چین کا ’راکٹ طیارہ‘ صرف 1 گھنٹے میں بیجنگ سے نیویارک پہنچ جائے گا
تیز رفتار عالمی سفر کے علاوہ یہ خلائی سیاحت میں بھی استعمال کیا جاسکے گا
PESHAWAR:
چین کی ایک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ایسے 'پروں والے راکٹ' پر کام کررہی ہے جو مسافروں کو لے کر صرف ایک گھنٹے میں بیجنگ سے نیویارک تک پہنچ جائے گا۔
یعنی یہ راکٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مسافر بردار ہوائی جہاز بھی ہوگا۔
اسے چینی کمپنی 'اسپیس ٹرانسپورٹیشن' نے تیار کیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ نما ہوائی جہاز (یا طیارہ نما راکٹ) مستقبل میں مسافروں کو دور دراز مقامات تک بہت کم وقت میں پہنچانے کے علاوہ مصنوعی سیارچوں اور دیگر سامان کو خلائی مدار میں چھوڑنے کا کام بھی کرسکے گا۔
اسے ایک بڑے طیارے کے نچلے حصے میں رکھ کر خاصی بلندی تک پہنچایا جائے گا جہاں یہ اس سے الگ ہوگا اور اپنا راکٹ انجن اسٹارٹ کرکے برق رفتاری سے منزلِ مقصود کی طرف پرواز کرنے لگے گا۔
اس طرح یہ 7000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئے، اپنے مسافروں کو صرف ایک گھنٹے میں بیجنگ سے نیویارک تک پہنچا دے گا۔
اپے سفر کا بیشتر حصہ یہ خلا میں رہتے ہوئے طے کرے گا، اور اس طرح ضرورت پڑنے پر یہ خلائی سیاحت میں بھی کام آسکے گا۔ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر یہ کسی راکٹ کی طرح بالکل عموداً زمین پر اترے گا۔
بتاتے چلیں کہ اس وقت خلائی سفر اور خلا میں مختلف ساز و سامان پہنچانا بہت مہنگا سودا ہے۔ یہ اخراجات کم کرنے کےلیے پچھلے کئی عشروں سے مختلف ملکوں میں 'فضائی خلائی جہاز' اور دوبارہ استعمال کے قابل خلائی راکٹوں جیسے درجنوں منصوبوں پر کام ہورہا ہے مگر اب تک ان میں سے کوئی ایک منصوبہ بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔
'اسپیس ٹرانسپورٹیشن' کی جانب سے اب تک اس منصوبے کی زیادہ تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں البتہ اس کی ویب سائٹ پر ایک اینی میشن سے مستقبل کا ایک منظرنامہ ضرور دکھایا گیا ہے۔
چین کی ایک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ایسے 'پروں والے راکٹ' پر کام کررہی ہے جو مسافروں کو لے کر صرف ایک گھنٹے میں بیجنگ سے نیویارک تک پہنچ جائے گا۔
یعنی یہ راکٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مسافر بردار ہوائی جہاز بھی ہوگا۔
اسے چینی کمپنی 'اسپیس ٹرانسپورٹیشن' نے تیار کیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ نما ہوائی جہاز (یا طیارہ نما راکٹ) مستقبل میں مسافروں کو دور دراز مقامات تک بہت کم وقت میں پہنچانے کے علاوہ مصنوعی سیارچوں اور دیگر سامان کو خلائی مدار میں چھوڑنے کا کام بھی کرسکے گا۔
اسے ایک بڑے طیارے کے نچلے حصے میں رکھ کر خاصی بلندی تک پہنچایا جائے گا جہاں یہ اس سے الگ ہوگا اور اپنا راکٹ انجن اسٹارٹ کرکے برق رفتاری سے منزلِ مقصود کی طرف پرواز کرنے لگے گا۔
اس طرح یہ 7000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئے، اپنے مسافروں کو صرف ایک گھنٹے میں بیجنگ سے نیویارک تک پہنچا دے گا۔
اپے سفر کا بیشتر حصہ یہ خلا میں رہتے ہوئے طے کرے گا، اور اس طرح ضرورت پڑنے پر یہ خلائی سیاحت میں بھی کام آسکے گا۔ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر یہ کسی راکٹ کی طرح بالکل عموداً زمین پر اترے گا۔
بتاتے چلیں کہ اس وقت خلائی سفر اور خلا میں مختلف ساز و سامان پہنچانا بہت مہنگا سودا ہے۔ یہ اخراجات کم کرنے کےلیے پچھلے کئی عشروں سے مختلف ملکوں میں 'فضائی خلائی جہاز' اور دوبارہ استعمال کے قابل خلائی راکٹوں جیسے درجنوں منصوبوں پر کام ہورہا ہے مگر اب تک ان میں سے کوئی ایک منصوبہ بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔
'اسپیس ٹرانسپورٹیشن' کی جانب سے اب تک اس منصوبے کی زیادہ تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں البتہ اس کی ویب سائٹ پر ایک اینی میشن سے مستقبل کا ایک منظرنامہ ضرور دکھایا گیا ہے۔