دل میں اتر جائیے یا دل سے۔۔۔
سماج میں بے غرض رویوں کے فروغ میں خواتین کا کردار اہم ہے
آج ہم اور ہمارا معاشرہ خود غرضی میں کمال درجے کو پہنچا ہوا ہے۔ اپنا مطلب ہوا، تو ملیں گے، تعلقات قائم رکھیں گے ورنہ گویا کوئی تعلق ہی نہیں!!
آج ہم سب غرض کے ہی رہ گئے ہیں، غرض کے بندھن میں بندھے ہوئے، صرف اپنے کام نکلوا نے کے ماہر، اس کے بعد پہچاننا بھی مشکل۔۔۔اس میں صرف مرد ہی نہیں، خواتین بھی برابر کی شامل ہوچکی ہیں۔
ایسی خواتین بے مقصد کہیں آنا جانا تو درکنار، ایک فون بھی نہیں کرتیں، ورنہ حال چال پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتیں، ایک مرتبہ ہم نے اپنی ایک ملنے والی کو فون کیا، سلام دعا، خیر عافیت کے بعد اب ان کا انداز ایسا تھا کہ جی بتائیے۔۔۔؟ یا اب وہ مقصد بیان فرمائیے، جس کے تحت آپ نے فون کرنے کے لیے وقت نکالا؟ لیکن جب ہم نے یہ حیرت انگیز بیان دیا کہ ''کوئی کام نہیں، صرف بات کرنے کا جی چاہا۔۔'' تو شاید ان کو یہ بات ناقابلِ یقین محسوس ہوئی، شاید یہ کہنا چاہا کہ ارے مطلب کے بغیر آج کل کون کسی کو گھاس ڈالتا ہے۔
آج معاشرہ جتنی خود نمائی کا شکار ہے، ایک دوسرے سے گلے مل مل کر، اور گال سے گال ملا کر جس ان دیکھے پیار کا اظہار، اعلانیہ کیا جاتا ہے، کیا آپ حقیقتاً اسے دل سے محسوس کرتے بھی ہیں؟، یا ہمارے رویے تصنع اور بناوٹ میں لپٹے ہوئے ہیں۔
مصنوعی اور وقتی، دیکھ لیا تو گلے شکوے کر لیے، اس کے بعد یاد بھی نہیں آتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جس مشینی دور میں رہ رہے ہیں، جتنی مصروفیت ہم نے اپنے گرد بڑھا لی ہیں، اتنے ہی ہم وقت کی قید میں جکڑ گئی ہیں۔
ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس دوسرے کی خبر گیری کی فرصت ہی نہیں۔۔۔ فرصت کا لفظ تو شاید خواب و خیال بن گیا ہے۔ ورنہ جس سے بات کرو وہ ایک نہ ختم ہونے والے کاموں کی فہرست سنا دیتا ہے۔
جسے سن کر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے متاثر ہوا جائے یا پھر ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ گھریلو اور بیرون امور کی انجام دہی میں منہمک ہو کر ہم بھول ہی گئے ہیں کہ ہم انسانوں کے بنائے ہوئے معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں، ایک دوسرے کی خیر خواہی، دل جوئی، بھائی چارگی مقدم ہے۔ کاموں میں ہاتھ بٹانے، ایثار و احسان مندی کے مظاہرے سے اچھے جذبات پنپیں گے، تو انسانیت سرخرو ہوگی۔ ہمیں روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ ورنہ آج جس طرح بچے بچے کے ہاتھ میں 'گیجیٹ' آچکے ہیں، یہ ہم سے وہ نازک جذبات چھین رہے ہیں، جس سے انسانیت کی بنیادیں جڑی ہوئی ہیں۔
بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہیں، جس سے دوسروں کا دل جیتا جا سکتا ہے، لیکن شاید یہ ہمارے اردگرد شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسروں کے کام میں مداخلت، نکتہ چینی، اعتراض ہمارے وہ پسندیدہ ہتھیار ہیں۔ جسے ہم ہر وقت اور بروقت استعمال کر نے کے لیے تازہ دم رہتے ہیں۔ درگزر اور اعراض شاید ہماری ڈکشنری میں نہیں، خاموش رہنا اور غلطی کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ جانا ہماری فطرت نہیں، حالاں کہ یہی اچھی صفات آپ کو فرشتہ نہیں، لیکن فرشتہ صفت ضرور بنانے میں مدد دیں گی۔
گھر کے کاموں سے لے کر زندگی کے کسی بھی معاملات میں کسی کی پکار سے قبل اس کی مدد کر دینا۔ چھوٹے بڑے کاموں میں استطاعت کے مطابق ہاتھ بٹانا۔ جانی، مالی، اخلاقی، جو ممکن ہو سکے، آکر کھڑے ہو جانا۔ آپ کا زیادہ نہیں جا تا، اور شاید آپ بھول بھی جائیں، لیکن جس کے ساتھ بھلائی کی گئی ہو، وہ نہیں بھولے گا۔ چند میٹھے بول آپ کی شخصیت کو بھی چار چاند لگا دیتے ہیں، وگرنہ یہ آپ کی شخصیت کو گہنا بھی سکتے ہہں۔
بحثیت مسلم یہ ہماری تعلیمات میں شامل ہے۔ ساری کوشش اپنے اخلاق اور سلوک پر کرنی ہے۔ اسی کو توجہ و توانائی کی ضرورت ہے۔یہی سینکڑوں میں یاد رکھواتا ہے۔
ہم خواتین کو اپنی نسلوں تک یہ بات پہنچانی چاہیے، لیکن ہم تو اپنی اس پہچان اور شناخت کو کھو رہے ہیں۔ ہم کیوں اپنی ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھ رہے ہیں۔ یہ تو وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں، جو خوب صورت معاشرے کی ضامن ہیں۔ اس لیے لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن سیکھیے۔ آپس کے اختلافات بھلا کر تعلقات کو مضبوط کیجیے۔ نظروں سے گرنے اور دل سے اترنے میں بہت کم وقت صرف ہوتا ہے۔
آپ کے چند جملے کئی سالوں کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اس لیے خود بھی اصلاح کیجیے اور آنے والی نسلوں کے لیے عملی مثال بن کر ان میں مثبت سوچ اور فکر اجاگر دیجیے، کیوں کہ اسی میں خاندان اور معاشرہ کی بہتری اور سکھ ہے۔
آج ہم سب غرض کے ہی رہ گئے ہیں، غرض کے بندھن میں بندھے ہوئے، صرف اپنے کام نکلوا نے کے ماہر، اس کے بعد پہچاننا بھی مشکل۔۔۔اس میں صرف مرد ہی نہیں، خواتین بھی برابر کی شامل ہوچکی ہیں۔
ایسی خواتین بے مقصد کہیں آنا جانا تو درکنار، ایک فون بھی نہیں کرتیں، ورنہ حال چال پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتیں، ایک مرتبہ ہم نے اپنی ایک ملنے والی کو فون کیا، سلام دعا، خیر عافیت کے بعد اب ان کا انداز ایسا تھا کہ جی بتائیے۔۔۔؟ یا اب وہ مقصد بیان فرمائیے، جس کے تحت آپ نے فون کرنے کے لیے وقت نکالا؟ لیکن جب ہم نے یہ حیرت انگیز بیان دیا کہ ''کوئی کام نہیں، صرف بات کرنے کا جی چاہا۔۔'' تو شاید ان کو یہ بات ناقابلِ یقین محسوس ہوئی، شاید یہ کہنا چاہا کہ ارے مطلب کے بغیر آج کل کون کسی کو گھاس ڈالتا ہے۔
آج معاشرہ جتنی خود نمائی کا شکار ہے، ایک دوسرے سے گلے مل مل کر، اور گال سے گال ملا کر جس ان دیکھے پیار کا اظہار، اعلانیہ کیا جاتا ہے، کیا آپ حقیقتاً اسے دل سے محسوس کرتے بھی ہیں؟، یا ہمارے رویے تصنع اور بناوٹ میں لپٹے ہوئے ہیں۔
مصنوعی اور وقتی، دیکھ لیا تو گلے شکوے کر لیے، اس کے بعد یاد بھی نہیں آتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جس مشینی دور میں رہ رہے ہیں، جتنی مصروفیت ہم نے اپنے گرد بڑھا لی ہیں، اتنے ہی ہم وقت کی قید میں جکڑ گئی ہیں۔
ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس دوسرے کی خبر گیری کی فرصت ہی نہیں۔۔۔ فرصت کا لفظ تو شاید خواب و خیال بن گیا ہے۔ ورنہ جس سے بات کرو وہ ایک نہ ختم ہونے والے کاموں کی فہرست سنا دیتا ہے۔
جسے سن کر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے متاثر ہوا جائے یا پھر ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ گھریلو اور بیرون امور کی انجام دہی میں منہمک ہو کر ہم بھول ہی گئے ہیں کہ ہم انسانوں کے بنائے ہوئے معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں، ایک دوسرے کی خیر خواہی، دل جوئی، بھائی چارگی مقدم ہے۔ کاموں میں ہاتھ بٹانے، ایثار و احسان مندی کے مظاہرے سے اچھے جذبات پنپیں گے، تو انسانیت سرخرو ہوگی۔ ہمیں روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ ورنہ آج جس طرح بچے بچے کے ہاتھ میں 'گیجیٹ' آچکے ہیں، یہ ہم سے وہ نازک جذبات چھین رہے ہیں، جس سے انسانیت کی بنیادیں جڑی ہوئی ہیں۔
بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہیں، جس سے دوسروں کا دل جیتا جا سکتا ہے، لیکن شاید یہ ہمارے اردگرد شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسروں کے کام میں مداخلت، نکتہ چینی، اعتراض ہمارے وہ پسندیدہ ہتھیار ہیں۔ جسے ہم ہر وقت اور بروقت استعمال کر نے کے لیے تازہ دم رہتے ہیں۔ درگزر اور اعراض شاید ہماری ڈکشنری میں نہیں، خاموش رہنا اور غلطی کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ جانا ہماری فطرت نہیں، حالاں کہ یہی اچھی صفات آپ کو فرشتہ نہیں، لیکن فرشتہ صفت ضرور بنانے میں مدد دیں گی۔
گھر کے کاموں سے لے کر زندگی کے کسی بھی معاملات میں کسی کی پکار سے قبل اس کی مدد کر دینا۔ چھوٹے بڑے کاموں میں استطاعت کے مطابق ہاتھ بٹانا۔ جانی، مالی، اخلاقی، جو ممکن ہو سکے، آکر کھڑے ہو جانا۔ آپ کا زیادہ نہیں جا تا، اور شاید آپ بھول بھی جائیں، لیکن جس کے ساتھ بھلائی کی گئی ہو، وہ نہیں بھولے گا۔ چند میٹھے بول آپ کی شخصیت کو بھی چار چاند لگا دیتے ہیں، وگرنہ یہ آپ کی شخصیت کو گہنا بھی سکتے ہہں۔
بحثیت مسلم یہ ہماری تعلیمات میں شامل ہے۔ ساری کوشش اپنے اخلاق اور سلوک پر کرنی ہے۔ اسی کو توجہ و توانائی کی ضرورت ہے۔یہی سینکڑوں میں یاد رکھواتا ہے۔
ہم خواتین کو اپنی نسلوں تک یہ بات پہنچانی چاہیے، لیکن ہم تو اپنی اس پہچان اور شناخت کو کھو رہے ہیں۔ ہم کیوں اپنی ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھ رہے ہیں۔ یہ تو وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں، جو خوب صورت معاشرے کی ضامن ہیں۔ اس لیے لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن سیکھیے۔ آپس کے اختلافات بھلا کر تعلقات کو مضبوط کیجیے۔ نظروں سے گرنے اور دل سے اترنے میں بہت کم وقت صرف ہوتا ہے۔
آپ کے چند جملے کئی سالوں کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اس لیے خود بھی اصلاح کیجیے اور آنے والی نسلوں کے لیے عملی مثال بن کر ان میں مثبت سوچ اور فکر اجاگر دیجیے، کیوں کہ اسی میں خاندان اور معاشرہ کی بہتری اور سکھ ہے۔