16 برس گزرنے کے باوجود تیسر ٹاؤن کا منصوبہ مکمل نہ ہو سکا
2002 میں 20 ہزار 570 ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی، منصوبہ 7 سال میں مکمل ہونا تھا
ANKARA:
تیسر ٹاؤن کا منصوبہ 16 برس گزرنے کے باوجود مکمل نہ ہو سکا۔
تیسر ٹاؤن جسے 7 سال کی مدت میں شہر کے اندر ایک نئے شہر کے طور پر تعمیر کرنا تھا 16 برس کے بعد بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ایک زیر تعمیر علاقہ ہے جہاں ایک طرف بجلی، پانی اور سڑکیں مہیا نہیں کیے جاسکے تو دوسری جانب اس منصوبے کی سیکڑوں ایکڑ زمین پر بھی قبضہ ہو چکا ہے۔
2002 میں تعمیر کراچی منصوبے کے تحت تیسر ٹاؤن کے قیام کیلیے 20 ہزار 570 ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اس منصوبے کو دسمبر 2005 سے دسمبر 2012 تک 7 برس کی مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا، اس کے ذریعے 78 ہزار سے زائد رہائشی پلاٹ مہیا کرنے تھے جن میں نصف فیصد پلاٹ 80 اور 120 گز کے رکھے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ کم لاگت والے مکان بنا سکیں۔
مجموعی طور پر مذکورہ منصوبے کے ذریعے 25 لاکھ خاندانوں کو گھر فراہم کیے جانے تھے، نقشے کے مطابق مذکورہ منصوبے میں وہ تمام سہولیات میسر کی جانی تھیں جو کسی چھوٹے شہر میں دستیاب ہوتی ہیں ان میں رہائشی اور کمرشل علاقے، کشادہ روڈ، پانی کے ذخائر، ٹریٹمینٹ پلانٹ، سیوریج کا جدید نظام، گرڈ اسٹیشن، پارک، کھیل کے میدان، شاپنگ مال، بینک، کمپنیاں اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔
صرف سیوریج ٹریٹمینٹ پلانٹ کیلیے 151 ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی، پینے کے پانی کے پلانٹ کیلیے 20 ایکڑ سے زائد زمین مہیا کی گئی تھی، اسی طرح کمپوزٹ پلانٹ کیلیے 23 ایکڑ مختص کیے گئے تھے۔
ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق منصوبے کے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے کا سبب فنڈز کی عدم دستیابی ہے جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے تیسر ٹاؤن کی پرفارمنس آڈٹ رپورٹ کے مطابق منصوبے کے مکمل نہ ہونے کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے، مذکورہ رپورٹ سندھ اسمبلی کے آخری اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں منصوبے کی زمین پر قبضے ختم نہ ہونے میں ایم ڈی اے کی نااہلی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ اس ناکامی کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے۔
فنڈز کی کمی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر ایم ڈی اے حکام کسی ایک سیکٹر میں بنیادی سہولیات مہیا کر لیتے تو اس سے عوام کا اعتماد بحال ہوتا اور وہ اپنے واجبات ادا کرتے، رپورٹ میں سیوریج کے کام میں ناقص مٹیریل استعمال ہونے کی تحقیقات کرانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
تیسر ٹاؤن کا منصوبہ 16 برس گزرنے کے باوجود مکمل نہ ہو سکا۔
تیسر ٹاؤن جسے 7 سال کی مدت میں شہر کے اندر ایک نئے شہر کے طور پر تعمیر کرنا تھا 16 برس کے بعد بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ایک زیر تعمیر علاقہ ہے جہاں ایک طرف بجلی، پانی اور سڑکیں مہیا نہیں کیے جاسکے تو دوسری جانب اس منصوبے کی سیکڑوں ایکڑ زمین پر بھی قبضہ ہو چکا ہے۔
2002 میں تعمیر کراچی منصوبے کے تحت تیسر ٹاؤن کے قیام کیلیے 20 ہزار 570 ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اس منصوبے کو دسمبر 2005 سے دسمبر 2012 تک 7 برس کی مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا، اس کے ذریعے 78 ہزار سے زائد رہائشی پلاٹ مہیا کرنے تھے جن میں نصف فیصد پلاٹ 80 اور 120 گز کے رکھے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ کم لاگت والے مکان بنا سکیں۔
مجموعی طور پر مذکورہ منصوبے کے ذریعے 25 لاکھ خاندانوں کو گھر فراہم کیے جانے تھے، نقشے کے مطابق مذکورہ منصوبے میں وہ تمام سہولیات میسر کی جانی تھیں جو کسی چھوٹے شہر میں دستیاب ہوتی ہیں ان میں رہائشی اور کمرشل علاقے، کشادہ روڈ، پانی کے ذخائر، ٹریٹمینٹ پلانٹ، سیوریج کا جدید نظام، گرڈ اسٹیشن، پارک، کھیل کے میدان، شاپنگ مال، بینک، کمپنیاں اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔
صرف سیوریج ٹریٹمینٹ پلانٹ کیلیے 151 ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی، پینے کے پانی کے پلانٹ کیلیے 20 ایکڑ سے زائد زمین مہیا کی گئی تھی، اسی طرح کمپوزٹ پلانٹ کیلیے 23 ایکڑ مختص کیے گئے تھے۔
ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق منصوبے کے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے کا سبب فنڈز کی عدم دستیابی ہے جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے تیسر ٹاؤن کی پرفارمنس آڈٹ رپورٹ کے مطابق منصوبے کے مکمل نہ ہونے کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے، مذکورہ رپورٹ سندھ اسمبلی کے آخری اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں منصوبے کی زمین پر قبضے ختم نہ ہونے میں ایم ڈی اے کی نااہلی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ اس ناکامی کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے۔
فنڈز کی کمی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر ایم ڈی اے حکام کسی ایک سیکٹر میں بنیادی سہولیات مہیا کر لیتے تو اس سے عوام کا اعتماد بحال ہوتا اور وہ اپنے واجبات ادا کرتے، رپورٹ میں سیوریج کے کام میں ناقص مٹیریل استعمال ہونے کی تحقیقات کرانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔