زرعی اجناس کی درآمدات میں کمی لانے کی ضرورت

غریب افراد کا کہنا ہے کہ دالیں بھی اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ لوگ خرید نہیں سکتے

PESHAWAR:
عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، اجناس کے علاوہ اشیائے صرف کی بلند قیمتوں کے باعث پاکستان کی درآمدات کا کھاتہ گزشتہ مالی سال کی نسبت تیز رفتاری کے ساتھ بلندی کی طرف محو پرواز ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے حساب کتاب نے درآمدات کے اعداد و شمار نے جو ہوش ربا مالیت ظاہر کردی ہے۔

اس نے رواں مالی سال کے اختتام تک کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ تیل کی قیمتیں مختلف ادوار میں بھی بڑھتی رہی ہیں اور گھٹتی بھی رہی ہیں، اسی طرح اجناس اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے، جس کے باعث درآمدی مالیت بڑھتی رہی ہے۔

2008 کی بات ہے جب تیل کی عالمی قیمتوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بڑھتی ہوئی درآمدی مالیت نے پاکستان کے تجارتی خسارے کو 15 ارب ڈالر تک پہنچا دیا تھا۔ مالی سال 2007-08 کا یہ تجارتی خسارہ جس کی خاص وجہ عالمی منڈی کی بلند قیمتوں کے ساتھ بلا روک ٹوک درآمدات کا ہونا تھا ، لیکن ان دنوں مہنگائی کے عفریت نے عوام کو اس قدر نہیں گھیر رکھا تھا جس طرح آج کل اس عفریت نے عوام کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

کسی نہ کسی حد تک روزگار بھی مل رہا تھا۔ 2008 میں بھی آئی ایم ایف کی طرف سے سخت ترین شرائط کے ساتھ قرض کی کڑوی گولی کو معیشت کے لیے مقوی ہونے کا قوی امکان ظاہر کیا گیا تھا ، لیکن معاملہ اتنا نہیں بگڑتا اگر بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ اور مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں نے برآمدات کے بڑھنے کی رفتار کو انتہائی سست کردیا ، لیکن اب بجلی کے نرخوں میں اضافہ، گیس کی شدید قلت اور تیار کردہ اشیا کی لاگت میں اضافے کے باعث درآمدات کی نسبت برآمدات کم اور تیز رفتار درآمدی مالیت نے صورت حال کو مزید بگڑ جانے کا اشارہ دے دیا ہے کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کی کل درآمدات 40 ارب 64 کروڑ91 لاکھ ڈالرز رہیں۔

جب کہ گزشتہ مالی سال کے انھی 6 ماہ کی درآمدی مالیت محض 24 ارب 45 کروڑ41 لاکھ 82 ہزار ڈالرز کی رہیں۔ ان اعداد و شمارکو مد نظر رکھتے ہوئے معاشی حکام کو اس طرح کے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ آیندہ پانچ ماہ کے دوران صورت حال کو قدرے بہتر بنایا جاسکے۔

دیگر تمام امور اپنی جگہ موجود ہیں اور تیل کا درآمدی بل بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اجناس کی عالمی منڈی میں بہت سی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا عمل بھی جاری ہے۔ ان میں گندم، چینی، پام آئل اور دالیں قابل ذکر ہیں۔ کیونکہ پاکستان اب گندم کے برآمدی ملک کی صف سے نکل کر درآمدی ممالک کی صف میں آچکا ہے۔ مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 13 لاکھ 61 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 47 کروڑ4 لاکھ 53 ہزار ڈالر خرچ کیے گئے۔


عالمی مارکیٹ میں گزشتہ مالی سال کی نسبت رواں مالی سال میں گندم کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اس صورتحال میں آیندہ مالی سال تک گندم کی درآمد کو بہت حد تک کم کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سال گندم کی بھرپور پیداوار حاصل کرلے، لیکن گندم کی زیادہ پیداوار کو کھاد کی فراہمی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ غریب ہاریوں تک کنٹرول ریٹ میں کھاد نہیں پہنچ رہی ہے۔

جب کہ اخباری اطلاعات کے مطابق با اثر زمیندار مقررہ نرخ پرکھاد حاصل کر رہے ہیں اور غریب ہاری، کسان مہنگے داموں کھاد ملنے کے باعث یا شدید قلت کے باعث کم کھاد ڈال رہا ہے۔ جس سے اس سال پیداوار میں کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

آج کے کالم میں عالمی منڈی میں ان چند خوراکی اشیا پر نظر ڈالتے ہیں جن کی پاکستان میں بڑی مقدار میں درآمد کی جاتی ہے۔ ان میں سے جہاں تک گندم کی بات ہے تو اگر پیداوار بڑھانے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے ایسی صورت میں آیندہ چند ہفتوں بعد تمام سعی لاحاصل ہوں گی اور پاکستان کو اربوں ڈالر کی گندم کی درآمد کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ پاکستان پام آئل کی درآمد پر سالانہ 3 سے 4 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔

پام آئل کی عالمی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی کھانے کے تیل اور گھی کی قیمت میں یکایک شدید اضافہ ہوا تھا۔ پام آئل کے اعداد و شمار کو مد نظر رکھیں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔

رواں مالی سال کے جولائی تا دسمبر تک پاکستان نے 13 لاکھ 61 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر 47 کروڑ4 لاکھ ڈالر صرف کیے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے کئی منصوبے زیر غور تھے ، جن میں پام آئل کے حصول کے لیے اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار کے لیے کئی زرعی منصوبے بنائے گئے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے پیمانے پر پیداوار کے حصول کی طرف توجہ دی جائے تاکہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جاسکے۔

اب دالوں کی درآمد پر نظر ڈالتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں دالوں کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سال میں تقریباً ایک ارب ڈالر کی مختلف اقسام کی دالیں وغیرہ درآمد کرتا ہے۔ پاکستان باآسانی دالوں کی پیداوارکو اس حد تک بڑھا سکتا ہے کہ دالوں کی درآمد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے دالوں کی طلب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کسی دور میں ہر قسم کی دال بہت سستی ہوا کرتی تھی۔

ہر غریب شخص خریدنے کی استطاعت رکھتا تھا ، لیکن اب تو غریب افراد کا کہنا ہے کہ دالیں بھی اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ لوگ خرید نہیں سکتے۔ دالوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مختلف اقسام کی دالیں کھانے سے غذائیت کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن اب تو دالیں بھی اتنی مہنگی ہوکر رہ گئی ہیں کہ بہت سے غریب افراد کے بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس طرح جب بچوں کے لیے خوراک کی کمی ہوگی تو غذائیت کی کمی کے باعث ان کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
Load Next Story