مغرب کی بربریت اور بدنام بے چارے مسلمان
مغربی ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی کی طویل داستان ہے، لیکن اس کے باوجود بدنام مسلمان ہیں
ISLAMABAD:
''میں نے متعلقہ حکام کو 59 دستاویزات فراہم کیں، اور حمل کے دوران ذہنی تناؤ کے اثرات اور سہولتوں سے محروم ملک میں بچے کی پیدائش کے دوران خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ مگر اس سب کے باوجود مجھے اپنے ہی ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
لیکن طالبان، جن کے بارے میں دنیا پریشان ہے کہ یہ خواتین کے حقوق کو پامال کریں گے، یہ عورتوں کی آزادی کو سلب کرلیں گے، ان کے ہوتے ہوئے عورتیں ایک فطری زندگی نہیں جی سکیں گی۔ خود میں ان سے چند ماہ قبل پوچھ رہی تھی کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق یقینی بنانے کےلیے کیا کریں گے۔ اور آج ان کے حسن سلوک نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ میں یہی سوال اس ملک سے کررہی ہوں جو انسانی حقوق کا علمبردار ہے، جس کا یہ دعویٰ ہے کہ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کاتحفظ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ مگر وقت نے ان کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔''
مغرب کے اصلی چہرے کو ظاہر کرتی یہ مختصر سی روداد نیوزی لینڈ کی معروف صحافی شارلٹ بیلس کی ہے جو ایک انٹرنیشنل صحافتی ادارے کےلیے افغانستان میں رپورٹنگ کررہی تھیں۔ اسی دوران انہوں نے بچے کو جنم دینے کےلیے اپنے ملک واپس جانے کی کوشش کی مگر انسانی حقوق کے علمبردار ملک نیوزی لینڈ نے انہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی داخلے کی اجازت نہیں دی۔
مندرجہ بالا واقعہ دنیا کے سامنے طالبان کی اصل تصویر پیش کرنے کےلیے کافی ہے۔
صرف ایک نیوزی لینڈ ہی نہیں آج کا یورپ دو چہروں کا حامل ہے، اور گزرتے وقت کے ساتھ دنیا پر حقیقت آشکار ہوتی جارہی ہے۔
مسلم دنیا میں ہونے والے اِکا دُکا واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اپنی اور اپنے دوست ممالک کی بربریت کی داستانوں پر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ برسوں میں بھارتی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں 22 ہزار 924 خواتین بیوہ ہوئیں۔ 11 ہزار 236 خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ 2020 میں سوئیڈن میں خواتین پر 16,461 حملے کیے گئے جو دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2019 میں ہونے والے 14,261 واقعات سے 15.4 زیادہ ہیں۔
دیگر مغربی ممالک میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پامالی کی طویل داستان ہے، لیکن اس سب کے باوجود بدنام بیچارے مسلمان ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے آج مسلم دنیا بدنام کیوں ہے؟ آج ہم عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے باوجود ظالم کیوں ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے اس کی وجہ معاشی کمزوری ہے۔ مغرب اپنے تمام تر ظلم و ستم، عورت کو کھلونا بنانے، عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے، عورت کو برائے فروخت بنانے کے باوجود، عورت کے حقوق کا چیمپئن ہے کیونکہ ہم منگتے ہیں، ہم معاشی طور پر غلام ہیں۔ ہمیں قرض کی بھیک نہ ملے تو ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے ہم عورت کو عزت و تکریم دے رہے ہیں لیکن پھر بھی ظالم ہیں۔ ہمارا مثبت چہرہ بھی دنیا کو منفی نظر آتا ہے۔ بقول شاعر
ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام عالم عورتوں کے حقوق کے اسلامی منشور کو عملی طور پر اپنائے۔ نعروں، وعدوں، سیمنارز، تقاریر سے آگے بڑھ کر عورت کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عزت و احترام دیا جائے کیونکہ اسی میں امن، سکون، عورتوں کا تحفظ اور صحت مند معاشرے کی بقا ہے۔ اور آخری بات مغرب مسلم دنیا بالخصوص طالبان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کی حوصلہ شکنی کرے۔ کیونکہ سچائی زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی اور جب وہ ظاہر ہوتی ہے تو جھوٹ کی تمام محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''میں نے متعلقہ حکام کو 59 دستاویزات فراہم کیں، اور حمل کے دوران ذہنی تناؤ کے اثرات اور سہولتوں سے محروم ملک میں بچے کی پیدائش کے دوران خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ مگر اس سب کے باوجود مجھے اپنے ہی ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
لیکن طالبان، جن کے بارے میں دنیا پریشان ہے کہ یہ خواتین کے حقوق کو پامال کریں گے، یہ عورتوں کی آزادی کو سلب کرلیں گے، ان کے ہوتے ہوئے عورتیں ایک فطری زندگی نہیں جی سکیں گی۔ خود میں ان سے چند ماہ قبل پوچھ رہی تھی کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق یقینی بنانے کےلیے کیا کریں گے۔ اور آج ان کے حسن سلوک نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ میں یہی سوال اس ملک سے کررہی ہوں جو انسانی حقوق کا علمبردار ہے، جس کا یہ دعویٰ ہے کہ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کاتحفظ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ مگر وقت نے ان کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔''
مغرب کے اصلی چہرے کو ظاہر کرتی یہ مختصر سی روداد نیوزی لینڈ کی معروف صحافی شارلٹ بیلس کی ہے جو ایک انٹرنیشنل صحافتی ادارے کےلیے افغانستان میں رپورٹنگ کررہی تھیں۔ اسی دوران انہوں نے بچے کو جنم دینے کےلیے اپنے ملک واپس جانے کی کوشش کی مگر انسانی حقوق کے علمبردار ملک نیوزی لینڈ نے انہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی داخلے کی اجازت نہیں دی۔
مندرجہ بالا واقعہ دنیا کے سامنے طالبان کی اصل تصویر پیش کرنے کےلیے کافی ہے۔
صرف ایک نیوزی لینڈ ہی نہیں آج کا یورپ دو چہروں کا حامل ہے، اور گزرتے وقت کے ساتھ دنیا پر حقیقت آشکار ہوتی جارہی ہے۔
مسلم دنیا میں ہونے والے اِکا دُکا واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اپنی اور اپنے دوست ممالک کی بربریت کی داستانوں پر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ برسوں میں بھارتی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں 22 ہزار 924 خواتین بیوہ ہوئیں۔ 11 ہزار 236 خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ 2020 میں سوئیڈن میں خواتین پر 16,461 حملے کیے گئے جو دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2019 میں ہونے والے 14,261 واقعات سے 15.4 زیادہ ہیں۔
دیگر مغربی ممالک میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پامالی کی طویل داستان ہے، لیکن اس سب کے باوجود بدنام بیچارے مسلمان ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے آج مسلم دنیا بدنام کیوں ہے؟ آج ہم عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے باوجود ظالم کیوں ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے اس کی وجہ معاشی کمزوری ہے۔ مغرب اپنے تمام تر ظلم و ستم، عورت کو کھلونا بنانے، عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے، عورت کو برائے فروخت بنانے کے باوجود، عورت کے حقوق کا چیمپئن ہے کیونکہ ہم منگتے ہیں، ہم معاشی طور پر غلام ہیں۔ ہمیں قرض کی بھیک نہ ملے تو ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے ہم عورت کو عزت و تکریم دے رہے ہیں لیکن پھر بھی ظالم ہیں۔ ہمارا مثبت چہرہ بھی دنیا کو منفی نظر آتا ہے۔ بقول شاعر
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام عالم عورتوں کے حقوق کے اسلامی منشور کو عملی طور پر اپنائے۔ نعروں، وعدوں، سیمنارز، تقاریر سے آگے بڑھ کر عورت کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عزت و احترام دیا جائے کیونکہ اسی میں امن، سکون، عورتوں کا تحفظ اور صحت مند معاشرے کی بقا ہے۔ اور آخری بات مغرب مسلم دنیا بالخصوص طالبان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کی حوصلہ شکنی کرے۔ کیونکہ سچائی زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی اور جب وہ ظاہر ہوتی ہے تو جھوٹ کی تمام محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔