گلاس توڑا بارہ آنے
احتساب کی اس ناکامی نے لفظ احتساب پر سے عوام کا اعتماد اور یقین بھی مجروح کر دیا ہے
شہزاد اکبر صاحب کی میاں نواز شریف کے خلاف ساڑھے تین سالہ جدوجہد ہو یا جناب وزیراعظم صاحب کی 22سالہ کرپشن کے خلاف سیاسی جدوجہد دونوں کا نتیجہ اور رزلٹ ایک جیسا ہی رہا ہے یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔
اس ساری جدوجہد میں ہمارے احتسابی اداروں کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو گلاس توڑنے کا نقصان بارہ آنے سے بڑھ کر اربوں ڈالروں میں جا پہنچا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں وصولی کچھ بھی نہیں جن 800 ارب روپوں کی وصولی کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہ کسی کرپٹ سیاستدانوں سے حاصل نہیں کیے گئے بلکہ معاشرے کے دوسرے چور لوگوں سے وصول کیے گئے ہیں۔
شہزاد اکبر ساڑھے تین سال تک درجنوں پریس کانفرنسیں کرکے وزیراعظم اور قوم کو یقین دلاتے رہے کہ اُن کی کوششوں کے نتیجے میں اس ملک کا لوٹا ہوا پیسہ بہت جلد ملکی خزانوں میں آنے والا ہے ، جب کہ حقائق یہ تھے کہ حکومت پاکستان کو غیر ملکی عدالتوں میں نہ صرف سبکی اُٹھانی پڑی بلکہ اُلٹا اربوں ڈالروں میں براڈ شیٹ کمپنی کو جرمانے بھی ادا کرنے پڑے، وہ جن کاغذوں کو ہواؤں میں لہرا کے شریف خاندان کی کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت ظاہر کیا کرتے تھے اُن میں سے ایک کو بھی حق و صداقت اور عدل و انصاف کے عالمی معیار کی چھلنیوں سے گذارا نہیں جاسکا۔
احتساب کا بیانیہ مکمل طور پر پٹ چکا ہے، جس کرپشن کے خاتمے کے لیے عوام نے اس حکومت کو عنان اقتدار سونپا تھا ، وہ کرپشن کم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی بڑھ چکی ہے۔ ہم چاہے کتنی ہی تردیدیں کرتے رہیں لیکن دنیا ہمیں کرپٹ ممالک کی فہرست میں 124 نمبر سے اب 140 پرلے آئی ہے۔
ایسے میں وزیراعظم صاحب کا یہ بیان کہ کرپشن تو ہم نے اپنے پہلے نوے دنوں میں ہی ختم کردی تھی کسی انہونے اور ناقابل فہم مذاق سے کم نہیں ہے ، اگر واقعی ایسا ہوتا تو انٹر نیشنل ٹرانسپیرنسی کو بھلا کیونکر اپنی سالانہ رپورٹ میں ہمیں 140 نمبر پر دکھانے کی ضرورت ہوتی۔ ساری قوم کو معلوم ہے کہ کرپشن ان ساڑھے تین سالوں میں کم نہیں ہوئی ہے بلکہ مزید بڑھی ہی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ حکومت اسے مافیاز کے پلڑے میں ڈال کر خود کو اس سے ماورا اور مبرا قرار دیدے۔ یہ چینی ، آٹے ، کھاد اور میڈیسن کے بحرانوں کے تمام ذمے داران حکومت کی صفوں اور جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن کیا مجال کے کسی ایک کے خلاف بھی کوئی تادیبی کارروائی ممکن بنائی گئی ہو۔ کہنے کو اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر بحرانوں کے ذمے داران کا پتا لگانے کے لیے تحقیقات ضرورکی گئیں اوراُن تحقیقات کا کریڈٹ بھی لیا گیا لیکن سزا کسی کو نہیں دی گئی۔
میاں نواز شریف کو باہر بھجوا کر بھی یہ کہنا کہ کسی کو NRO نہیں ملے گا ، زیب نہیں دیتا ، وہ اگر اپنی ان مجبوریوں ہی کا اعتراف کرلیں جو انھیں اس وقت درپیش تھیں تو بھی شاید عوام اُن پر یقین کرلیں گے ، مگر NRO دینا بھی اور اس سے انکار بھی کرنا بلکہ رٹ لگائے رکھنا اپنے آپ کو تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم صاحب کا یہ کہنا کہ میں سیاست میں آیا ہی اس لیے تھا کہ کرپٹ لوگوں کا خاتمہ کروں۔ میری ساری جدوجہد ہی ان جیسے لوگوں کے خلاف ہے، میں کرپشن کے خلاف جہاد کر رہا ہوں۔
مجھے کیا ضرورت تھی کہ سیاست میں آتا۔ میں تو اچھی بھلی آرام و سکون کی زندگی گذار رہا تھا۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ میں ان جیسے گندے لوگوں سے ہاتھ ملاؤں۔ بہت خوب ۔ سننے اور سنانے کو یہ بیانیہ بہت اچھا اور دلفریب لگتا ہے لیکن عملاً اور حقیقتاً ایسا ہرگز نہیں ہے۔
2011 سے اچانک حالات بدل گئے ۔ اس سے پہلے وہ تمام کرپٹ لوگوں کے ساتھ ملکر میٹنگز بھی کرتے رہے اور پریس کانفرنسیں بھی کرتے رہے۔ مشرف حکومت کے خلاف ساری اپوزیشن نے ملکر جب 2007 میں لندن میں APCبلائی تھی تو وہ اِن ہی کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ ملکر لائحہ عمل ترتیب دے رہے تھے۔
2011 تک خان صاحب نے صاحب کردار لوگوں کو پارٹی کا اثاثہ بنایا ، لیکن جب سیاسی میدان میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہ ملی تو وہ مجبوراً اُسی پاکستانی سیاست کا حصہ بن گئے جس کے خلاف وہ جدوجہد کرنے نکلے تھے۔ الیکٹیبلز کو یہ کہہ کر گلے لگالیا کہ اقتدار کا حصول ان کے بغیر ناممکن ہے ۔
الیکشن میں کامیابی کے لیے الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے کو سائنس کہہ کر پکارا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرپٹ لوگوں کو پارٹی میں سمونا شروع کردیا، جس نے اپنی پارٹی سے غداری کی وہ پی ٹی آئی میں ویلکم کیا جانے لگا۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو اردگرد ایسے ہی لوگ تحریک انصاف میں موجود ہیں اور جن کے ہاتھ بھی ماضی کے الزامات سے رنگے ہوئے ہیں۔
مگر کیا وجہ ہے کہ اُن کے خلاف کوئی بھی کیس NAB نہیں بھیجا جاتا۔ وہ آج اس حکومت میں نیک اور پارسا بن کر تمام مراعات اور سہولیات سے لطف اندوز بھی ہورہے ہیں اور موقعہ ملتے ہی کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے لیے پر بھی تول رہے ہیں۔ وقت ایک سا نہیںرہتا۔ ہمہ وقت ساتھ نظر آنے والے یہ لوگ کل برے وقت میں کسی اور سے عہد وفا نبھا رہے ہونگے ۔
ایسا لگتا ہے کہ وقت آنے پر سب کچھ بدل جائے گا لیکن قائم رہے گا تو یہ بیانیہ کہ میں کسی کو NRO نہیں دونگا۔ اسی بیانیہ پر وہ تین چار سال سے حکومت کررہے ہیں اور اگلے ڈیڑھ سال بھی کرتے رہیں گے۔ مسلم لیگ نون کے تمام کرتا دھرتاؤں کو گرفتار کرکے اور نیب زدہ کرکے وہ اپنے اس بیانیہ کی تسکین کا سامان تو پیدا کر لیتے ہیں لیکن اُن میں سے کسی ایک کو بھی ابھی تک قرار واقعی سزا نہیں دے پائے ہیں۔
احتساب کی اس ناکامی نے لفظ احتساب پر سے عوام کا اعتماد اور یقین بھی مجروح کر دیا ہے، اس دور کے بعد اگر کسی اور حکمراں نے اپنے پرانوں کے خلاف احتساب کرنا بھی چاہا تو شاید نہیں کر پائے گا۔ عوام اُسے بھی ایک جھوٹ اور انتقام سمجھ کر جھٹلا رہے ہونگے۔
اس ساری جدوجہد میں ہمارے احتسابی اداروں کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو گلاس توڑنے کا نقصان بارہ آنے سے بڑھ کر اربوں ڈالروں میں جا پہنچا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں وصولی کچھ بھی نہیں جن 800 ارب روپوں کی وصولی کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہ کسی کرپٹ سیاستدانوں سے حاصل نہیں کیے گئے بلکہ معاشرے کے دوسرے چور لوگوں سے وصول کیے گئے ہیں۔
شہزاد اکبر ساڑھے تین سال تک درجنوں پریس کانفرنسیں کرکے وزیراعظم اور قوم کو یقین دلاتے رہے کہ اُن کی کوششوں کے نتیجے میں اس ملک کا لوٹا ہوا پیسہ بہت جلد ملکی خزانوں میں آنے والا ہے ، جب کہ حقائق یہ تھے کہ حکومت پاکستان کو غیر ملکی عدالتوں میں نہ صرف سبکی اُٹھانی پڑی بلکہ اُلٹا اربوں ڈالروں میں براڈ شیٹ کمپنی کو جرمانے بھی ادا کرنے پڑے، وہ جن کاغذوں کو ہواؤں میں لہرا کے شریف خاندان کی کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت ظاہر کیا کرتے تھے اُن میں سے ایک کو بھی حق و صداقت اور عدل و انصاف کے عالمی معیار کی چھلنیوں سے گذارا نہیں جاسکا۔
احتساب کا بیانیہ مکمل طور پر پٹ چکا ہے، جس کرپشن کے خاتمے کے لیے عوام نے اس حکومت کو عنان اقتدار سونپا تھا ، وہ کرپشن کم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی بڑھ چکی ہے۔ ہم چاہے کتنی ہی تردیدیں کرتے رہیں لیکن دنیا ہمیں کرپٹ ممالک کی فہرست میں 124 نمبر سے اب 140 پرلے آئی ہے۔
ایسے میں وزیراعظم صاحب کا یہ بیان کہ کرپشن تو ہم نے اپنے پہلے نوے دنوں میں ہی ختم کردی تھی کسی انہونے اور ناقابل فہم مذاق سے کم نہیں ہے ، اگر واقعی ایسا ہوتا تو انٹر نیشنل ٹرانسپیرنسی کو بھلا کیونکر اپنی سالانہ رپورٹ میں ہمیں 140 نمبر پر دکھانے کی ضرورت ہوتی۔ ساری قوم کو معلوم ہے کہ کرپشن ان ساڑھے تین سالوں میں کم نہیں ہوئی ہے بلکہ مزید بڑھی ہی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ حکومت اسے مافیاز کے پلڑے میں ڈال کر خود کو اس سے ماورا اور مبرا قرار دیدے۔ یہ چینی ، آٹے ، کھاد اور میڈیسن کے بحرانوں کے تمام ذمے داران حکومت کی صفوں اور جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن کیا مجال کے کسی ایک کے خلاف بھی کوئی تادیبی کارروائی ممکن بنائی گئی ہو۔ کہنے کو اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر بحرانوں کے ذمے داران کا پتا لگانے کے لیے تحقیقات ضرورکی گئیں اوراُن تحقیقات کا کریڈٹ بھی لیا گیا لیکن سزا کسی کو نہیں دی گئی۔
میاں نواز شریف کو باہر بھجوا کر بھی یہ کہنا کہ کسی کو NRO نہیں ملے گا ، زیب نہیں دیتا ، وہ اگر اپنی ان مجبوریوں ہی کا اعتراف کرلیں جو انھیں اس وقت درپیش تھیں تو بھی شاید عوام اُن پر یقین کرلیں گے ، مگر NRO دینا بھی اور اس سے انکار بھی کرنا بلکہ رٹ لگائے رکھنا اپنے آپ کو تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم صاحب کا یہ کہنا کہ میں سیاست میں آیا ہی اس لیے تھا کہ کرپٹ لوگوں کا خاتمہ کروں۔ میری ساری جدوجہد ہی ان جیسے لوگوں کے خلاف ہے، میں کرپشن کے خلاف جہاد کر رہا ہوں۔
مجھے کیا ضرورت تھی کہ سیاست میں آتا۔ میں تو اچھی بھلی آرام و سکون کی زندگی گذار رہا تھا۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ میں ان جیسے گندے لوگوں سے ہاتھ ملاؤں۔ بہت خوب ۔ سننے اور سنانے کو یہ بیانیہ بہت اچھا اور دلفریب لگتا ہے لیکن عملاً اور حقیقتاً ایسا ہرگز نہیں ہے۔
2011 سے اچانک حالات بدل گئے ۔ اس سے پہلے وہ تمام کرپٹ لوگوں کے ساتھ ملکر میٹنگز بھی کرتے رہے اور پریس کانفرنسیں بھی کرتے رہے۔ مشرف حکومت کے خلاف ساری اپوزیشن نے ملکر جب 2007 میں لندن میں APCبلائی تھی تو وہ اِن ہی کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ ملکر لائحہ عمل ترتیب دے رہے تھے۔
2011 تک خان صاحب نے صاحب کردار لوگوں کو پارٹی کا اثاثہ بنایا ، لیکن جب سیاسی میدان میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہ ملی تو وہ مجبوراً اُسی پاکستانی سیاست کا حصہ بن گئے جس کے خلاف وہ جدوجہد کرنے نکلے تھے۔ الیکٹیبلز کو یہ کہہ کر گلے لگالیا کہ اقتدار کا حصول ان کے بغیر ناممکن ہے ۔
الیکشن میں کامیابی کے لیے الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے کو سائنس کہہ کر پکارا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرپٹ لوگوں کو پارٹی میں سمونا شروع کردیا، جس نے اپنی پارٹی سے غداری کی وہ پی ٹی آئی میں ویلکم کیا جانے لگا۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو اردگرد ایسے ہی لوگ تحریک انصاف میں موجود ہیں اور جن کے ہاتھ بھی ماضی کے الزامات سے رنگے ہوئے ہیں۔
مگر کیا وجہ ہے کہ اُن کے خلاف کوئی بھی کیس NAB نہیں بھیجا جاتا۔ وہ آج اس حکومت میں نیک اور پارسا بن کر تمام مراعات اور سہولیات سے لطف اندوز بھی ہورہے ہیں اور موقعہ ملتے ہی کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے لیے پر بھی تول رہے ہیں۔ وقت ایک سا نہیںرہتا۔ ہمہ وقت ساتھ نظر آنے والے یہ لوگ کل برے وقت میں کسی اور سے عہد وفا نبھا رہے ہونگے ۔
ایسا لگتا ہے کہ وقت آنے پر سب کچھ بدل جائے گا لیکن قائم رہے گا تو یہ بیانیہ کہ میں کسی کو NRO نہیں دونگا۔ اسی بیانیہ پر وہ تین چار سال سے حکومت کررہے ہیں اور اگلے ڈیڑھ سال بھی کرتے رہیں گے۔ مسلم لیگ نون کے تمام کرتا دھرتاؤں کو گرفتار کرکے اور نیب زدہ کرکے وہ اپنے اس بیانیہ کی تسکین کا سامان تو پیدا کر لیتے ہیں لیکن اُن میں سے کسی ایک کو بھی ابھی تک قرار واقعی سزا نہیں دے پائے ہیں۔
احتساب کی اس ناکامی نے لفظ احتساب پر سے عوام کا اعتماد اور یقین بھی مجروح کر دیا ہے، اس دور کے بعد اگر کسی اور حکمراں نے اپنے پرانوں کے خلاف احتساب کرنا بھی چاہا تو شاید نہیں کر پائے گا۔ عوام اُسے بھی ایک جھوٹ اور انتقام سمجھ کر جھٹلا رہے ہونگے۔