کبھی خوشی کبھی غم

زندگی بھی موسموں کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ کبھی سردی تو کبھی گرمی۔ کبھی بہار تو کبھی خزاں۔۔۔۔

03332257239@hotmail.com

آپ ہمیشہ خوش رہتے ہیں؟ نہیں کبھی کبھی غمگین و اداس بھی ہوجاتے ہیں۔ کون ہے جو اقتدار یا دولت کے باوجود پریشان نہیں ہوتا؟ کون سا غریب یا قیدی ہے جسے کبھی ہنستے نہیں دیکھا گیا؟ خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خاندان ہوں یا تجارتی ادارے، فنکار ہوں یا سیاسی پارٹیاں، جانور ہوں یا انسان، یہ سب ریل کی بدلتی پٹریوں کی طرح سرور اور اداسی کے مظاہرے کرتے ہیں۔ امریکا ہو یا سعودی عرب، آسٹریلیا ہو یا پاکستان، لوگوں کے مزاج بدلتے رہتے ہیں۔ وقت بدلتا ہے، موسم تبدیل ہوتا ہے، دولت اپنے گھر بدلتی ہے تو کوئی ملول ہوتا ہے تو کوئی مسرور۔ اسی کیفیت کو بہانہ بناکر ہم پاکستان کی سیاست کی سیر کرتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح کوئی قوم، شخصیت اور پارٹی غم سے کامرانی اور کبھی خوشی سے غم کے ماحول میں چلی جاتی ہے۔ یہ کیفیت مہینوں اور ہفتوں تو کبھی دنوں اور گھنٹوں میں بدل جاتی ہے۔

قائد اعظم جب 7 اگست 1947 کو کراچی آئے تو پوری قوم کتنی خوش تھی۔ پاکستان کو وجود میں آنے میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ کس طرح لوگ دیوانہ وار برصغیر کی ہزار سالہ مسلم تاریخ کے بطل جلیل کا استقبال کرنے کو دوڑ رہے تھے۔ تیرہ ماہ سے تین دن کم تھے کہ وہی قائد انتہائی بیماری کے عالم میں اسی کراچی شہر میں آتے ہیں اور پھر ہم نہ تین میں رہتے ہیں اور نہ تیرہ میں۔ ایسا ہی منظر راولپنڈی کا تھا جب وزیر اعظم لیاقت علی خان ''کمپنی باغ'' میں خطاب کو پہنچے۔ 16 اکتوبر 1951 کو چند لمحوں میں شہادت کی اطلاع سے ہم پاکستانی ایک اور بڑے رہنما سے محروم ہوگئے۔ یہ پاکستانی قوم کے لیے کبھی خوشی اور کبھی غم کی کیفیت تھی۔ ایسی کیفیات ملکوں پر بھی آتی ہیں اداروں پر بھی۔ خاندانوں پر بھی اور شخصیات پر بھی۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے ان کا منصب سنبھالا۔ غلام محمد مملکت کے آئینی سربراہ بنے۔ یہ ان کے لیے خوشی کی کیفیت تھی کہ وہ عہدہ جس پر قائد اعظم جیسی شخصیت براجمان ہوئی ہو۔ اپریل 1953 میں گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنادیا۔ ڈیڑھ سال بعد اسمبلی بھی برطرف کردی۔ گورنر جنرل کے اس اقدام کو اسپیکر مولوی تمیزالدین خان نے سندھ کی اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا۔ اسپیکر کی کامیابی پر غلام محمد نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی۔ جسٹس منیر نے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہی غلام محمد کچھ عرصے بعد بیمار ہوئے اور برطرف کردیے گئے۔ اعلیٰ عہدوں کی خوشی اور تاریخ میں برا نام ان کا نصیب بنا۔ ایسا ہی کچھ اسکندر مرزا کے ساتھ ہوا۔ وہ پاکستان کے آئینی سربراہ بنے لیکن ایوب خان کی مدد سے مارشل لا لگا کر خوشی کی انتہا کے بعد تاریخ کے کوڑے دان پر بکھرے ہونے کا غم سہہ گئے۔

ایوب خان نے دس برس تک پاکستان پر حکومت کی۔ فیلڈ مارشل تک کی پے درپے ترقیاں خوشی کے لمحات تھے۔ 1958 کے بعد ایک عشرے تک حکومت اور پھر زندگی کے آخری پانچ سال خاموشی سے گزارنا غم کی کیفیت تھی۔ یحییٰ خان کے ساتھ تاریخ و قسمت کا سلوک اس سیزیادہ بہتر نہ تھا۔ فوج کی سربراہی کے بعد صدر پاکستان بننا خوشیوں کی معراج تھی۔ سقوط ڈھاکہ کی غمناکی کے بعد اقتدار چھوڑنا اور عمر کے آخری نو برس قید تنہائی میں گزارنا کیا تھا؟ تحریک پاکستان کے دو بڑے رہنماؤں، دو سرکاری افسران اور دو آمروں کے بعد ہم دو مقبول سیاسی پارٹیوں کی خوشی اور غم کے بعد ضیا اور مشرف کی جانب آئیں گے۔


ذوالفقار علی بھٹو نے جب دسمبر 71 میں اقتدار سنبھالا تو وہ اپنی ذاتی کامیابی کی خوشی کی انتہا پر تھے۔ عوامی مقبولیت، بین الاقوامی پذیرائی اور شاداب خاندان۔ وقت کا لمحہ آگے بڑھا اور پانچ سال گزر گئے۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزام اور قومی اتحاد کی تحریک نے غم کے موسم کی ابتدا کردی۔ مذاکرات میں رکاوٹیں اور پھر مارشل لا۔ قید پھر رہائی پھر قید۔ پہلے مقدمہ ہائی کورٹ میں اور سزا پھر سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد سزا اور پھر تعمیل۔ یوں پہلے قید اقتدار سے رہائی اور پھر قید زندگی سے رہائی۔ وزیر اعظم کے بچوں پر یہ دو سال قیامت کے گزرے۔ پانچ سال اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والوں نے پہلے تخت کے چھن جانے کا نظارہ کیا اور پھر تختے تک پہنچنے کا۔ شاید پاکستان کی تاریخ نے خوشی اور غم کی انتہا پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ ان المناکیوں کے باوجود بے نظیر بھٹو نے عوام سے دور رہنے کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ پہلے والد سے آخری ملاقات کی المناکی اور اس کے بعد قید و جلاوطنی کا صدمہ۔ ہر واقعے میں خوشی کے بعد غم آتا ہے لیکن بے نظیر کے واقعات میں کامرانی و غمگینی کے بعد پھر فتح اور پھر اداسی نظر آتی ہے۔ پہلے اقتدار پھر محرومی پھر اقتدار پھر محرومی۔ پھر جلاوطنی و واپسی اور آخر میں راولپنڈی میں دسمبر 2007 میں اداس کر دینے والا واقعہ۔ ایسی ہی خوشیوں اور غموں سے بھری داستان شریف فیملی کی ہے۔ گوکہ اس کی انتہا بھٹو فیملی کی انتہا کو نہیں چھوتی لیکن اس خاندان کے مسرور و ملول ہونے کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔

نواز شریف بارہ برسوں تک اقتدار کی بلند سیڑھیوں کو عبور کرتے رہے۔ صوبائی وزیر سے وزیر اعظم بننے تک کا یہ سفر کم مدت میں طے ہوا۔ عوامی مقبولیت نے انھیں بے نظیر کے پائے کا لیڈر بنادیا تھا۔ 1993 میں اقتدار سے محرومی نے غم کا سایہ پہلی مرتبہ ڈالا۔ تین سال بعد پھر اقتدار نے اس تلخی کو کم کردیا لیکن وقتی طور پر۔ ابھی کڑوے گھونٹ اور پینے تھے۔ اکتوبر 1999 میں نواز مشرف کشمکش نے شریف خاندان پر غموں کے پہاڑ توڑ دیے۔ اقتدار سے محرومی، مقدمات اور پھر جلاوطنی۔ ان غموں کے بعد پھر پنجاب کا اقتدار اور پھر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا منفرد ریکارڈ۔

یہ خوشیاں اور غم دھوپ چھاؤں کی مانند ہیں۔ پل میں خوشی اور پل میں غم۔ جنرل ضیا کا اقتدار بھی سوا نیزے پر تھا۔ امریکا کے لیے ممکن نہ تھا کہ انھیں اقتدار سے ہٹا دے۔ نہ اسمبلیوں اور نہ فوج کے ذریعے رخصت کرنا ممکن تھا۔ بے نظیر جلاوطنی گزارنے کے بعد ڈھائی برسوں سے جدوجہد کر رہی تھیں لیکن کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ اچانک اگست 1988 میں جنرل ضیا کا طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔ چار ماہ کے بعد بے نظیر کے لیے اقتدار کا راستہ صاف ہوجاتا ہے۔ جنرل ضیا کے خاندان کا دس بارہ برسوں کا اقتدار ختم ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ مشرف کے ساتھ ہوا۔ حالات کی تبدیلی نے کچھ واقعات کو بدل دیا۔ جنرل ضیا کے تو جیتے جی اقتدار سے محروم نہیں کیا جاسکا۔ ایوب کی اداسی، یحییٰ کی قید اور مشرف کی طرح کے مقدموں سے ضیا کو سابقہ پیش نہ آیا۔ اقتدار کی غلام گردشوں سے دوری نے ان کے خاندان کے لیے صرف خاندان کے سربراہ کی موت کا غم دیا۔ اس سے کم تر غم مشرف کے خاندان کو ملتا اگر وہ خاموش رہتے یا جلاوطن۔ پہلے سیاسی پارٹی بناکر میڈیا کو انٹرویو دے کر سیاسی طور پر زندہ رہے۔ وطن واپسی کے بعد آرٹیکل چھ کے تحت مقدمے کے سامنے نے ان کے چاہنے والوں کو غمگین کردیا ہے۔ وہ نہ ایوب کی طرح محدود رہے اور نہ یحییٰ کی طرح گمنام اور وہ نہ ضیا کی طرح اقتدار کے عروج میں کسی حادثے کا شکار ہوئے۔ مشرف تو البتہ پاکستان آکر مقدموں کا سامنا ضرور ہے۔ زندگی اسی طرح کے طربیہ اور المیہ گانوں کی کہانی ہے۔

کبھی خوشی اور کبھی غم کے بہانے سے ہم نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا۔ اس میں تمام انسانوں کے لیے سبق ہے۔ زندگی بھی موسموں کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ کبھی سردی تو کبھی گرمی۔ کبھی بہار تو کبھی خزاں۔ حالات ذاتی ہوں یا کاروباری، تعلیمی ہوں یا سرکاری، معاشی ہوں یا سیاسی۔ ہوتا یہی ہے کہ ''نہ یہ دن رہے ہیں اور نہ وہ دن رہیں گے''۔ خوش ہیں تو وقار سے خوشی منائیں۔ اترانا یا شو بازی کرنا بری بات ہے۔ غمگین ہیں تو حوصلہ رکھیں اور مایوس نہ ہوں۔ موسم بدلتے رہتے ہیں۔ زندگی اسی دھوپ چھاؤں کا نام ہے کہ کبھی خوشی تو کبھی غم۔
Load Next Story