مشکل میں پھنسے عوام
حکومت مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر مطمئن ہے اور اپوزیشن مہنگائی کا ذمے دار حکومت کو قرار دیتی آ رہی ہے
DUBAI:
وفاقی وزیروں کے مطابق 2023 سے قبل مہنگائی کا جن بوتل میں بند کردیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں میں اعتماد کا فقدان ہے ، وہ تحریک اعتماد لا ہی نہیں سکتیں۔
وفاقی وزرا پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت کو ایک نااہل و منتشر اپوزیشن ملی ہے جو اپنی نالائقی کے باعث اب تک حکومت کا کچھ بگاڑ سکی ہے نہ بگاڑ سکے گی۔ اپوزیشن لانگ مارچ کی محض باتیں کرتی ہے، وہ کبھی متحد ہوگی اور نہ کوئی لانگ مارچ کر اور دھرنا دے سکے گی اور مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔
پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ بس بہت ہو گیا۔ عوام 27 فروری کو عمران خان سے مہنگائی کا حساب لیں گے اور اپنے لانگ مارچ کے ذریعے عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیں گے اور حکومت کو بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرنے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے سندھ کے وزیروں کا کہنا ہے کہ بحرانوں کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نااہل حکومت اور ان کی نالائقیوں نے ملک میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری موجودہ حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے اور جلد حکومت کی کرپشن بے نقاب ہوگی اور حکومت کا جلد اختتام ہوگا۔ حکومت نے عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ عوام کو مہنگائی اور معاشی بحران سے نجات دلائے گا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ مہنگائی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے اب حکومت اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جے یو آئی کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ حکومت نے عوام کو خودکشیوں پر مجبور اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اسی لیے پی ڈی ایم 23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرے گی۔
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ منحوس تبدیلی کے نام پر عوام کا معاشی قتل عام جاری ہے اور حکومت ہر 15 روز بعد پٹرولیم مصنوعات کے اضافے سے خود مہنگائی بڑھا رہی ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے کی طرف سے مہنگائی کے خلاف کوئی موثر بیان بازی بھی نہیں کی جا رہی اور تینوں پرانی تنخواہ پر کام کر رہی ہیں اور ان کے رہنما حکومتی حلیف کی حیثیت سے سیاسی اور ذاتی مفادات سمیٹ رہے ہیں۔
حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت خصوصاً وزیر اعظم کو نااہل اور نالائق کہہ کر اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور ان کے درمیان پھنسے عوام ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے ہیں۔
حکومت مہنگائی کو اپنی نااہلی ماننے کی بجائے ساڑھے تین سال بعد بھی ماضی کی حکومتوں کو ذمے دار قرار دے رہی ہے اور منتشر اپوزیشن ملک میں ریکارڈ مہنگائی کا ذمے دار موجودہ حکومت کی نااہلی کے خلاف روزانہ کی بیان بازی کے بعد اب الگ الگ مہنگائی کو جواز بنا کر ملک گیر تحریک چلانے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلانات کرچکی ہے جس کی تیاریاں شروع بھی ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس بات پر متفق ہے کہ اگر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی 23 مارچ اور 27 فروری کو الگ الگ لانگ مارچ کرنے کی بجائے کسی درمیانی تاریخ پر مل کر مہنگائی کے خلاف مشترکہ احتجاج اور لانگ مارچ کریں تو وہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف عوام میں غصہ ہے اور لاوا ابل رہا ہے مگر حکومت تو مہنگائی کو عوام کا سب سے اہم مسئلہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے اور (ق) لیگ کے صدر بھی مہنگائی پر اب کچھ بولے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے ہر لیڈر حکومت میں آنے سے پہلے مہنگائی کا شور تو مچاتا ہے لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ معاشی مسائل کا حل کیسے نکلے گا۔ چوہدری شجاعت کو عوام سے زیادہ تنخواہ داروں کی فکر زیادہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ مہنگائی سے متاثرہ اسی طبقے سے انقلاب آئے گا۔
سابق وزیر اعظم اور حکومتی حلیف مانتے ہیں کہ مہنگائی مہینے میں دو بار بڑھ جاتی ہے مگر انھوں نے بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی تجویز نہیں دی۔ (ن) لیگی رہنما، پی پی اور جے یو آئی و جماعت اسلامی کے رہنما مہنگائی پر حکومت پر برس ضرور رہے ہیں مگر مل کر کچھ کرنے پر تیار نہیں۔ چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ان مسائل کا حل نکالیں جب کہ حکومت تو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے پر بھی تیار نہیں اور عوام حکومت اور اپوزیشن کی بیان بازیوں سے پیٹ نہیں بھر سکتے اس لیے دونوں نااہلوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔
حکومت مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر مطمئن ہے اور اپوزیشن مہنگائی کا ذمے دار حکومت کو قرار دیتی آ رہی ہے اور قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں کچھ کرنے سے بے بس ہے اور آج تک قومی اسمبلی میں احتجاج اور شور کے سوا کچھ نہیں کرسکی مگر بلند و بانگ دعوے ضرور کرتی رہی اور حکومت کو مہنگائی بڑھانے سے نہیں روک سکی اور نہ ہی کوئی حکومت رکی ہے۔ عوام دونوں نااہلوں کی باتیں سن رہی ہے اور اس کے ہاتھ میں خاموشی اور صبر کے سوا کچھ نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ نئے الیکشن میں ہی فیصلہ دے سکے گی۔
وفاقی وزیروں کے مطابق 2023 سے قبل مہنگائی کا جن بوتل میں بند کردیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں میں اعتماد کا فقدان ہے ، وہ تحریک اعتماد لا ہی نہیں سکتیں۔
وفاقی وزرا پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت کو ایک نااہل و منتشر اپوزیشن ملی ہے جو اپنی نالائقی کے باعث اب تک حکومت کا کچھ بگاڑ سکی ہے نہ بگاڑ سکے گی۔ اپوزیشن لانگ مارچ کی محض باتیں کرتی ہے، وہ کبھی متحد ہوگی اور نہ کوئی لانگ مارچ کر اور دھرنا دے سکے گی اور مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔
پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ بس بہت ہو گیا۔ عوام 27 فروری کو عمران خان سے مہنگائی کا حساب لیں گے اور اپنے لانگ مارچ کے ذریعے عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیں گے اور حکومت کو بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرنے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے سندھ کے وزیروں کا کہنا ہے کہ بحرانوں کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نااہل حکومت اور ان کی نالائقیوں نے ملک میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری موجودہ حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے اور جلد حکومت کی کرپشن بے نقاب ہوگی اور حکومت کا جلد اختتام ہوگا۔ حکومت نے عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ عوام کو مہنگائی اور معاشی بحران سے نجات دلائے گا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ مہنگائی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے اب حکومت اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جے یو آئی کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ حکومت نے عوام کو خودکشیوں پر مجبور اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اسی لیے پی ڈی ایم 23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرے گی۔
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ منحوس تبدیلی کے نام پر عوام کا معاشی قتل عام جاری ہے اور حکومت ہر 15 روز بعد پٹرولیم مصنوعات کے اضافے سے خود مہنگائی بڑھا رہی ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے کی طرف سے مہنگائی کے خلاف کوئی موثر بیان بازی بھی نہیں کی جا رہی اور تینوں پرانی تنخواہ پر کام کر رہی ہیں اور ان کے رہنما حکومتی حلیف کی حیثیت سے سیاسی اور ذاتی مفادات سمیٹ رہے ہیں۔
حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت خصوصاً وزیر اعظم کو نااہل اور نالائق کہہ کر اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور ان کے درمیان پھنسے عوام ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے ہیں۔
حکومت مہنگائی کو اپنی نااہلی ماننے کی بجائے ساڑھے تین سال بعد بھی ماضی کی حکومتوں کو ذمے دار قرار دے رہی ہے اور منتشر اپوزیشن ملک میں ریکارڈ مہنگائی کا ذمے دار موجودہ حکومت کی نااہلی کے خلاف روزانہ کی بیان بازی کے بعد اب الگ الگ مہنگائی کو جواز بنا کر ملک گیر تحریک چلانے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلانات کرچکی ہے جس کی تیاریاں شروع بھی ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس بات پر متفق ہے کہ اگر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی 23 مارچ اور 27 فروری کو الگ الگ لانگ مارچ کرنے کی بجائے کسی درمیانی تاریخ پر مل کر مہنگائی کے خلاف مشترکہ احتجاج اور لانگ مارچ کریں تو وہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف عوام میں غصہ ہے اور لاوا ابل رہا ہے مگر حکومت تو مہنگائی کو عوام کا سب سے اہم مسئلہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے اور (ق) لیگ کے صدر بھی مہنگائی پر اب کچھ بولے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے ہر لیڈر حکومت میں آنے سے پہلے مہنگائی کا شور تو مچاتا ہے لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ معاشی مسائل کا حل کیسے نکلے گا۔ چوہدری شجاعت کو عوام سے زیادہ تنخواہ داروں کی فکر زیادہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ مہنگائی سے متاثرہ اسی طبقے سے انقلاب آئے گا۔
سابق وزیر اعظم اور حکومتی حلیف مانتے ہیں کہ مہنگائی مہینے میں دو بار بڑھ جاتی ہے مگر انھوں نے بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی تجویز نہیں دی۔ (ن) لیگی رہنما، پی پی اور جے یو آئی و جماعت اسلامی کے رہنما مہنگائی پر حکومت پر برس ضرور رہے ہیں مگر مل کر کچھ کرنے پر تیار نہیں۔ چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ان مسائل کا حل نکالیں جب کہ حکومت تو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے پر بھی تیار نہیں اور عوام حکومت اور اپوزیشن کی بیان بازیوں سے پیٹ نہیں بھر سکتے اس لیے دونوں نااہلوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔
حکومت مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر مطمئن ہے اور اپوزیشن مہنگائی کا ذمے دار حکومت کو قرار دیتی آ رہی ہے اور قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں کچھ کرنے سے بے بس ہے اور آج تک قومی اسمبلی میں احتجاج اور شور کے سوا کچھ نہیں کرسکی مگر بلند و بانگ دعوے ضرور کرتی رہی اور حکومت کو مہنگائی بڑھانے سے نہیں روک سکی اور نہ ہی کوئی حکومت رکی ہے۔ عوام دونوں نااہلوں کی باتیں سن رہی ہے اور اس کے ہاتھ میں خاموشی اور صبر کے سوا کچھ نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ نئے الیکشن میں ہی فیصلہ دے سکے گی۔