بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکامی
گزشتہ تین برسوں میں وفاقی وزراء اور مشیر مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کی نوید دیتے رہے
ABBOTABAD:
''حکومت سے باہر زیادہ خطرناک ہونگا ، خبردار کر رہا ہوں۔ سڑکوں پر آیا تو آپ کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی ، اگلی باری بھی میری ہے۔ ڈیل کی باتیں ہورہی ہیں ، نواز شریف واپس نہیں آئے گا۔ ہر ایک سے مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔
شہباز شریف اپوزیشن لیڈر نہیں مجرم ہے۔ عدلیہ ملک پر رحم کرے اور مقدمات روزانہ کی بنیاد پر چلائے۔ ''وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ عوام کے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات میں ایک دھمکی آمیز تقریرکی۔ اس تقریرکے دوسرے دن وزیر اعظم نے اپنے احتساب کے مشیر بیرسٹر شہزاد اکبر کو مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے پر الوداع کہہ دیا، پھر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ منظرِعام پر آگئی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے کہ کرپشن کے انڈکس میں پاکستان کا نمبر 124سے بڑھ کر 140 ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ ذرایع ابلاغ پر گزشتہ ماہ سے میاں نواز شریف سے ڈیل کی باتوں اور ممکنہ حکومت کی تبدیلی کے تناظر میں اہم ہے مگر وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیانیہ ترتیب دے کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی حزب اختلاف کو اہم آئینی مسائل اور سرائیکی صوبہ پر بات چیت کی دعوت کو پس پشت ڈال دیا۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو احتساب عدالت نے طویل مدت کی سزا دی تھی۔ میاں نواز شریف اس وقت لندن میں اپنی بیمار بیوی کی عیادت کے لیے مقیم تھے ، وہ 2018میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو انھیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل کی کال کوٹھڑی میں منتقل کیا گیا، بعد ازاں عدالت کے حکم پر میاں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا۔
ہائی کورٹ نے کچھ عرصہ بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اور پھر ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ضمانت پر رہا کیا۔ اس دوران میاں صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔ میاں نواز شریف پیرول پر رہا ہوئے ، پھر جیل بھیج دیے گئے ، مگر پھر میاں نواز شریف کے جیل کی کال کوٹھڑی میں بیمار ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ میاں نواز شریف کے خون کے پلیٹس لیٹ کم ہوئے تو انھیں پولیس کی نگرانی میں سروسز اسپتال لاہور منتقل کیا گیا۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اسپتال میں میاں نواز شریف کے علاج کے تمام معاملات کی نگرانی کی۔ حکومت پنجاب نے ماہر ڈاکٹروں کا بورڈ بنایا جس میں خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمی مرحوم بھی شامل تھے۔
یوں تحریک انصاف کی سینئر رہنما اور وزیر صحت کی نگرانی میں قائم میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی زندگی بچانے کے لیے انھیں لندن بھجوانے کی سفارش کی، میاں نواز شریف علاج کے لیے لندن چلے گئے۔ میاں نواز شریف کے لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ نواز شریف جعلی رپورٹوں کی بنیاد پر لندن گئے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے بھی یہ بیانیہ اپنالیا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے وضاحت کی کہ میاں نواز شریف کو حقیقی رپورٹوں اور ڈاکٹروں کی سفارش پر جیل سے رہائی کی سفارش کی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس پورے معاملہ کی نگرانی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی اور نہ ہی کوئی جیل کا اہلکار معطل ہوا۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ایک مبینہ وڈیو میں یہ اقرار کیا کہ انھوں نے نادیدہ قوتوں کے دباؤ پر میاں نواز شریف کو سزا دی۔
ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ نے برطرف کیا ، وہ گزشتہ سال کورونا کے مرض میں انتقال کرگئے۔ مریم نواز کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مریم نواز ہر پیشی پر یہ بیان دیتی ہیں کہ نیب کے پروسیکیوٹر ہر پیشی پر تاریخ لے لیتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختون خوا میں محمود خان اور پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ عثمان بزدار 2018کے انتخابات سے چند ہفتہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ، سیاسی مخالفین عثمان بزدار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بیوروکریسی سے اس طرح کے کام نہیں لے سکے جس طرح کا ماڈل میاں شہباز شریف نے تیار کیا تھا۔ ایسی ہی صورتحال خیبر پختون خوا میں ہوئی۔ اب پنجاب کے تمام شہر بلدیاتی سہولتوں کی عدم موجودگی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گزشتہ ہفتہ لاہور میں تھے۔
وہاں ایک تقریب میں شرکت کے لیے جی او آر کالونی سے پیدل لاہور ہائی کورٹ گئے۔ انھوں نے مال روڈ کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ حکومت کے تمام دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔
پھر مری میں پنجاب کی حکومت کی نااہلی کا اقرار تو وزیر داخلہ شیخ رشید نے خود کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 3 برسوں میں پنجاب میں جتنے ضمنی انتخابات ہوئے ، ان میں تحریک انصاف کو شکست ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں انتظامیہ کی دھاندلی کا نوٹس لیا اور پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء کا معاملہ ریکارڈ پر آیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کے پی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہوئی۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں حکومت کو شکست ہوئی۔ حکومت اب مارچ میں دوسرے مرحلہ کے لیے انتظامی افسروں کی تبدیلیاں کررہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں وفاقی وزراء اور مشیر مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کی نوید دیتے رہے ۔ قومی احتساب بیورو والے ان رہنماؤں کوگرفتار کرتے رہے مگر ہائی کورٹس نے تمام رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کر دیا اور نیب کی ناقص کارکردگی کے خلاف سخت ریمارکس دیے۔
رانا ثناء اﷲ کی ہیروئن کی تجارت کے الزام میں گرفتاری کا تو مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے ناقد اور جمہوریت کو تباہ کن قرار دینے والے ایک لکھاری نے بھی ماتم کیا تھا۔ وفاقی وزراء ہر ہفتہ مسلم لیگ ن کے کسی اسکینڈل کے انکشاف کے ساتھ مسلم لیگ میں تقسیم کا خواب بیان کرتے ہیں مگر مسلم لیگ میں سے کوئی اہم رہنما اب تک علیحدہ نہیں ہوا ، البتہ تحریک انصاف کے بانی رکن احمد جواد پشاور سے رکن قومی اسمبلی نور عالم کی علیحدگی کی خبروں کی تصدیق ضرور ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کسی عدالت کے فیصلہ کے بغیر میاں شہبا ز شریف کو مجرم قرار دیا۔ انھوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ان سے مذاکرات کے امکان کو رد کر کے میاں شہباز شریف کی توہین کی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔ کچھ ناقدین کا تجزیہ ہے کہ وزیراعظم نے یہ دھمکی اپنے سلیکٹرز کو دی ہے۔
مختلف سیاسی تحریکوں کو کور کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کی۔ تاریخ کو یاد رکھنے والے بعض اکابرین کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی دھمکی ایسی ہی ہے جیسی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جولائی 1977کے آغاز پر اپنی تقریر میں یہ دھمکی دی تھی کہ میں تو کمزور ہوں، میری کرسی مضبوط ہے۔ بہرحال شہزاد اکبر کی رخصتی اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن بڑھنے کی اس رپورٹ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس حکومت کا احتساب کا نعرہ محض نعرہ ہی تھا اور یہ حکومت اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔
''حکومت سے باہر زیادہ خطرناک ہونگا ، خبردار کر رہا ہوں۔ سڑکوں پر آیا تو آپ کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی ، اگلی باری بھی میری ہے۔ ڈیل کی باتیں ہورہی ہیں ، نواز شریف واپس نہیں آئے گا۔ ہر ایک سے مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔
شہباز شریف اپوزیشن لیڈر نہیں مجرم ہے۔ عدلیہ ملک پر رحم کرے اور مقدمات روزانہ کی بنیاد پر چلائے۔ ''وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ عوام کے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات میں ایک دھمکی آمیز تقریرکی۔ اس تقریرکے دوسرے دن وزیر اعظم نے اپنے احتساب کے مشیر بیرسٹر شہزاد اکبر کو مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے پر الوداع کہہ دیا، پھر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ منظرِعام پر آگئی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے کہ کرپشن کے انڈکس میں پاکستان کا نمبر 124سے بڑھ کر 140 ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ ذرایع ابلاغ پر گزشتہ ماہ سے میاں نواز شریف سے ڈیل کی باتوں اور ممکنہ حکومت کی تبدیلی کے تناظر میں اہم ہے مگر وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیانیہ ترتیب دے کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی حزب اختلاف کو اہم آئینی مسائل اور سرائیکی صوبہ پر بات چیت کی دعوت کو پس پشت ڈال دیا۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو احتساب عدالت نے طویل مدت کی سزا دی تھی۔ میاں نواز شریف اس وقت لندن میں اپنی بیمار بیوی کی عیادت کے لیے مقیم تھے ، وہ 2018میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو انھیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل کی کال کوٹھڑی میں منتقل کیا گیا، بعد ازاں عدالت کے حکم پر میاں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا۔
ہائی کورٹ نے کچھ عرصہ بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اور پھر ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ضمانت پر رہا کیا۔ اس دوران میاں صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔ میاں نواز شریف پیرول پر رہا ہوئے ، پھر جیل بھیج دیے گئے ، مگر پھر میاں نواز شریف کے جیل کی کال کوٹھڑی میں بیمار ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ میاں نواز شریف کے خون کے پلیٹس لیٹ کم ہوئے تو انھیں پولیس کی نگرانی میں سروسز اسپتال لاہور منتقل کیا گیا۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اسپتال میں میاں نواز شریف کے علاج کے تمام معاملات کی نگرانی کی۔ حکومت پنجاب نے ماہر ڈاکٹروں کا بورڈ بنایا جس میں خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمی مرحوم بھی شامل تھے۔
یوں تحریک انصاف کی سینئر رہنما اور وزیر صحت کی نگرانی میں قائم میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی زندگی بچانے کے لیے انھیں لندن بھجوانے کی سفارش کی، میاں نواز شریف علاج کے لیے لندن چلے گئے۔ میاں نواز شریف کے لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ نواز شریف جعلی رپورٹوں کی بنیاد پر لندن گئے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے بھی یہ بیانیہ اپنالیا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے وضاحت کی کہ میاں نواز شریف کو حقیقی رپورٹوں اور ڈاکٹروں کی سفارش پر جیل سے رہائی کی سفارش کی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس پورے معاملہ کی نگرانی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی اور نہ ہی کوئی جیل کا اہلکار معطل ہوا۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ایک مبینہ وڈیو میں یہ اقرار کیا کہ انھوں نے نادیدہ قوتوں کے دباؤ پر میاں نواز شریف کو سزا دی۔
ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ نے برطرف کیا ، وہ گزشتہ سال کورونا کے مرض میں انتقال کرگئے۔ مریم نواز کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مریم نواز ہر پیشی پر یہ بیان دیتی ہیں کہ نیب کے پروسیکیوٹر ہر پیشی پر تاریخ لے لیتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختون خوا میں محمود خان اور پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ عثمان بزدار 2018کے انتخابات سے چند ہفتہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ، سیاسی مخالفین عثمان بزدار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بیوروکریسی سے اس طرح کے کام نہیں لے سکے جس طرح کا ماڈل میاں شہباز شریف نے تیار کیا تھا۔ ایسی ہی صورتحال خیبر پختون خوا میں ہوئی۔ اب پنجاب کے تمام شہر بلدیاتی سہولتوں کی عدم موجودگی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گزشتہ ہفتہ لاہور میں تھے۔
وہاں ایک تقریب میں شرکت کے لیے جی او آر کالونی سے پیدل لاہور ہائی کورٹ گئے۔ انھوں نے مال روڈ کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ حکومت کے تمام دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔
پھر مری میں پنجاب کی حکومت کی نااہلی کا اقرار تو وزیر داخلہ شیخ رشید نے خود کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 3 برسوں میں پنجاب میں جتنے ضمنی انتخابات ہوئے ، ان میں تحریک انصاف کو شکست ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں انتظامیہ کی دھاندلی کا نوٹس لیا اور پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء کا معاملہ ریکارڈ پر آیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کے پی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہوئی۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں حکومت کو شکست ہوئی۔ حکومت اب مارچ میں دوسرے مرحلہ کے لیے انتظامی افسروں کی تبدیلیاں کررہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں وفاقی وزراء اور مشیر مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کی نوید دیتے رہے ۔ قومی احتساب بیورو والے ان رہنماؤں کوگرفتار کرتے رہے مگر ہائی کورٹس نے تمام رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کر دیا اور نیب کی ناقص کارکردگی کے خلاف سخت ریمارکس دیے۔
رانا ثناء اﷲ کی ہیروئن کی تجارت کے الزام میں گرفتاری کا تو مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے ناقد اور جمہوریت کو تباہ کن قرار دینے والے ایک لکھاری نے بھی ماتم کیا تھا۔ وفاقی وزراء ہر ہفتہ مسلم لیگ ن کے کسی اسکینڈل کے انکشاف کے ساتھ مسلم لیگ میں تقسیم کا خواب بیان کرتے ہیں مگر مسلم لیگ میں سے کوئی اہم رہنما اب تک علیحدہ نہیں ہوا ، البتہ تحریک انصاف کے بانی رکن احمد جواد پشاور سے رکن قومی اسمبلی نور عالم کی علیحدگی کی خبروں کی تصدیق ضرور ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کسی عدالت کے فیصلہ کے بغیر میاں شہبا ز شریف کو مجرم قرار دیا۔ انھوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ان سے مذاکرات کے امکان کو رد کر کے میاں شہباز شریف کی توہین کی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔ کچھ ناقدین کا تجزیہ ہے کہ وزیراعظم نے یہ دھمکی اپنے سلیکٹرز کو دی ہے۔
مختلف سیاسی تحریکوں کو کور کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کی۔ تاریخ کو یاد رکھنے والے بعض اکابرین کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی دھمکی ایسی ہی ہے جیسی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جولائی 1977کے آغاز پر اپنی تقریر میں یہ دھمکی دی تھی کہ میں تو کمزور ہوں، میری کرسی مضبوط ہے۔ بہرحال شہزاد اکبر کی رخصتی اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن بڑھنے کی اس رپورٹ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس حکومت کا احتساب کا نعرہ محض نعرہ ہی تھا اور یہ حکومت اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔