رش بڑھ گیا مسافر گرین بس میں سفر کرنا پسند کرنے لگے
بس میں بیٹھنے کیلیے 40سیٹیں اور کھڑے ہوکر سفر کرنے کیلیے 100مسافروں کی گنجائش ہے، سینئر منیجرعبدالعزیز
NEW DELHI:
وفاقی حکومت کے زیر انتظام پہلے ماس ٹرانزٹ سسٹم گرین لائن میں شہریوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے گزشتہ سال 25دسمبرکو کراچی میں گرین لائن کا فیز ون مکمل کرکے اسے سرجانی ٹاؤن سے نمائش چورنگی تک آپریشنل کردیا تھاورکنگ ڈے میں مصروف اوقات میں لمبی قطاریں لگ رہی ہیں جبکہ چھٹی والے دنوں میں بھی بے پنا رش دیکھنے میں آرہا ہے۔
مسافروں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹاور تک شٹل بس سروس شروع کرنی چاہیے اور اپنے کرایہ کا نظام بہتر کرنا چاہیے، اس طرح یہ سروس نہ صرف مزید کامیابی حاصل کریگی بلکہ مسافروں کو بھی سفر میں آسانی ہوگی۔
گرین لائن بس سروس کے سینئر منیجر عبدالعزیزکا کہنا ہے کہ ورکنگ ڈے میں مصروف اوقات صبح 8بجے تا صبح 10بجے اور شام 5بجے تا رات 8بجے کے دوران مسافروں کی قطاریں لگ رہی ہیں، مسافر گرین لائن بس عملے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں، خواتین اور مرد حضرات کی الگ الگ منظم طریقے سے لائنیں لگتی ہیں، اب تک ورکنگ ڈے میں مسافروں کی تعداد 30ہزار سے 40 ہزار ہے جبکہ چھٹی والے دن یہ تعداد مزید بڑھ کر 50ہزار تک شمار کی گئی ہے، بس میں بیٹھنے کے لیے 40سیٹیں اور کھڑے ہوکر سفر کرنے کے لیے 100مسافروں کی گنجائش ہے، مجموعی طور پر بیک وقت 140مسافر کرسکتے ہیں۔
ایکسپریس سروے کے مطابق مصروف اوقات میں مسافر لمبی قطاریں لگا کر گرین بسوں میں سفر کرنا پسند کررہے ہیں، شہری پرانی کھٹارا پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی موٹر بائیک سروس کو ترک کرکے اس میں سفر کررہے ہیں۔
سینئر منیجرعبدالعزیز کا مزید کہنا تھاکہ گرین لائن بس سروس جدید ٹیکنالوجی انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم(آئی ٹی ایس)کے تحت کام کررہی ہے، اس میں کرایہ کے اسٹیج کارڈ سسٹم پر لاگو کیے جاسکتے ہیں، پیپرٹکٹ پر نہیں کیے جاسکتے، پیپر ٹکٹ پر چیٹنگ کے چانس ہوتے ہیں، پلاسٹک کارڈ گرین لائن کے آئی ٹی ایس سے منسلک ہوتا ہے، انٹری اور اخراج کے گیٹ پر اسے مشین سے گذارا جاتا ہے تو ساری تفصیلات کمپیوٹرائزڈ سسٹم پر آجاتی ہے اور اس میں کسی قسم کا غلط استعمال نہیں ہوسکتا۔
ہر اسٹیشن پر 5روپے اضافے کیساتھ کرایہ بڑھ جاتا ہے
مسافروں کا کہنا ہے کہ گرین لائن بعض امور میں بہتر سروس دے رہی ہے لیکن چند امور میں معاملات خراب ہیں، نئی سروس ہے، ابھی شروع ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا لیکن ابھی سے لفٹس اور ایسکلیٹر خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
بزرگ مسافر محمد عباس نے کہا کہ گرین لائن کا کرایہ کم سے کم 15روپے اور زیادہ سے زیادہ 55روپے ہے، ہر اسٹیشن پر 5روپے اضافے کے ساتھ کرایہ بڑھ جاتا ہے، کرایہ کی مد میں گرین لائن مینجمنٹ دوطریقے سے کرایہ وصول کررہی ہے۔
پیپر ٹکٹ اور کارڈ سسٹم، کارڈ 100روپے کا خریدنا پڑتا ہے جس میں بیلنس لوڈ کرانا پڑتاہے، پیپر ٹکٹ پر یکساں 55روپے مقرر کیاگیا ہے، مسافر ایک بس اسٹیشن کا سفر کرے یا پورے 21کلو میٹر کا سفر کرے اسے پورا کرایہ 55روپے دینا پڑتا ہے، البتہ کارڈ سسٹم پر حکومت کا منظورکردہ کرایہ 15، 20، 25اور زیادہ سے زیادہ 55روپے وصول کیاجارہا ہے، حکومت نے جو سہولت کارڈ پر رکھی ہے وہ پیپرٹکٹ پر بھی رکھے۔
وفاقی حکومت بس آپریشن کی ذمے داری3سال تک نبھائی گی
سینئر منیجرعبدالعزیز نے کہا کہ وفاقی حکومت بس آپریشن کی ذمے داری3سال تک نبھائی گی اس کے بعد یہ انتظام بسوں سمیت سندھ حکومت کے حوالے کردیا جائے گا، کیونکہ اصل کسٹوڈین سندھ حکومت ہے جو مستقل بنیادوں پر یہاں بسیں چلائے گی، کچھ اسٹیشنوں کی لفٹس اور ایسکلیٹر خراب ہوئے ہیں انھیں جلد ہی مرمت کے درست کردیا جائے گا۔
گرین لائن میں سفرکرنے کا تجربہ اچھا رہا،محمد علی
مسافر حاجی محمد علی نے کہاکہ ان کی اپنی گاڑی ہے، آج وہ اسے ایک جگہ پارک کرکے گرین لائن بس سروس کو ٹیسٹ کرنے کے لیے سوار ہوئے ہیں،گرین لائن میں سفرکرنے کا تجربہ اچھا رہا، اچھی مینجمنٹ ہے، شہریوں کو چاہیے کہ اس سروس کی حفاظت کریں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ مستقل بنیادوں پر یہ اچھی مینجمنٹ قائم رکھے ۔
گرین لائن بس منصوبے میں 80بسیں کوریڈر پر چل رہی ہیں
ایکسپریس کے سروے کے مطابق گرین لائن بس سروس کے 22اسٹیشن ہیں ورکنگ ڈے کے مصروف اوقات میں ان اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں لگ رہی ہیں اور لوگ ان قطارروں میں آدھا گھنٹہ انتظار کرکے بسوں میں انٹر ہوتے ہیں، ٹوٹل 80بسیں اس کوریڈر پر چل رہی ہیں۔
بس ٹرمینل سرجانی اور آخری اسٹیشن نمائش انڈر پاس پر بسوں کی آمد میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوتی لیکن لمبی قطاروں کی وجہ سے مسافروں کو بیٹھنے میں کچھ وقت لگتا ہے جب بسیں اندر سے بھرجاتی ہیں پھر فورآ ہی دوسری بس آجاتی ہیِ اسٹینڈ بائی میں کئی بسیں پہلے ہی کھڑی رہتی ہیں دیگر اسٹیشنوں پر 2سے 5منٹ کے وقفے سے بسیں آتی ہیں، مختلف اسٹیشنوں پر کچھ لفٹس اورایسکلیٹر خراب اور بند پڑے تھے۔
گرین لائن بس سستی اوراچھی سروس ہے،مسافراحمد
نمائش بس اسٹاپ پر قطار میں کھڑے ایک مسافر محمد احمد نے بتایا کہ وہ ٹاور سے پبلک ٹرانسپورٹ خان کوچ میں بیٹھ کر نمائش چورنگی پرآئے ہیں اور اب نمائش چورنگی سے گرین لائن میں بیٹھ کر نارتھ کراچی جائیں گے، خان کوچ پرانی بس ہے، گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے بلکہ مصروف اوقات میں تو بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے، جگہ جگہ رکتی ہوئی جاتی ہے، کرایہ بھی 60روپے لیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گرین لائن بس سستی، آرام دے اور تیزرفتار سروس ہے، کرایہ 55روپے وصول کیا جارہا ہے جو دیگر ٹرانسپورٹ سے کم ہے۔
انھوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹاور سے نمائش چورنگی تک شٹل بس سروس شروع کی جائے کیونکہ مسافر ٹاور سے نمائش چورنگی آتے ہیں تودیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے کنڈیکٹران سے 25روپے وصول کررہے ہیں جو مسافروں کو مہنگا پڑ رہا ہے، اگروفاقی حکومت ٹاور سے نمائش چورنگی کم سے کم کرایہ 10روپے پر بس شٹل سروس شروع کردے تو مسافروں کے لیے نہایت بہتر ہوجائے گا۔
وفاقی حکومت کے زیر انتظام پہلے ماس ٹرانزٹ سسٹم گرین لائن میں شہریوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے گزشتہ سال 25دسمبرکو کراچی میں گرین لائن کا فیز ون مکمل کرکے اسے سرجانی ٹاؤن سے نمائش چورنگی تک آپریشنل کردیا تھاورکنگ ڈے میں مصروف اوقات میں لمبی قطاریں لگ رہی ہیں جبکہ چھٹی والے دنوں میں بھی بے پنا رش دیکھنے میں آرہا ہے۔
مسافروں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹاور تک شٹل بس سروس شروع کرنی چاہیے اور اپنے کرایہ کا نظام بہتر کرنا چاہیے، اس طرح یہ سروس نہ صرف مزید کامیابی حاصل کریگی بلکہ مسافروں کو بھی سفر میں آسانی ہوگی۔
گرین لائن بس سروس کے سینئر منیجر عبدالعزیزکا کہنا ہے کہ ورکنگ ڈے میں مصروف اوقات صبح 8بجے تا صبح 10بجے اور شام 5بجے تا رات 8بجے کے دوران مسافروں کی قطاریں لگ رہی ہیں، مسافر گرین لائن بس عملے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں، خواتین اور مرد حضرات کی الگ الگ منظم طریقے سے لائنیں لگتی ہیں، اب تک ورکنگ ڈے میں مسافروں کی تعداد 30ہزار سے 40 ہزار ہے جبکہ چھٹی والے دن یہ تعداد مزید بڑھ کر 50ہزار تک شمار کی گئی ہے، بس میں بیٹھنے کے لیے 40سیٹیں اور کھڑے ہوکر سفر کرنے کے لیے 100مسافروں کی گنجائش ہے، مجموعی طور پر بیک وقت 140مسافر کرسکتے ہیں۔
ایکسپریس سروے کے مطابق مصروف اوقات میں مسافر لمبی قطاریں لگا کر گرین بسوں میں سفر کرنا پسند کررہے ہیں، شہری پرانی کھٹارا پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی موٹر بائیک سروس کو ترک کرکے اس میں سفر کررہے ہیں۔
سینئر منیجرعبدالعزیز کا مزید کہنا تھاکہ گرین لائن بس سروس جدید ٹیکنالوجی انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم(آئی ٹی ایس)کے تحت کام کررہی ہے، اس میں کرایہ کے اسٹیج کارڈ سسٹم پر لاگو کیے جاسکتے ہیں، پیپرٹکٹ پر نہیں کیے جاسکتے، پیپر ٹکٹ پر چیٹنگ کے چانس ہوتے ہیں، پلاسٹک کارڈ گرین لائن کے آئی ٹی ایس سے منسلک ہوتا ہے، انٹری اور اخراج کے گیٹ پر اسے مشین سے گذارا جاتا ہے تو ساری تفصیلات کمپیوٹرائزڈ سسٹم پر آجاتی ہے اور اس میں کسی قسم کا غلط استعمال نہیں ہوسکتا۔
ہر اسٹیشن پر 5روپے اضافے کیساتھ کرایہ بڑھ جاتا ہے
مسافروں کا کہنا ہے کہ گرین لائن بعض امور میں بہتر سروس دے رہی ہے لیکن چند امور میں معاملات خراب ہیں، نئی سروس ہے، ابھی شروع ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا لیکن ابھی سے لفٹس اور ایسکلیٹر خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
بزرگ مسافر محمد عباس نے کہا کہ گرین لائن کا کرایہ کم سے کم 15روپے اور زیادہ سے زیادہ 55روپے ہے، ہر اسٹیشن پر 5روپے اضافے کے ساتھ کرایہ بڑھ جاتا ہے، کرایہ کی مد میں گرین لائن مینجمنٹ دوطریقے سے کرایہ وصول کررہی ہے۔
پیپر ٹکٹ اور کارڈ سسٹم، کارڈ 100روپے کا خریدنا پڑتا ہے جس میں بیلنس لوڈ کرانا پڑتاہے، پیپر ٹکٹ پر یکساں 55روپے مقرر کیاگیا ہے، مسافر ایک بس اسٹیشن کا سفر کرے یا پورے 21کلو میٹر کا سفر کرے اسے پورا کرایہ 55روپے دینا پڑتا ہے، البتہ کارڈ سسٹم پر حکومت کا منظورکردہ کرایہ 15، 20، 25اور زیادہ سے زیادہ 55روپے وصول کیاجارہا ہے، حکومت نے جو سہولت کارڈ پر رکھی ہے وہ پیپرٹکٹ پر بھی رکھے۔
وفاقی حکومت بس آپریشن کی ذمے داری3سال تک نبھائی گی
سینئر منیجرعبدالعزیز نے کہا کہ وفاقی حکومت بس آپریشن کی ذمے داری3سال تک نبھائی گی اس کے بعد یہ انتظام بسوں سمیت سندھ حکومت کے حوالے کردیا جائے گا، کیونکہ اصل کسٹوڈین سندھ حکومت ہے جو مستقل بنیادوں پر یہاں بسیں چلائے گی، کچھ اسٹیشنوں کی لفٹس اور ایسکلیٹر خراب ہوئے ہیں انھیں جلد ہی مرمت کے درست کردیا جائے گا۔
گرین لائن میں سفرکرنے کا تجربہ اچھا رہا،محمد علی
مسافر حاجی محمد علی نے کہاکہ ان کی اپنی گاڑی ہے، آج وہ اسے ایک جگہ پارک کرکے گرین لائن بس سروس کو ٹیسٹ کرنے کے لیے سوار ہوئے ہیں،گرین لائن میں سفرکرنے کا تجربہ اچھا رہا، اچھی مینجمنٹ ہے، شہریوں کو چاہیے کہ اس سروس کی حفاظت کریں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ مستقل بنیادوں پر یہ اچھی مینجمنٹ قائم رکھے ۔
گرین لائن بس منصوبے میں 80بسیں کوریڈر پر چل رہی ہیں
ایکسپریس کے سروے کے مطابق گرین لائن بس سروس کے 22اسٹیشن ہیں ورکنگ ڈے کے مصروف اوقات میں ان اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں لگ رہی ہیں اور لوگ ان قطارروں میں آدھا گھنٹہ انتظار کرکے بسوں میں انٹر ہوتے ہیں، ٹوٹل 80بسیں اس کوریڈر پر چل رہی ہیں۔
بس ٹرمینل سرجانی اور آخری اسٹیشن نمائش انڈر پاس پر بسوں کی آمد میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوتی لیکن لمبی قطاروں کی وجہ سے مسافروں کو بیٹھنے میں کچھ وقت لگتا ہے جب بسیں اندر سے بھرجاتی ہیں پھر فورآ ہی دوسری بس آجاتی ہیِ اسٹینڈ بائی میں کئی بسیں پہلے ہی کھڑی رہتی ہیں دیگر اسٹیشنوں پر 2سے 5منٹ کے وقفے سے بسیں آتی ہیں، مختلف اسٹیشنوں پر کچھ لفٹس اورایسکلیٹر خراب اور بند پڑے تھے۔
گرین لائن بس سستی اوراچھی سروس ہے،مسافراحمد
نمائش بس اسٹاپ پر قطار میں کھڑے ایک مسافر محمد احمد نے بتایا کہ وہ ٹاور سے پبلک ٹرانسپورٹ خان کوچ میں بیٹھ کر نمائش چورنگی پرآئے ہیں اور اب نمائش چورنگی سے گرین لائن میں بیٹھ کر نارتھ کراچی جائیں گے، خان کوچ پرانی بس ہے، گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے بلکہ مصروف اوقات میں تو بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے، جگہ جگہ رکتی ہوئی جاتی ہے، کرایہ بھی 60روپے لیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گرین لائن بس سستی، آرام دے اور تیزرفتار سروس ہے، کرایہ 55روپے وصول کیا جارہا ہے جو دیگر ٹرانسپورٹ سے کم ہے۔
انھوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹاور سے نمائش چورنگی تک شٹل بس سروس شروع کی جائے کیونکہ مسافر ٹاور سے نمائش چورنگی آتے ہیں تودیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے کنڈیکٹران سے 25روپے وصول کررہے ہیں جو مسافروں کو مہنگا پڑ رہا ہے، اگروفاقی حکومت ٹاور سے نمائش چورنگی کم سے کم کرایہ 10روپے پر بس شٹل سروس شروع کردے تو مسافروں کے لیے نہایت بہتر ہوجائے گا۔