الجھن ننھی کلیوں کی

بچوں کی ہکلاہٹ کو نظر انداز نہ کریں

بچوں کی ہکلاہٹ کو نظر انداز نہ کریں۔ فوٹو: فائل

بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کے دم سے گویا گھر کے چمن میں بہار آجاتی ہے۔۔۔ گھروں میں گونجنے والی قلقاریاںاور کھلکھلاہٹیں کسی دل فریب چہچہاہٹ کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔

رفتہ رفتہ یہی غوں غاں لفظوں کا روپ دھارنے لگتی ہے۔ بچے کا رک رک کر بولنا اور توتلی زبان میں اپنی بات سمجھانا، والدین اور دیگر گھر والوں کو بہت بھلا لگتا ہے۔ اکثر انہیں سمجھانے کے لیے بڑے بھی انہی کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر یہی ہکلانا یا توتلا کر بولنا بڑھتی عمر کے ساتھ بچے کی ذات کا حصہ بن جائے تو والدین کو تشویش ہونے لگتی ہے۔ زبان کی لکنت یا ہکلانے کا یہ مرض عموماً تین سے پانچ سال کی عمر میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اس انکشاف کے بعد والدین بچے سے زیادہ پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کا بچہ دیگر بچوں کی طرح روانی سے نہیں بول پاتا۔ والدین کی فکر مندی بھی بجا ہوتی ہے، کیوں کہ یہ سوچ ہی ان کے لیے اذیت ناک ہوتی ہے کہ ان کا لخت جگر سماج کی تضحیک کا نشانہ بنے۔

اکثر والدین اس مرض کی وجوہات اور سدباب پر غور کرنے کے بہ جائے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ اور جذبات کو کنٹرول نہیں کر پاتے اور ردعمل کے طور پر بچوں کو ٹوکنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے نہ بولو، ایسے بولو، یا یہ جملہ دُہراؤ وغیرہ۔ اس طرح بلاواسطہ وہ اسے یہ احساس دلا رہے ہوتے ہیں کہ وہ دیگر بچوں سے مختلف ہے اور وہ ٹھیک نہیں بول پا رہا۔ زندگی کے اس نازک موڑ پر وہ لفظوں کی رواں ادائیگی میں بے بسی محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں والدین کا یہ رویہ اسے نفسیاتی طور پر پریشان کرتا ہے۔ اس کی بات سنے بغیر درمیان سے بات کاٹنا، اسے دوبارہ وہی جملے کہنے پر مجبور کرنا، بچے کا اعتماد متزلزل کر دیتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بعد میں زبان کی لکنت تو ختم ہو جائے، لیکن اس کی شخصیت پر لگی یہ ضربیں اپنا نشان چھوڑ جائیں اور وہ اپنے اعتماد کو نہ پا سکے۔




زبان کی لکنت یا ہکلاکر بولنے کی عموما دو وجوہات ہو سکتی ہیں، طبعی یا پھر نفسیاتی۔ ہو سکتا ہے کہ بچے کی زبان میں کچھ مسئلہ ہو یا بچے کے دماغ کا وہ حصہ جو کہ بول چال کو کنٹرول کرتا ہے، وہ ٹھیک سے کام کرنے سے قاصر ہو۔ نفسیاتی وجوہات میں بچے کے اندر خوف یا اعتماد کی کمی سرفہرست ہے۔ اس کی وجہ گھر کا ماحول، ڈانٹ ڈپٹ یا والدین کا نا مناسب رویہ ہوتا ہے۔ بہت سے والدین بچوں کو حد سے زیادہ خوف زدہ کر دیتے ہیں، تاکہ مختلف معاملات میں وہ ان کی حکم عدولی نہ کرے۔ لہٰذا وہ ہر وقت ڈرا سہما رہتا ہے اور یہ چیز اس کی زبان کی لکنت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بچہ اگر گھر میں چھوٹا ہے تو بڑے بہن بھائی بھی اسے اپنے تابع رکھنے کے لیے ایسے رویے اپناتے ہیں، جو اس پر برے اثرات ڈالتا ہے۔

ذہنی و قلبی طور پر کمزور بچوں پر سنسنی خیز، خوف زدہ اور تشدد سے بھر پور مناظر بھی برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کا ناپختہ ذہن ذرایع ابلاغ کے ان مناظر کی اپنی بساط کے مطابق کوئی توضیح نکال لیتا ہے اور پھر اس کو لے کر ان کے دل میں بہت زیادہ خوف پیدا ہو جاتا ہے۔



اگر آپ کا بچہ ہکلاہٹ کا شکار ہے، تو سب سے پہلے کسی اچھے اسپیچ تھراپسٹ اور سائیکاٹرسٹ سے رجوع کریں، تاکہ سائکاٹرسٹ کاؤنسلنگ کی چند نشستوں میں بچے کے ذہن میں موجود ڈر اور خوف کو کم کر سکے۔ ساتھ ہی اگر اس ہکلانے کی وجہ سے اس کے اند کوئی اور احساس کمتری پیدا ہو گیا ہے، تو اس سے بھی اسے نکالا جائے۔ اسپیچ تھراپسٹ اسے جملو ں کی رواں ادائیگی میں مدد دے گا۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ ایسے بچوں کو خوف سے آزاد ماحول دیں اس کی بات کاٹیں اور نہ ہی اس کے بولنے کے طریقے پر ٹوکیں۔ اسے آرام سے بات مکمل کرنے دیں۔ اس کی بات کو پوری توجہ سے سنیں اور اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لیے بہت اہم ہے اورآپ اس کی باتوں میں نہایت دل چسپی رکھتے ہیں۔ اپنے تاثرات سے اسے بالکل یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ ٹھیک نہیں بول پا رہا یا یہ کہ اسے دوبارہ یہ جملے دُہرانے چاہئیں۔ آپ خود بھی اس سے ٹھہر ٹھہر کر اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کریں۔ ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے بچے کو اور خود اپنے آپ کو کسی بھی طرح کی ذہنی اذیت دیے بغیر زبان کی ہکلاہٹ سے نجات دلا سکتے ہیں۔
Load Next Story