مٹھی اور’’کارونجھر‘‘کے دکھ   آخری حصہ

امر کوٹ اور مٹھی کے درمیان ہچکولے کھاتی سڑک اور صحرا کی باریک ریت سورج کی تمازت سے ایک دلفریب منظر پیش کر رہی تھی

Warza10@hotmail.com

ISLAMABAD:
امر کوٹ سے مٹھی کے راستے تک پہنچانے میں ہمارے رہبر بننے والے امرکوٹ کے دھرم شالی ''بھگت'' رہے تھے،ابھی ہم مٹھی کی جانب بڑھے ہی تھے کہ امر کوٹ کے صحافی سیف منگریو اجرک اور امر کوٹ کی معروف سوغات کرشن کی مٹھائی لے کر تمام احباب کے پاس آگئے اور یوں ہم سیف کی مدد سے گاڑی میں پٹرول ڈلوا کر ''مٹھی'' کی جانب گامزن ہوئے۔

امر کوٹ اور مٹھی کے درمیان ہچکولے کھاتی سڑک اور صحرا کی باریک ریت سورج کی تمازت سے ایک دلفریب منظر پیش کر رہی تھی،عباس نقوی تمامتر حشر سامانیوں کے ساتھ بہترین ''نا خدا'' کے فرائض انجام دے رہے تھے جب کہ عابدہ پروین کی آواز اور تھر کی ریت سے مزین سڑک پر تھر کے راگ ساز کے ترنگ ماحول میں وجد کا ایک ایسا رنگ گھول رہے تھے کہ جس میں سحر اور تھری بود و باس محسوس کی جا سکتی تھی۔

ایک زمانہ تھا کہ تھر کا سب سے اہم مرکز ''امر کوٹ'' اور اس کی تاریخی حیثیت تھے،زمانے کے بہائو اور ذخائر کی سرمایہ دارانہ لالچ نے اسلام کوٹ کے حصے میں جب قیمتی کوئلے کی کانوں کا سراغ لگایا تو سرمائے کی ہوس نے اسلام کوٹ کے رہن بسیرا کے طور طریقے ہی بدل ڈالے،اسلام کوٹ کی قحط سالی چند ٹکوں میں جب جاتی ہوئی نظر آئی تو غربت کے ماروں نے اسی سرمایہ دارانہ دین کو غنیمت جانا اور خود کو سرمایہ داروں کی ہوس کے لیے پیش کر دیا۔

ملکی طاقتور سرمایہ دار ادارے بیرونی سرمائے کے ساتھاری بن گئے اور یوں ''ڈھکوسلے'' پر مبنی خوشحالی کے نمائشی دور نے اپنے مفاداتی پنجے کوئلے کی کان میں ایسٹ انڈیا کمپنی مانند گاڑ دیے اور قریب ترین شہر ''مٹھی''کو تجارتی گیٹ وے میں منتقل کر دیا جب کہ تاریخی مھاگ ''امر کوٹ'' حکومت کی نا اہلی کی دہائی دیتا ہوا اپنے دکھوں کی داستان اب وہاں آنے جانے والوں کے آگے رکھ دیتا ہے کہ اب اسے صرف سابقہ مرکزی حیثیت پر ماتم کناں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

''مٹھی' 'کی مرکزی حیثیت اور نمائشی خوشحالی میں یہ بات ذہن میں رہے کہ کول مائینز کی یہ کانیں اور ان کے ذریعے کمایا جانے والا منافع کسی طور بھی تھر کے اسلام کوٹ،مٹھی یا قرب و جوار کی بھوک،معاشی خوشحالی،صحت،تجارت،تعلیم صاف پانی اور سماجی ترقی کا ضامن نہیں بن پایا ہے،کول مائینز تک پہنچنے والے لالچ زدہ طاقتور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو اس سے قطعی دلچسپی نہیں کہ تھر کے تعلیم یافتہ باشعور نوجوانوں کے روزگار یا بہتر تعلیمی سہولیات کا بندوبست کیاجائے،وہاں کے واسیوں کی معاشی تنگ دستی دور کرنے کا انتظام کیا جائے یا تھر کے ہنر مند افراد کی معاشی محرومی دور کرنے کے لیے جدید خطوط پر گھریلو صنعت کو ترقی دینے کے انتظامات کیے جائیں، بلکہ اس کے برعکس سندھ حکومتی اہلکار اور منتخب با اثر عوامی نمایندے اپنے من پسند افراد کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور ان کو غیر قانونی مراعات دینے کے گورکھ دھندے میں مصروف ہیں جب کہ سندھ یا وفاقی نظام ان با اثر افراد کی پشت پر کھڑا عوامی ووٹ کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے اور تھر کے عوام کی اکثریت آج بھی بہتر طبعی تعلیمی اور سماجی ضروریات سے نہ صرف محروم ہے بلکہ معاشی تنگ دستی کا شکار ہوکر یا تو بدعنوانی کی طرف مائل ہے یا پھر معاشی ضروریات اور وسائل کی عدم دستیابی پر مذہب تبدیل کرنے اور خود کشی ایسی بے موت زندگی پر مجبور کر دی گئی ہے۔


امرکوٹ سے چلتا ہوا ہم دوستوں کا یہ قافلہ بے نظیر بھٹو آڈیٹوریم مٹھی پہنچا جہاں ''تھر فیسٹیول''کے کشور کمار و دیگر ساتھیوں نے محبت اور خلوص کے جذبوں سے استقبال کیا اور ہمیں آڈیٹوریم لے جایا گیا،جہاں مٹھی اور قرب و جوار کے نوجوان لڑکے لڑکیوں سے آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا تھا،اور تھر کی زندگی پر مختلف پروگرام ٹیبلو اور جھمری ڈالی جا رہی تھی،تھر کے ان نوجوانوں کے باشعور جذبے بتا رہے تھے کہ وہ تھر کی روایت اور اس کے قدرتی حسن کو زندہ رکھنے کی ہر جدوجہد کا حوالہ بننے کے لیے تیار اور پر عزم ہیں۔

تھر کی زندگی میں تیز دھوپ کی شدت سے تپتے صحرا پر عزم ہوکر ہمیں پیغام دے رہے تھے کہ ہم تھر کے سونا اگلتے وسائل پر کسی طور بھی طاقت اور جبر کو قبول نہیں کریں گے،وہ بہت واضح انداز میں کہہ رہے تھے کہ تھر کے کول مائینز کا مسئلہ ہو یا کارونجھر کے سونا اگلتے جپسم پہاڑ کو غیر قانونی کاٹنے کا مسئلہ،وہ کسی طور بھی تھر کی قدرتی خوبصورتی اور اس کے وسائل دیتی زمین کو ہرگز طاقتور ملکی اور غیر ملکی ہاتھوں میں نہیں جانے دیں گے۔

تھر کے یہ پرعزم جوان تھر کے وسائل اور اس کی قدرتی خوبصورتی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش میں جتے ہوئے تھے،وہ چاہتے تھے کہ تھر کے ان لوٹے جانے والے وسائل کے حقائق سوچنے اور غور کرنے والوں کے سامنے رکھے جائیں اور ان روشن خیال دانشوروں کی مدد سے وہ اجتماعی شعور کے ساتھ اپنی بے بسی اور مسلط کردہ طاقتور جبر کا مقابلہ کریں،اسی وجہ سے تھر کا نوجوان کارونجھر کے جپسم پہاڑوں کے قیمتی خزانے کے غیر محفوظ ہونے پر دکھی تھا جب کہ حکومتی بے بسی پر سراپا احتجاج بھی بنا ہوا تھا۔

کارونجھر کے پہاڑوں کی غیر قانونی کٹائی رکوانے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کی سندھ حکومت کی جانب سے دھجیاں اڑانے پر ہو پرامن طور سے نہ صرف متفکر بلکہ کرب میں بھی مبتلا تھا۔ کارونجھر کے قدرتی وسائل اور اس کی اہمیت کو جب معروف سندھ ناول نگار منظور تھہیم نے نہایت وضاحت اور دانش ورانہ فکر مندی کے ساتھ رکھا تو آڈیٹوریم میں موجود تھری نوجوانوں کے چہرے امید سے روشن ہوگئے اور پورا آڈیٹوریم منظور تھہیم۔کے ''کارونجھر دکھ'' میں برابر کا شریک ہوگیا اور فکر مند سوالات کے جواب میں امید تلاش کرتا ہوا پایا گیا،''کارونجھر کے مسائل اور حل''کا یہ سیشن سنجیدہ ماحول میں گھنٹے میں تبدیل ہوا اور نوجوانوں کے چہروں میں امید کا جذبہ ایک نئے عزم سے جھلکتا دکھائی دیا،تھر فیسٹیول میں جدید ٹیکنالوجی کی آمد اور اس سے فوائد لینے کے موضوع پر معروف آرٹ ڈائریکٹر معین قریشی نے تھر اور کارونجھر کے وسائل کو جدید خطوط پر دنیا میں متعارف کرنے کی تکنیک اپنانے کی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہم جدید میڈیا کی آواز کے محتاج بنیں بلکہ نیٹ اور موبائل کی جدت سے ہمارا نوجوان واقف ہوکر تھر کو بہتر انداز سے دنیا میں متعارف کروا سکتا ہے،جس سے تھر عالمی وسائل کا فائدہ مند خطہ بن سکتا ہے کہ جس کے وسائل تھر کی بہتر تعلیم طبعی سہولیات اور سماجی ضروریات پوری کرنے پر صرف کیے جا سکتے ہیں۔

مٹھی میں ہونے والے اس تھر فیسٹیول میں کارونجھر کے قدرتی وسائل کو سرمایہ داروں اور حکومتی غفلت سے بچانے میں صحافت کے کردار پر میرا کہنا تھا کہ ''بنیادی طور سے ہر فرد میں فطری طور سے جاننے اور اپنی جانکاری کو دوسروں تک پہنچانے کا ہنر موجود ہوتا ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان اپنے جاننے اور تحقیق کے علم کو شعوری انداز سے اپنانے پر توجہ دیں اور عوام میں سماجی شعور کا وہ دیا جلائیں جن سے ان کی معلومات میں نہ صرف اضافہ ہو بلکہ ان میں اپنے وسائل کو تحفظ دینے کا جذبہ بھی پیدا ہو''۔

تھر فیسٹیول کے شاندار اختتام بعد تمام دوستوں کی تھری مہمان نوازی کی گئی اور اس سرد اور سرور بھری ''کچہری''کے خمار میں ہم دوستوں نے خود کو مٹھی کے اونچے ٹیلے ''منڈھی''کی رات کے یخ بستہ ماحول میں سمو دیا اور رات دیر تک ٹیلے سے روشنی سے ٹمٹماتے مٹھی شہر کی ان اداسیوں کو دیکھتے رہے جن میں مائی بھاگی کے سر اور لے کی تھاپ ہماری سردی میں حرارت پیدا کر رہی تھی۔
Load Next Story