غریب عوام کی خود فریبی

اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہزاروں غریب جوگرم کپڑوں سے محروم ہیں وہ بھلا سردیوں کو گرمی میں کیسے بدل دیں

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ISLAMABAD:
روایتی سردی زوروں پر ہے لیکن مہنگائی کی گرمی نے روایتی سردیوں کو مات کردیا ہے اور عوام مجبوراً کمبلوں اور لحافوں میں دبک رہے ہیں، جس کے پاس اوڑھنے کو لحاف نہ ہو، بے چارہ وہ سردی میں مرے نہیں تو کیا کرے۔

سردی آج کل جوبن پر ہے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے ہر موسم میں اپنے لیے سہولتیں حاصل کرنے والوں کے لیے سردی کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ہماری ایلیٹ اس قدر آسودہ حال ہے کہ وہ سردیوں کو گرمیوں میں بدل لیتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہزاروں غریب جوگرم کپڑوں سے محروم ہیں وہ بھلا سردیوں کو گرمی میں کیسے بدل دیں۔ ہم نے ایک حوالہ دیا تھا کہ گرمی اتنی ہو رہی ہے کہ گرم کپڑے نکالنے کی ضرورت نہیں لیکن سردیاں اتنی بھی کم نہیں کہ گرم کپڑے نکال لیے جائیں یہاں اس بدقسمتی کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ لاکھوں غریب عام طور پر سردیاں ٹھنڈے کپڑوں کے بغیر گزار دیتے ہیں۔

امیر طبقات میں غریب عوام کو ذہنی طور پر مطمئن کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا بھی ہر برس کر رکھا ہے کہ اس بار سردیاں بہت کم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ کب تک عوام آگے سلگتے رہیں گے؟ کیا غریب عوام کی قسمت میں گرم کپڑے نہیں ہیں؟ دولت مند طبقات نے عوام کو ہر موسم میں احساس محرومی سے بچانے کے لیے موسم کے مطابق ایسا پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ غریب ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔

بلاشبہ سردیاں ہو رہی ہیں لیکن اتنی سردی تو عوام کے جھوٹے پروپیگنڈے سے ہی آجاتی ہے کہ سردی کم ہے ہماری عوام بے چاری زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ اس پروپیگنڈے میں گزار دیتی ہے جو ایلیٹ عوام کی نفسیات سے کھیلنے کے لیے تشکیل دیتی ہے۔


ضرورت اس بات کی ہے کہ موسم آشنا لوگ حقائق کو عوام کے سامنے رکھیں اور سردی گرمی اور غربت کی حقیقتوں کو بے نقاب کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل سردی کا زور ہے اور عام آدمی بھی باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے ، ایسے موقعوں پر ایلیٹ اپنے جھوٹ کی گرمی سے عوام کی سردی ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور بڑی حد تک کامیاب رہتی ہے کیونکہ غریب کے پاس دولت مندوں کے پروپیگنڈے پر یقین کرنا ناگزیر ہے۔

اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں کیونکہ عوام کے لیے آدھی زندگی ان مفروضوں پر یقین کرنا ضروری ہے ، جو ایلیٹ کی طرف سے گھڑے جاتے ہیں ، بلاشبہ سردی ہے اور کسی حد تک ناقابل برداشت بھی ہے لیکن ایلیٹ نے سردیوں کا جو انتظام کر رکھا ہے وہ اتنی موثر ہوتی ہیں کہ سردیوں کی شدت ان نفسیاتی حربوں سے کم ہو جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ تسلیوں کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا عوام کو ایلیٹ کے جھوٹے اور نفسیاتی پروپیگنڈوں سے باہر آنا پڑے گا اور حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا جو بہت تلخ ہوتے ہیں اسے گرم نہیں کیا جاسکتا ، سردیوں سے بچنے کے لیے تصورات کا سہارا نہیں لیا جاسکتا غریب عوام سردی میں بیٹھ کر گرم نہیں ہو سکتے، اس کے لیے ان لوگوں سے وہ گرم کپڑے حاصل کرنا پڑیں گے جو ایلیٹ کے قبضے میں چلے آ رہے ہیں۔

اب بات تسلیوں کی نہیں ہے سردی کو ختم کرنے کے لیے گرمی کو لانا پڑے گا اور گرمی کو لانے کے لیے نوجوانوں کو اس ظلم کے خلاف بیدار کرنا پڑے گا جو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے غریب عوام پر ڈھا رکھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا غریب عوام گرم کپڑوں سے ہمیشہ کے لیے محروم رہیں گے یا ان قابضوں سے گرم کپڑے چھین لیں گے ، جن کے حقیقی مالک غریب ہیں، اب یہ مرحلہ آگیا ہے کہ غریب طبقات کو حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Load Next Story