معاشی حالات اور محنت کش
امریکا و چین کے اقتصادی حالات میں ابتری کے خدشات کی وجہ سے دنیا بھر میں حصص مارکیٹیں 4 فروری 2014 کو گر گئیں۔۔۔
امریکا و چین کے اقتصادی حالات میں ابتری کے خدشات کی وجہ سے دنیا بھر میں حصص مارکیٹیں 4 فروری 2014 کو گر گئیں۔ وال اسٹریٹ اور ایشیا کے بعد یورپی مارکیٹیں بھی مندی کا شکار ہوگئیں۔ لندن کا بینچ مارک ایف ٹی ایس ای 100 انڈیکس 0.40 فیصد، فرینکفرٹ کا ڈی اے ایکس 30 انڈیکس 0.96 فیصد اور پیرس کا سی اے سی 40 انڈیکس 0.21 فیصد تک گر چکا تھا۔ قبل ازیں وال اسٹریٹ میں بڑے پیمانے پر فروخت کا دباؤ دیکھا گیا، سرمایہ کاروں میں امریکی کمزور مینوفیکچرنگ ڈیٹا کے علاوہ امریکی وزیر خزانہ کی جانب سے گزشتہ دنوں قرضوں کی امریکی حد ختم ہونے کے انتباہ پر اس حد میں اضافے پر سیاسی ڈیڈلاک اور ممکنہ ڈیفالٹ کے خدشات نے بھی مارکیٹ کو متاثر کیا۔ ادھر ایشیا میں سب سے زیادہ مندی ٹوکیو میں 4.18 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ نکئی انڈیکس منہ کے بل گر پڑا، سیؤل میں 1.73 فیصد مندی دیکھی گئی، سڈنی کا انڈیکس 1.75 فیصد نیچے آگیا، ہانگ کانگ کی مارکیٹ 2.89 فیصد گرگئی جب کہ ویلینگٹن 0.97 فیصد، مینلای 2 فیصد، کولالمپور1.40 فیصد، جکارتہ 0.78 فیصد، سنگاپور 0.84 فیصد، بنکاک میں شیئر پرکسز 1.24 فیصد کم ہوگئیں جب کہ ممبئی کی مارکیٹ پر جمود طاری رہا۔ جہاں تک کراچی کی بات ہے تو حصص مارکیٹ مندی کے شکار سے 194 پوائنٹس کی کمی رہی۔ سرمایہ کاروں کو 74 ارب 46 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ آج عالمی سرمایہ داری اتنی نحیف اور انحطاط پذیری کا شکار ہے کہ کہیں سے اگر ایک کڑی ٹوٹتی ہے تو سارا نظام ہی ڈھنے لگتا ہے۔
عالمی سرمایہ داری ایک دوسرے میں مدغم ہونے، زاید پیداوار اور سرمایہ کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے دنیا میں افلاس زدہ شہریوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اربوں کی تعداد میں لوگ غربت زدہ اور بیروزگار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں تو ایسا کوئی دن نہیں کہ محنت کش اپنے مسائل کے لیے درجنوں شہروں میں احتجاج نہ کرتے ہوں۔ ایک ادارے کی یونین نے ایڈمنسٹریٹر کے ظالمانہ رویے کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس سے قبل یونین کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا جسے ایڈمنسٹریٹر نے 20 جنوری کو رد کردیا۔ بعدازاں یونین نے 23 جنوری سے اپنے مطالبات کے لیے احتجاجی کیمپ ٹی ایم اے کے گیٹ پر لگایا، ایڈمنسٹریٹر نے یونین رہنما کو معطل کردیا۔ اس کے بعد مزدوروں نے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ انھوں نے اپنے مطالبے میں ایک سال پیشتر ریٹائرڈ ہونے والے 19 ملازمین کو پنشن اور واجبات ادا کیے جانے، ریٹائرڈ ملازمین کو 7 فیصد پنشن الاؤنس دینے، چھٹی کے ایام میں کام کرنے والے ورکرز کو ایک سال سے رکی ہوئی ادائیگی کرنے وغیرہ کے نکات شامل کیے ہیں ۔
لودھراں میں کسان اتحاد نے شوگر مل مالکان کے خلاف احتجاج کیا، کیونکہ سرمایہ داری کی پرانی روایت برقرار رکھتے ہوئے گنے کے ریٹ انتہائی نچلے درجے تک گرائے گئے، باقی کی کسر ان مارکیٹ میں چھوڑے ہوئے ایجنٹ پوری کردیتے ہیں۔ 170 روپے فی من سرکاری ریٹ کے بدلے کسان کی جیب تک 90 روپے فی من پہنچ پاتے ہیں وہ بھی سال میں ایک بار۔ اس سال چوہدری نورالحسن کی رہنمائی میں کسانوں نے گزشتہ دنوں شوگر مل کے سامنے موٹروے بند کردی اور کسانوں کا نہ تھمنے والے احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے مل انتظامیہ نے کسانوں کی رکی ہوئی رقم فوری ادائیگیاں کرادیں اور مارکیٹ سے اپنے دلال فوری نکال لیے۔ ادھر حیدر آباد میں این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے والے بیروزگار نوجوانوں نے آفر آرڈر نہ ملنے کے خلاف 15 جنوری 2014 کو اولڈ کیمپس حیدر آباد سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی۔ ریلی نے پریس کلب پر پہنچنے کے بعد جلسے کی شکل اختیار کرلی۔
سندھ کے مختلف اضلاع کے 20 ہزار امیدوار این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرکے پی ایس ٹی، جے ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی کے لیے اہل ثابت ہوئے ہیں لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت نے انھیں آفر نہیں دی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے منظور نظر اور سیاسی لوگوں کو آفر دے رہی ہے۔ فیصل آباد ایک ٹیکسٹائل ملز میں 26 دسمبر 2013 کی رات 11 بجے ایک خوفناک حادثے کی شکل اختیار کرگئی جب درجہ حرارت کے بڑھنے سے بوائلر پھٹ گیا اور انسانی جلد اور گوشت کو جلا دینے والے آئل نے 8 مزدوروں کی جان لے لی جب کہ 15 مزدوروں کے چہرے، بازو اور جسم کے باقی حصے جھلس گئے۔ بعدازاں انھیں اسپتال لایا گیا لیکن انھیں کسی بہتر برننگ سینٹر منتقل نہیں کیا گیا۔ اس ٹیکسٹائل مل سے اربوں روپے کا کپڑا برآمد کیا جاتا ہے لیکن ٹیکنیکل اور ضروری اسٹاف کی جگہ خالی ہے۔بوائلر اور دوسری مشنری پر غیر ہنرمند مزدوروں سے ہی کام لیا جاتا ہے۔
فیصل آباد میں ہی ینگ ڈاکٹرز نے مسائل پر احتجاج کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں دوائیوں کی عدم دستیابی، ایک سال گزرنے کے باوجود سروس اسٹرکچر کے عدم نفاذ، ایم اوز کو پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ سے دور رکھنے اور پرائیویٹ میڈیکل کالج کے گریجویٹس کو تنخواہ کے بغیر بھی ہاؤس جاب کی اجازت نہ دینے کے خلاف احتجاج کیا اور ریلی نکالی۔ ملتان میں بھی ینگ ڈاکٹرز نے ایک اسپتال میں گیٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ادھر لاہور میں پنجاب حکومت کا لیڈی ولنگٹن اسپتال کو مسمار کرنے کے خلاف ڈاکٹرز اور ملازمین نے احتجاج کیا۔ یہ اسپتال 70 سال پرانا اور 250 سے زائد بستروں پر مشتمل زچہ بچہ کے لیے مخصوص ہے۔ اسپتال میں ہر روز 70 سے زائد بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ 1930 سے قائم یہ اسپتال صوبے بھر میں خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے موجود سب سے بہترین سہولتوں میں شمار ہوتا ہے جہاں محنت کش مستفید ہوتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس اسپتال کو گرا کر یہاں پارک بنایا جائے گا جب کہ میٹرو بس کے راستے میں آنے والی ٹریفک کے لیے جگہ بھی کشادہ کی جائے گی اور پل بنایا جائے گا۔ ادھر کوئٹہ میں 21 دسمبر 2013 کو نیشنل آرگنائزیشن آف پوسٹل ایمپلائیز (نوپ) کوئٹہ یونٹ کے شاہین پینل نے نذر مینگل کی رہنمائی میں انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرلی ہے۔
یہ یونین نجکاری کے سخت خلاف ہے اور بلوچستان اور ملک بھر کی مزدور یونینوں کی رہنمائی بھی کرتی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد نذر مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت 68 اداروں کو نجکاری میں دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ایسے میں نجکاری کے خلاف جنگ صرف ایک ادارے کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے تمام محنت کشوں کی مشترکہ جنگ ہے۔ پاکستان واپڈا ہائیڈرو ورکرز یونین کا نجکاری کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا۔ اس سلسلے میں ملتان بختیار لیبر ہال کے سامنے واپڈا کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ادھر کوٹ ادو میں نجکاری کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ ہوا۔ جس کی صدارت مرکزی نائب صدر آل مزدور اتحاد یونین سی جی اے اور اوجی ڈی سی ایل ملک اختر کالرو نے کی۔ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف بھی پیپلز یونیٹی کی جانب سے کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت ملک گیر احتجاج ہوا۔ ان تمام احتجاجوں میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین نے عملی طور پر محنت کشوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ شریک رہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام اداروں جن کی نجکاری کے لیے حکومت نے اعلان کیا ہے وہ متحدہ احتجاج اور ہڑتال کرکے ان سازشوں کو رکوا سکتے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری ایک دوسرے میں مدغم ہونے، زاید پیداوار اور سرمایہ کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے دنیا میں افلاس زدہ شہریوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اربوں کی تعداد میں لوگ غربت زدہ اور بیروزگار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں تو ایسا کوئی دن نہیں کہ محنت کش اپنے مسائل کے لیے درجنوں شہروں میں احتجاج نہ کرتے ہوں۔ ایک ادارے کی یونین نے ایڈمنسٹریٹر کے ظالمانہ رویے کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس سے قبل یونین کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا جسے ایڈمنسٹریٹر نے 20 جنوری کو رد کردیا۔ بعدازاں یونین نے 23 جنوری سے اپنے مطالبات کے لیے احتجاجی کیمپ ٹی ایم اے کے گیٹ پر لگایا، ایڈمنسٹریٹر نے یونین رہنما کو معطل کردیا۔ اس کے بعد مزدوروں نے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ انھوں نے اپنے مطالبے میں ایک سال پیشتر ریٹائرڈ ہونے والے 19 ملازمین کو پنشن اور واجبات ادا کیے جانے، ریٹائرڈ ملازمین کو 7 فیصد پنشن الاؤنس دینے، چھٹی کے ایام میں کام کرنے والے ورکرز کو ایک سال سے رکی ہوئی ادائیگی کرنے وغیرہ کے نکات شامل کیے ہیں ۔
لودھراں میں کسان اتحاد نے شوگر مل مالکان کے خلاف احتجاج کیا، کیونکہ سرمایہ داری کی پرانی روایت برقرار رکھتے ہوئے گنے کے ریٹ انتہائی نچلے درجے تک گرائے گئے، باقی کی کسر ان مارکیٹ میں چھوڑے ہوئے ایجنٹ پوری کردیتے ہیں۔ 170 روپے فی من سرکاری ریٹ کے بدلے کسان کی جیب تک 90 روپے فی من پہنچ پاتے ہیں وہ بھی سال میں ایک بار۔ اس سال چوہدری نورالحسن کی رہنمائی میں کسانوں نے گزشتہ دنوں شوگر مل کے سامنے موٹروے بند کردی اور کسانوں کا نہ تھمنے والے احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے مل انتظامیہ نے کسانوں کی رکی ہوئی رقم فوری ادائیگیاں کرادیں اور مارکیٹ سے اپنے دلال فوری نکال لیے۔ ادھر حیدر آباد میں این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے والے بیروزگار نوجوانوں نے آفر آرڈر نہ ملنے کے خلاف 15 جنوری 2014 کو اولڈ کیمپس حیدر آباد سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی۔ ریلی نے پریس کلب پر پہنچنے کے بعد جلسے کی شکل اختیار کرلی۔
سندھ کے مختلف اضلاع کے 20 ہزار امیدوار این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرکے پی ایس ٹی، جے ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی کے لیے اہل ثابت ہوئے ہیں لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت نے انھیں آفر نہیں دی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے منظور نظر اور سیاسی لوگوں کو آفر دے رہی ہے۔ فیصل آباد ایک ٹیکسٹائل ملز میں 26 دسمبر 2013 کی رات 11 بجے ایک خوفناک حادثے کی شکل اختیار کرگئی جب درجہ حرارت کے بڑھنے سے بوائلر پھٹ گیا اور انسانی جلد اور گوشت کو جلا دینے والے آئل نے 8 مزدوروں کی جان لے لی جب کہ 15 مزدوروں کے چہرے، بازو اور جسم کے باقی حصے جھلس گئے۔ بعدازاں انھیں اسپتال لایا گیا لیکن انھیں کسی بہتر برننگ سینٹر منتقل نہیں کیا گیا۔ اس ٹیکسٹائل مل سے اربوں روپے کا کپڑا برآمد کیا جاتا ہے لیکن ٹیکنیکل اور ضروری اسٹاف کی جگہ خالی ہے۔بوائلر اور دوسری مشنری پر غیر ہنرمند مزدوروں سے ہی کام لیا جاتا ہے۔
فیصل آباد میں ہی ینگ ڈاکٹرز نے مسائل پر احتجاج کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں دوائیوں کی عدم دستیابی، ایک سال گزرنے کے باوجود سروس اسٹرکچر کے عدم نفاذ، ایم اوز کو پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ سے دور رکھنے اور پرائیویٹ میڈیکل کالج کے گریجویٹس کو تنخواہ کے بغیر بھی ہاؤس جاب کی اجازت نہ دینے کے خلاف احتجاج کیا اور ریلی نکالی۔ ملتان میں بھی ینگ ڈاکٹرز نے ایک اسپتال میں گیٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ادھر لاہور میں پنجاب حکومت کا لیڈی ولنگٹن اسپتال کو مسمار کرنے کے خلاف ڈاکٹرز اور ملازمین نے احتجاج کیا۔ یہ اسپتال 70 سال پرانا اور 250 سے زائد بستروں پر مشتمل زچہ بچہ کے لیے مخصوص ہے۔ اسپتال میں ہر روز 70 سے زائد بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ 1930 سے قائم یہ اسپتال صوبے بھر میں خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے موجود سب سے بہترین سہولتوں میں شمار ہوتا ہے جہاں محنت کش مستفید ہوتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس اسپتال کو گرا کر یہاں پارک بنایا جائے گا جب کہ میٹرو بس کے راستے میں آنے والی ٹریفک کے لیے جگہ بھی کشادہ کی جائے گی اور پل بنایا جائے گا۔ ادھر کوئٹہ میں 21 دسمبر 2013 کو نیشنل آرگنائزیشن آف پوسٹل ایمپلائیز (نوپ) کوئٹہ یونٹ کے شاہین پینل نے نذر مینگل کی رہنمائی میں انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرلی ہے۔
یہ یونین نجکاری کے سخت خلاف ہے اور بلوچستان اور ملک بھر کی مزدور یونینوں کی رہنمائی بھی کرتی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد نذر مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت 68 اداروں کو نجکاری میں دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ایسے میں نجکاری کے خلاف جنگ صرف ایک ادارے کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے تمام محنت کشوں کی مشترکہ جنگ ہے۔ پاکستان واپڈا ہائیڈرو ورکرز یونین کا نجکاری کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا۔ اس سلسلے میں ملتان بختیار لیبر ہال کے سامنے واپڈا کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ادھر کوٹ ادو میں نجکاری کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ ہوا۔ جس کی صدارت مرکزی نائب صدر آل مزدور اتحاد یونین سی جی اے اور اوجی ڈی سی ایل ملک اختر کالرو نے کی۔ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف بھی پیپلز یونیٹی کی جانب سے کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت ملک گیر احتجاج ہوا۔ ان تمام احتجاجوں میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین نے عملی طور پر محنت کشوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ شریک رہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام اداروں جن کی نجکاری کے لیے حکومت نے اعلان کیا ہے وہ متحدہ احتجاج اور ہڑتال کرکے ان سازشوں کو رکوا سکتے ہیں۔