغان سرحد پر بھارتی افسران سے ملاقاتوں کے شواہد بھی حاصل کیے ہیں۔ اسی طرح سوات سے نکل کر افغانستان میں پناہ لینے والے طالبان کے بھی ''را'' اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی سے ملاقاتوں کے ناقابل تردید ثبوت حاصل کیے گئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کو کئی ملین ڈالرز کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو نوے کی دہائی کے آغاز سے ہی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین عالمی طاقت کی شکست کے بعد ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ ان جنگی سرداروں سے نجات دلانے اور افغانستان میں قیام امن کا نعرہ لے کر افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں کے مدارس سے منسلک طبقہ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان میں اقتدار حاصل کر لیا اور اسلامی حکومت کے عنوان سے مخصوص حکومت قائم کرلی۔
القاعدہ کے ساتھ دوستی اور رابطوں میں اضافے نے افغان طالبان نامی مذہبی گروہ کو بھی عالمی جہاد اور بین الاقوامی اسلامی حکومت کے قیام کا داعی بنا دیا۔ اب افغان طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں ، لیکن یہ اپنی پرانی روش اور چلن کو بدلنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔
وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا لازم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام واقعات اور عناصر کی سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ ان واقعات کی روک تھام اور دہشت گردی کی، اس تازہ لہر کا ابتداء ہی میں قلع قمع کیا جا سکے ان عناصر کو ابتداء ہی میں بھرپور جواب دینا بہت ضروری ہے۔ دہشت گردوں کے سلیپر سیلز اور ان تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف جتنا جلد ممکن ہو سکے عملی اقدامات کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ بھی مدنظر رہے کہ بہترین انٹیلی جنس وہ ہوتی ہے جو خطرے کو بروقت بھانپ لے اور خطرے کے امکانات پیدا ہوتے ہی خطرہ پیدا کرنے والوں کا سر کچل دیا جائے۔ پے درپے واقعات کے نتیجے میں ملک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا فطری امر ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کے نئے خطرے اور چیلنج کا پہلے سے بڑھ کر داندان شکن جواب دیا جائے گا اور ملک بھر میں سیکیورٹی کے انتظامات و اقدامات پوری طرح سے یقینی بنا کر کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جائے گا۔